تازہ ترین

ہفتہ، 11 نومبر، 2017

حضرت علی رض ایک تعارف۔


حضرت علی رض ایک تعارف۔
تحریر،عبد الرحمن آفاق متعلم مدرسۃ الاصلاح۔
حضرت علی کی ولادت
۱۳رجب ۲۳ ق ھ بمطابق ۱۷ مارچ ۵۹۹ء بروز جمعرات کو شہر مکہ خانہ کعبہ میں ہوئ ۔
آپ کے والد کا نام ابو طالب اور والدہ کا نام فاطمہ بنت اسد تھا۔حضرت علی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی تھے بچپن ہی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پرورش پائ اور آپ کی زیر نگرانی حضرت علی کی تربیت ہوئی۔حضرت علی نے بچوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا اس وقت آپ کی عمر تقریباً ۱۰ یا ۱۱ برس تھی۔جہاد سمیت اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی کام میں آپ کو انکار نہ تھا آپ ہمہ وقت خدمت الہی کے لیۓ تیار رہتے تھے یہ کام مختلف قسموں کا ہوتا رسول کی طرف سے عہد ناموں کا لکھنا خطوط تحریر کرنا آپ کے ذمہ تھا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ حضرت علی کو یمن کی جانب تبلیغ اسلام کے لیۓ روانہ کیا آپ کی کامیاب تبلیغ کا اثر یہ تھا کہ پورا یمن مشرف باسلام ہوگیا ۔اسکے علاوہ رسول کی ہر طرح خدمت کو تیار رہتے تھے ایک مرتبہ دیکھا گیا رسول کی جوتیاں سی رہے ہیں اور اسے اپنے لیۓ باعث مسرت سمجھتے تھے۔جس نے پوری زندگی رسول کا ساتھ دیا بعد رسول آپکے جسد اطہر کو کس طرح چھوڑتا چنانچہ آپ کی تجہیز و تکفین غسل و کفن کا کام آپ کے ہاتھوں ہوا حتی کہ قبر میں رسول کو آپ ہی نے اتارا ۔
اسکے بعد پوری جوش و جذبہ کے ساتھ اسلام کی روحانی و علمی خدمت انجام دی اور مسلمانوں کے علمی حلقے میں تصنیف و تالیف اور علمی ذوق پیدا کیا اور بہت سے ایسے شاگرد تیار کئے جو مسلمانوں کی آیندہ زندگی کیلیۓ معمار کا کام انجام دے سکیں ۔بہادری کا یہ عالم تھا کہ غزوۃ بدر ( اسلام کی پہلی لڑائ ) میں اتنی ہمت و شجاعت کا مظاہرہ کیا کہ ۲۵ برس کی عمر میں ہی جنگی فتح کا سہرا علی بن ابی طالب کے سر رہا ، اسکے علاوہ غزوہ احد ، غزوہ خندق خیبر اور غزوہ حنین میں آپ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہ اپنی بے نظیر بہادری کے جوہر دکھلائے ۔غزوہ خندق میں دشمن کے سب سے بڑے سورما عمر وبن عبدود کا سر کاٹنے کے لیۓ جب اسکے سینے پر بیٹھے تو اس نے آپ کے چہرے پر لعب دہن پھینک دیا چنانچہ آپ اسکے سینے سے فوراً ہٹ گۓ کہ گر اسکو قتل کیا تو یہ عمل خدا کی راہ میں نہ ہوگا بلکہ خواہش نفس کے مطابق ہوگا ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ۲۵ برس آپ نے خانہ نشینی میں بسر کی حضرت عثمان غنی کی شہادت کے بعد جب آپ نے مسلمانوں کے اصرار پر منصب خلافت کو سنبھالا تو حکومت قران اور سنت رسول کو سامنے رکھ کر کی ۔
آپ کی خالص مذہبی سلطنت کو زمانہ برداشت نہ کر سکا اور آپ کے خلاف بنو امیہ اور بہت سے وہ لوگ کھڑے ہو گئے جنھیں آپ کی حکومت میں اپنے اقتدار کے زائل ہونے کا خطرہ تھا چنانچہ جمل، صفین ، نہروان ، کی خون ریز لڑائیاں ہوئیں آپ نے اس مختصر مدّت میں اسلام کی سادہ زندگی بسر کی اور نیک کمائی کے لیۓ محنت و مزدوری کے نقش تازہ کردئیے آپ شہنشاہ اسلام ہونے کے باوجود کھجور بیچنا برا نہیں سمجھتے تھے اور پیوند لگے ہوئے کپڑے پہنتے تھے ۔حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ۱۹ رمضان 40 ھ (660)ء صبح نماز میں تھے کہ آپ پر زہر والی تلوار سے وار کیا گیا آپکی شفقت اور رحم دلی کا یہ عالم تھا کہ آپ نے اپنے دونوں فرزندوں ( حسن و حسین ) سے کہا کہ اسکے ساتھ کوئ سختی نہ برتنا جو خود کھانا اسکو بھی وہی کھلانا اگر میں صحت یاب ہوا تو جو چاہوں گا اسکے ساتھ کرونگا اور اگر اپنے رب کریم کے جوار رحمت میں چلا گیا تو گر اس انتقام لینا چاہو تو ایک ضرب لگانا کیونکہ اس نے مجھے ایک ضرب مرا ہے ۔دو دن مرض الموت پر سخت کرب و تکلیف میں رہے آخر زہر جسم میں پھیل گیا اور ۲۱ رمضان 40 ھ بمطابق ۲۷ جنوری ء کو نماز صبح کے وقت آپ کی شہادت ہوئی اور کوفہ پر نجف کی سر زمین میں آپ کی تدفین ہوئی۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad