تازہ ترین

بدھ، 15 جنوری، 2020

جمعیة علماءکے دونوں دھڑ ،کنہیا کماراور ایک اہم گذارش

از: مفتى محمد انتخاب ندوى

آج سرزمین ہند جس تیزی اور رفتار کے ساتھ،کرپشن اور فساد کی طرف بڑھ رہی ہے، اس سے دنیا کا ہر فرد بشر بالخصوص مسلمانوں کی ملی وسماجی تنظیم جمعیة علماۂند کے دونوں دھڑ بخوبی آشنا ہیں، ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ یہاں کے سیکولرزم کو فاشسٹ طاقتیں بالخصوص 1925 میں بنی آر، ایس، ایس کی تنظیم اپنے نوے سالہ پرانے ایجنڈے کو بروئے کار لانے اور گوڈسے وساورکر کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے پوری قوت کے ساتھ نقصان پہنچارہی ہے، جس دستور وقانون کی روشنی میں یہاں کے ہر باشندے کو بھائی بھائی بناکر ہر ایک کو دوسرے کے تئیں پرسان حال اور غم خوار بنایاگیا تھا، آج اسی دستور کو نذ ر آتش کرتے ہوئے اقلیت واکثریت کے درمیان ایک خطرنا ک جنگ بپا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، جس آئین کو ڈاکٹر بھیم راو امبیڈکر نے 2/سال 11/مہینے اور 18/دن میں پوری دنیا کے قوانین کے مطالعہ کے بعد تیار کرکے 282 دانشوروں کے دستخطوں کے ساتھ بھارت کو پوری دنیا کے لئے ایک خوبصورت گلدستہ کی شکل میں پیش کیا تھا، آج اسی آئین میں بے جا تبدیل وترمیم  کرکے ایک ایسی آگ لگائی جارہی ہے کہ اس میں بدون کسی تفریق مذہب کے ہرانسا ن جل رہا ہے۔

 جن اقلیتوں نے آزادی ہند کے خاطر اپنی تن من دھن کی بازی لگادی تھی، آج انہیں این آر سی اور سی اے اےکے ذریعہ گھسپیٹی کا الزام لگاتے ہوئے ملک سے باہر کرنے کا کھیل کھیلا جارہا ہے، اگر اس کے خلاف پورے ملک میں بالخصوص کالجزز جامعات اور یونیورسیٹوں میں سکیولر طلبہ اور طالبات پر امن احتجاجات اپنا آئینی حق سمجھتے ہوئے کرتے ہیں تو ان پر وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کے ایمائپر پولیس والے بے رحمی کے ساتھ لاٹھیا ں چارج کرتے ہیں، لائبریری میں مطالعہ کرتے ہوئے طلبہ وطالبات پر آنسو گیس چھوڑتے ہیں، اور ستم در ستم ایے ایم یو کے وائس چانسلر نے تو اس وقت حد ہی کردی جب کہ اس نے سمودھان کی حفاظت کرنے والے طلبہ و طالبات کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے، پولیس والوں کی حمایت کرتا ہے، بہر کیف پر امن احتجاج بلند کرنے والے باشندگان ہند بدون کسی خوف وہراس کے شبنم کی آغوش میں آئین ہند کی حفاظت کے لئے تمام ظلم وبربریت کے تیر برداشت کرتے رہے، اور اب تلک کررہے ہیں، انقلاب زندہ آباد کا نعرہ لگاتے رہے، اور اب تلک لگارہے ہیں،قارئین! ایسے پر خطر حالات میں جب کہ گولیوں اور بارودوں کی آواز سے دہلی لکھنو بہار، جھاڑ کھنڈ،بنگال،اروناچل پردیش، تری پورہ، میزورم، بل کہ بھارت کے اکثر صوبے دہل اٹھے تھے۔

ہر ایک کی نظر اس تنظیم کو تلاش کرہی تھی جس نے تحریک آزادی میں انگریزوں کو جھکنے پر مجبور کردیا تھا،جس نے احقاق حق اور ابطال باطل کا فریضہ انجام دیتے ہوئے پھانسی کے پھندوں کو چوما تھا، اور وہ تنظیم، جمعیة علماۂند، تھی، یہی وہ جمعیة ہے جس کی ایک آواز پر ہندوستان کا ہر سیکولر ذہن لبیک کہتا ہوا، او ر سیلاب کی طرح امڈتا ہوا، رام لیلا کو بھر دیا کرتا تھا، لیکن آج جب پولیس کے ڈنڈے جامعہ ملیہ، ایے، ایم ایو اور جے این یو کے طلبہ کا خون بہا رہے ہیں، ان کی گولیاں انکی پیٹھوں کو چھلنی کررہی ہیں، اور یہ خاموش تماشہ دیکھ رہی ہے، مجھے معاف کیا جائے اگرچہ چھوٹا منھ بڑی بات ہوگی، کیا یہ سچ نہیں ہے کہ جب سے 370 کی حمایت میں جمعیة علمائکے دونوں دھڑوں کی آواز بلند ہوئی، اسی وقت سے آر، ایس، ایس کی غنڈہ گردی میں اضافہ نہیں ہوا؟ بابری مسجد اس کے بعد ہمارے ھاتھ سے نہیں نکلی، این آر سی،سی اے اے اسکے بعد کی پیدوار نہیں ہے،؟ کاش اول وہلہ میں اس کے دانت توڑ دیئے ہوتے، تو یقینا آج اقلیتوں بالخصوص مزدوروں اور کسانوں پر یہ ظلم نہیں ڈھایا جاسکتا، بہر کیف جو ہوا، سو ہوا۔، اب بھی ہم جمعیة علمائکے دونوں دھڑوں سے نا امید نہیں ہوئے ہیں۔ ہم قدم قدم پر آپ کے ساتھ ہیں، اب بھی ہم آپ کے اشارے پر اپنی جان نثار کرسکتے ہیں، مگرایک اہم گذارش ہے، اگر ان پر توجہ دی جائے تو تلافی مافات کی گنجائش پیدا ہوسکتی ہے۔

 او ر کسکتی اور بلکتی امت پر مرہم لگایا جاسکتا ہے، جس طرح جمعیة نے آزادی کی لڑائی میں ہندومسلم کو جوڑنے کے لئے موہن داس کرم چند داس گاندھی کو اپنا اسٹیج دیکر کشادہ قلبی اور دور اندیشی کا ثبوت پیش کیا تھا، اسی طرح آج بھی اس بات کی ضرورت ہے کہ ایک ایسی شخصیت کو گاندھی بنایا جائے جس کی رگوں میں سیکولر خون ہو، جو سیکولر مزاج کا حامل ہو، جس کی پر سوز صدائپر پورا بھارت دوڑ پڑتا ہو، جس کی پیٹھ پولیس کے ڈنڈے برداشت کرنے کی عادی بن چکی ہو، جو حکومت ہٹلر کی آنکھو ںمیں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی ہمت رکھتی ہو،جو ہندومسلم عیسائی کی صفوں میں یکساں نظر آتی ہو، تو وہ صرف اور صرف عزت مآب کنہیا کمار کی شخصیت ہے۔واضح رہے ک یہ صرف میری ہی آواز نہیں، بل کہ ہندوستان کے بڑے بڑے ماہرین، نگہ بلند، سخن دل نواز، اور جاں پرسوز کے حاملین بالخصوص جمعیة علمائمہراج اور علمائکونسل اتر پردیش کے سرپرست حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب قاسمی، جناب مولانا طارق شفیق صاحب ندوی، ضلع پورنیہ بہار کے مشہور عالم دین مولانا کلیم الدین قاسمی وغیرہم کی بھی آواز ہے، کیوں کہ یہ ہر وقت ہمہ آن زمینی سطح پر لوگوں کے مسیحا بن کر ان کے زخموں پر مرہم لگاتے رہتے ہیں۔

 لوگوں کے گلہ وشکوے سن سن کر خون کے آنسو روتے ہیں۔بہرحال اگر آج جمعیة علمائکے دونوں دھڑ کنہیا کمار کو مہاتما گاندھی کی طرح اپنی پلکوں پر بٹھاتے ہیں، انہیں ایوارڈ کے ساتھ ساتھ خطاب سے نوازتے ہیں، قدم قدم پر روپیوں اور اسٹیجوں کے ذریعہ ان سے خطابات عامہ کرواتے ہیں، تو وہ دن دور نہیں جب کہ حضرت مولانا سید ارشد مدنی اور حضرت مولانا سید محمود مدنی کی قیادت میں پھر سے یہ قوم آگے بڑھے گی، اور جس کرسی پر بیٹھ کر وقت کا ہٹلر آئین ہند کو تارتار کررہا ہے، اسی کرسی پر قائد قوم کو بٹھائے گى، آج جوسرزمین ہند گیدڑوں کی آماجگاہ بن چکی ہے اسے پھر سے آپ کی قیادت میں شیروں کی کچھار بنائے گی جن عدل و انصاف کی کرسیوں پر اٹھائی گیر چور اور اچکے براجمان ہوچکے ہیں ان پر پھر سے سیکولر افکار کے حاملین کو بٹھائی گی اور ایک بار پھر آلام و مصائب کی تاریک راتوں میں امید کی قندیلیں بلند کرے گی اور زاغوں کے تصرف سے آئین ہند کو نکالے گی۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad