تازہ ترین

ہفتہ، 4 جنوری، 2020

وقت کی اہمیت (نئے سال کے پس منظر میں۔

تحریر:مقبول احمد سلفی،اسلامک دعوۃ سنٹرشمالی طائف(مسرہ۔

جنوری آتے ہی پچھلا سال پرانا اور آنے والا "نیا سال" ہوجاتا ہے، اس موقع پر پہلی جنوری کو دنیا بھر میں لوگ خوشیاں مناتے ہیں، خوشی منانے کے نام پرمذہبی یاسماجی خدمات نہیں انجام دی جاتیں بلکہ کفرومعصیت، رقص وسرود،فسق وفجور اور شراب وکباب کی مستیاں چلتی ہیں حتی کہ زناکاریاں اورعیاشیاں تک کی جاتی ہیں۔ اللہ کی پناہ ایسی خوشی اور اظہار خوشی کے فحش طریقوں سے۔ آپ اگر ان لوگوں کا جائزہ لیں جو ایسی خوشیاں مناتے ہیں تو معلوم ہوگا کہ وہ درحقیقت وقت کی اہمیت سے لاپرواہ اور زندگی کیاصل مقصد سے کوسوں دور ہوتے ہیں۔ اسلام میں وقت کوبڑی اہمیت حاصل ہیاس وجہ سے انسانی زندگی کا ایک ایک پل اور ایک ایک لمحہ بہت ہی قیمتی ہے۔ وقت وہ قیمتی سرمایہ ہے جس کی بنیاد پر آخرت میں فیصلہ ہوگا اور ہرشخص کو اس کے مطابق نتیجہ ملے گایعنی جس انسان کا دنیاوی وقت اچھا ہوگا آخرت میں اس کا نتیجہ بھی اچھا ہوگا اور جس کا دنیاوی وقت برا گزرا ہوگااس کے ساتھ آخرت میں بھی برا ہی ہوگا۔

مومن اور کافر کی زندگی میں بنیادی فرق یہ ہے کہ کافر دنیا کو عیش وعشرت اور کھانے پینے کی جگہ سمجھتا ہیاوراسی حساب سے زندگی گزارتا ہیجس کی پاداش میں اللہ اسے جہنم رسیدکریگا جبکہ مومن اس دنیا کو آخرت کی تیاری کی جگہ خیال کرتا ہے اور اللہ کے عذاب اور جہنم سے خوف کھاکر یہاں کفر ومعصیت سے بچتا اور ایمان وعمل صالح کا کام کرتا ہے جس کے بدلے میں اللہ اسے باغوں والے جنت میں داخل کرے گا۔ اللہ کا فرمان ہے:إِنَّ اللَّہَ یُدْخِلُ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِن تَحْتِہَا الْأَنْہَارُ  وَالَّذِینَ کَفَرُوا یَتَمَتَّعُونَ وَیَأْکُلُونَ کَمَا تَأْکُلُ الْأَنْعَامُ وَالنَّارُ مَثْوًی لَّہُمْ (محمد:12)ترجمہ: جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کئے انہیں اللہ تعالٰی یقیناً ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہیں اور جو لوگ کافر ہوئے وہ (دنیا ہی کا) فائدہ اٹھا رہے ہیں اور مثل چوپایوں کے کھا رہے ہیں ان کا اصل ٹھکانا جہنم ہے۔

اس آیت پر غورکرتے ہوئے ابن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ قول بھی مدنظررکھیں جسے ابن مبارک رحمہ اللہ نیاپنی کتاب الزہد والرقائق میں ذکر کیا ہے،آپ فرماتے ہیں:لَیَأْتِیَنَّ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ یَکُونُ ہَمُّ أَحَدِہِمْ فِی بَطْنِہِ، وَدِینُہُ ہَوَاہُ۔ (حوالہ: الزہد والرقائق لابن المبارک, بَابٌ: فِی طَلَبِ الْحَلالِ, رقم الحدیث: 601)ترجمہ: لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جس میں آدمی کا اہم مقصد پیٹ پالنا ہوگا اور اپنی خواہش پر چلنا اس کا دین ہوگا۔آج مسلمانوں کے حالات پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں ان کی زندگی میں وہ مومنانہ کردارنظر نہیں آتا جس کا ذکر اللہ نے مذکور ہ آیت میں کیا ہے بلکہ وہ طرززندگی نظر آتی ہے جس کا ذکر ابن عباس رضی اللہ عنہما کررہے ہیں۔ واقعی عین وہی زمانہ مسلمانوں پر آگیا ہے، ایک طرف حرام وحلال کی پرواہ کئے بغیرلوگ پیٹ بھرنا ہی مقصدحیات سمجھ بیٹھے ہیں تو دوسری طرف دنیا پرستی، نفس پرستی،قبر پرستی، شخصیت پرستی اور بدعت وضلالت کو دین کا نام دے کر بڑے اخلاص سے انہیں انجام دیا جارہا ہے۔

دنیا پرستی نے ہمیں مقصد حیات سے اس قدر دورہٹادیا کہ ماہ وسال کس رفتار سے گزررہے ہیں اس کا ادراک وشعور ناپید ہوتا جارہا ہے، ایسا محسوس ہونادراصل قیامت کی ایک اہم نشانی ہے، نبی ﷺ کا فرمان ہے: لا تقومُ السَّاعۃُ حتَّی یتقارَبَ الزَّمانُ، فتَکونُ السَّنۃُ کالشَّہرِ، والشَّہرُ کالجُمُعۃِ، وتَکونُ الجمعۃُ کالیَومِ، ویَکونُ الیومُ کالسَّاعۃِ، وتَکونُ السَّاعۃُ کالضَّرمۃِ بالنَّارِ(صحیح الترمذی:2332)ترجمہ:یامت نہیں قائم ہو گی یہاں تک کہ زمانہ قریب ہو جائے گا،سال ایک مہینہ کے برابر ہو جائے گا جب کہ ایک مہینہ ایک ہفتہ کے برابر اور ایک ہفتہ ایک دن کے برابر اور ایک دن ایک ساعت (گھڑی) کے برابر ہو جائے گا اور ایک ساعت (گھڑی) آگ سے پیدا ہونے والی چنگاری کے برابر ہو جائے گی۔زمانہ قریب ہوجانے کا مطلب یہ ہے کہ زمانے کی برکات وفوائد ختم ہوجائیں گے، نقصان ہی نقصان ہوگا اور یہ بھی مطلب ہے کہ لوگ دنیا میں ایک قدرمست ومگن ہوجائیں گے کہ ماہ وسال کس طرح گزررہے ہیں اس کا احساس جاتا رہے گا۔ 

اس بات کو مثال سے اس طرح سمجھیں کہ آج ہمارے ہاتھوں میں انٹرنیٹ موبائل آگیا ہے، رات یا دن میں کسی وقت موبائل استعمال کرنے بیٹھ جاتے ہیں تو گھنٹوں گھنٹے کس طرح گزرجاتے ہیں پتہ ہی نہیں چلتا۔ عالمی کرکٹ ٹورنامنٹ اور ٹسٹ سیریزجو مہینوں پر مشتمل ہوتی ہیں، ان کی وجہ سے نہ صرف کھیلنے والوں کا بلکہ دیکھنے،سننے اور انتظامی امور سنبھالنے والوں کے بھی کئی کئی ماہ ضائع ہوجاتے ہیں جس کا شعور وادراک انہیں نہیں ہوپاتا۔ کھیل کا مطلب ہوتا ہے چند لمحے یا گھنٹہ بھر کا مگر مہینوں پرمشتمل ٹورنامنٹ اور سیریز سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں نے کھیل کوزندگی کا مقصداور دنیا کوکھیل کی جگہ سمجھ لیا ہے، اس سے زیادہ حیرانی ان لوگوں پر ہے جو زندگی بھرکے لئے کھلاڑی بن جاتے ہیں یعنی ان لوگوں کی زندگی کھیل تماشے میں تمام جاتی ہے۔ لمحہ فکریہ ہے ان تمام لوگوں کے لئے جو کھیلوں میں اپنی عمر ضائع کرتے ہیں چاہے وہ کھلاڑی ہوں یا عملہ ہوں یا تماش بیں۔

وقت اور زندگی اللہ کی طرف سے ہمارے لئے بہت بڑی نعمت ہے،اس کی محافظت اور قدرکرنا ہماری ذمہ داری ہیمگر اس کی ادائیگی میں اکثریت کوتاہ نظر آتی ہے، نبی ﷺ کا فرمان ہے: نِعْمَتانِ مَغْبُونٌ فِیہِما کَثِیرٌ مِنَ النَّاسِ:الصِّحَّۃُ والفَراغُ(صحیح البخاری:6412)ترجمہ:دو نعمتیں ایسی ہیں کہ اکثر لوگ ان کی قدر نہیں کرتے، صحت اور فراغت۔ایسی ہی ایک دوسری حدیث ہے جس میں نبی ﷺنے ایک صحابی کو چند نصیحتیں فرمائی ہیں، آپ انہیں نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: 
اغتنِمْ خمسًا قبلَ خمسٍ: حَیاتَک قبلَ موتِک، و صِحَّتَک قبلَ سَقَمِک، و فراغَک قبلَ شُغْلِک، و شبابَک قبلَ ہَرَمِک، و غِناک قبلَ فقرِکَ(صحیح الجامع:1077)ترجمہ: پانچ چیزوں سے پہلے پانچ چیزوں کو غنیمت شمار کرو! اپنی جوانی کو اپنے بڑھاپے سے پہلے، اپنی صحت کو اپنی بیماری سے پہلے، اپنی مالداری کو اپنی تنگدستی سے پہلے، اپنی فراغت کو اپنی مشغولیت سے پہلے اور اپنی زندگی کو اپنی موت سے پہلے۔

کس قدر قیمتی پندونصائح ہیں؟ جو ان نصیحتوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنالے گایقینا اس کی دنیا وآخرت سنور جائے گی۔ 
آئیے اختصار کے ساتھ چند امور کی طرف آپ کی توجہ مبذول کراتاہوں جو وقت کی اہمیت کو سمجھنے اور اس سے فائدہ اٹھانے میں معاون ہوں گے۔ (۱)سب سے پہلے تو گزشتہ زندگی اور اپنے نفس کا محاسبہ ابھی اور اسی وقت کریں۔ سوچیں، یاد کریں اورجہاں جہاں کمیاں، کوتاہیاں پائی جائیں آئندہ ان کی تلافی کی جائے۔ حقوق العباد سے متعلق غلطیوں کی تلافی انہیں بندوں سے ہوگی جن سے متعلق ہے تاہم اللہ کے حق میں کی گئیں چھوٹی بڑی تمام قسم کی نافرمانیوں کے لئے سچے دل سے توبہ کریں، اللہ اپنے بندوں کو بے پناہ معاف کرنے والا ہے۔ سابقہ گناہوں پر شرمندگی اور آئندہ نیکی کاپختہ عزم کرنا اولین مقصد بنائیں۔ (۲)انسان گناہوں کی طرف نفس کی خواہش کی وجہ سے جاتا ہے اور نفس میں برے خیال شیطان ڈالتا ہے تو جس طرح شیطان ہمارا بڑا دشمن ہے نفس بھی اسی طرح بڑا دشمن ہے۔

 اس لئے جہاں شیطان سے بچنا ہے اس کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دینا ہے وہیں نفس کی ایسی تربیت کریں،اس پر عبادت کا اس قدربوجھ ڈالیں کہ نفس آپ کے قابو میں ہوجائے۔ (۳)ایسے دوستوں کی صحبت اختیار کریں جن کے یہاں اوقات کی اہمیت اور زندگی گزارنے کا بہترین سلیقہ ہے اور بری صحبت سے بچیں جو تضییع اوقات کا بڑا سبب ہے۔(۴)اسلاف کی سیرت بھی پڑھنی چاہئے اس سے زندگی میں ادب و سلیقہ اور شعورحیات پیدا ہوگا۔ میں نے ڈاکٹرمقتدی حسن ازہری رحمہ اللہ کی سیرت میں پڑھا تھا کہ وہ بہت ذہین طالب علم نہیں تھے مگر دوخوبیوں کی وجہ سے ذہین وفطین ساتھیوں سے سبقت لے گئے، ایک وقت کی تنظیم اور دوسری جہد مسلسل۔ میں نے اپنی زندگی میں کچھ کرنے کے لئے ڈاکٹرصاحب کی ان دوخوبیوں کو اپنانے کی کوشش کی اور ثمرات کا مشاہدہ کیا۔(۵)بیماری سے پہلے جو صحت ملی ہے اور موت سے پہلے جو زندگی نصیب ہوئی ہے اسے قیمتی سرمایہ سمجھ کر اچھے کام میں صرف کریں۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے:إذَا أمْسَیْتَ فلا تَنْتَظِرِ الصَّبَاحَ، وإذَا أصْبَحْتَ فلا تَنْتَظِرِ المَسَاء َ، وخُذْ مِن صِحَّتِکَ لِمَرَضِکَ، ومِنْ حَیَاتِکَ لِمَوْتِکَ(صحیح البخاری:6416)ترجمہ: شام ہو جائے تو صبح کے منتظر نہ رہو اور صبح کے وقت شام کے منتظر نہ رہو۔

 اپنی صحت کو مرض سے پہلے غنیمت جانو اور زندگی کو موت سے پہلے مطلب یہ ہے کہ موت اور بیماری سے پہلے شام کے وقت جو کام ہو اسی وقت کرلو صبح کا انتظار نہ کرو اور صبح کے وقت جو کام آئے اسی وقت کرلوشام کا انتظار نہ کرو۔(۶)آدمی اپنا وقت کیوں ضائع کرتا ہے؟ اسے زندگی کا اصل مقصد پتہ نہیں ہوگا یا اس میں ایمان کی حرارت  اورفکرآخرت ناپید ہوگی یا  وہ گناہوں کی طرف مائل ہوگا یا دنیا طلبی میں منہمک ہوگا یا دنیا کو ہی سب کچھ سمجھ لیا ہوگا کہ یہ عیش کرنے اور کھیل کود کرنے کی جگہ ہے یا بری صحبت کا اثرہوگا یا نفس اور شیطان کا اس پرغلبہ ہوگا۔ ایسے حالات میں ہمارے لئے معاون امور یہ ہیں۔اولا: ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ زندگی کااصل مقصد اللہ اوراس کے رسول کے احکام کے مطابق چلنا ہے، کھانا پینا محض زندگی کی ضرورت ہے مقصد نہیں ہے اس لئے دل میں دنیا طلبی کی محبت نہیں آخرت کی فکر ہونی چاہئے۔ثانیا: موت کو کثرت سے یاد کریں جیساکہ رسول اللہ ﷺنے ہمیں اس کا حکم بھی دیا ہے تاکہ موت کی فکر سے ایمان میں قوت وحرارت پیدا ہوگی،دل سیمعصیت اوردنیا طلبی کا خیال دور ہوگا اور اعمال صالحہ کی طرف رغبت ہوگی۔

ثالثا: موت کی اس گھڑی اور سختی کو یاد کریں جب روح نکل رہی ہوتی ہے،پاس میں سارے اہل وعیال ہوتے ہیں مگر نہ کوئی سختی کم کرسکتا ہے اور نہ ہی موت ٹال سکتا ہے۔ جس طرح موت کے وقت اہل وعیال اور مال ودولت کچھ کام نہیں آتے اسے طرح آخرت میں اپنے عمل کے سواکچھ کام نہیں آئے گا۔رابعا: قبرستان کی زیارت کریں تاکہ فکرآخرت پیدا ہو، آخرت کی تیاری کا خیال دل میں آسکیاور آنے والی زندگی کے لئے توشہ اکٹھا کریں۔خامسا: قبرکی منزل سے لیکر میدان حشر تک اکیلے پن کا احساس کریں، نہ مرتے وقت کوئی ساتھ دیا، نہ مرکرکوئی دوسراہماری قبر میں ساتھ دینے کے لئے آیا اور آخرت میں تو ایک دوسرے کو دیکھ کر بھاگیں گے ہی۔سادسا: سب سے اہم معاون امر یہ ہے کہ ہمیں سدا اس وقت کو یاد کرنا چاہئیجب ہمارا حساب وکتاب ہوگا اور ہم سے عمر کے بارے میں سوال ہوگا، نبی? کا فرمان ہے: لا تزولُ قدَما عبدٍ یومَ القیامۃِ حتَّی یسألَ عن عمرِہِ فیما أفناہُ(صحیح الترمذی:2417)ترجمہ:قیامت کے دن کسی بندے کے دونوں پاوں نہیں ہٹیں گے یہاں تک کہ اس سے یہ نہ پوچھ لیا جائے کہ اس نے اپنی عمر کن کاموں میں ختم کی۔(۷)اللہ نے قرآن میں اوقات کی قسم کھائی ہے، کہیں رات ودن کی تو کہیں فجر اور عصر کے وقت کی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ اپنے بندوں کو اوقات کی اہمیت اوران کی محافظت کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہے اس لئے ہمیں اوقات کو اہمیت دینی چاہئے۔

ان کی حفاظت کرنی چاہئے اور لایعنی یا گناہوں کے کاموں میں وقت صرف کرنے سے اللہ کا خوف کھانا چاہئے۔(۸)وقت کی تنظیم کاری کریں یعنی اپنے لئے دن ورات کا ایسا شیڈول تیار کریں جس میں اپنے اپنے وقت پر پابندی سیگھریلو، سماجی اور دینی سارے کام بحسن وخوبی انجام پاتے رہیں۔بطور مثال بہت سے لوگ نماز یا تلاوت یا دعا یا ذکرکے لئے بہانہ بناتے ہیں کہ دنیاوی کاموں سے فرصت نہیں ہے۔ یہ عذرلنگ ہے آپ نے زندگی کو منظم نہیں کیا ہے، آپ اپنے اوقات کو اس طرح ترتیب دیں کہ عبادات بھی مقررہ اوقات میں پابندی سے کریں اور دنیاوی معاملات اور ذمہ داریاں بھی اچھے سے نبھاسکیں۔سال نو اور آخری پیغام: نئے سال کی آمد پہ لوگ اس لئے خوشیاں مناتے ہیں کہ انہیں یہ احساس ہورہا ہوتاہے کہ ہم نے زندگی کی ایک بہار مکمل کرلی اور ہماری عمر میں ایک سال کااضافہ ہوگیا، اب ہم ایک سال بڑے ہوگئے،جنم دن منانے کے پیچھے بھی یہی عامل کارفرما ہے۔ ایسا سوچنے اور احساس کرنے والے وہ لوگ ہیں جن کے لئے دنیا ہی سب کچھ ہیاس لئے ایسے لوگ دنیا میں وافر مقدار میں مال کمانے اور نفس کوعارضی لذت و سرور پہنچانے میں اپنے اوقات صرف کرتے رہتے ہیں۔ 
سوچنے کا مقام ہے کہ دنیاوی زندگی محدود اور مختصر ہے۔

 جوکہ تقریبا ساٹھ سے ستر سال کے درمیان ہے۔ اگر کوئی ایک سال بڑا ہوتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کی زندگی سے ایک سال کم ہوگیا یعنی وہ ایک سال زیادہ زندہ رہتا اب ایک سال کم ہی زندہ رہے گا ۔ نئے سال کی آمد سے معلوم ہورہا ہے کہ ہم ایک سال مزید موت سے قریب ہوگئے۔ کس قدرحیرانی کی بات ہے کہ آدمی کی زندگی کا ایک سال ختم ہورہا ہے اور موت سے ایک سال قریب ہورہا ہے پھربھی نئے سال کا جشن منارہا ہے ،کیاایسا نہیں لگ رہا ہے کہ وہ اپنی موت کاجشن منارہا ہے ؟ کس قدر بے وقوف ہے وہ شخص جو اپنی موت کا جش مناتا ہے؟ میرے پیارے بھائیو! سمجھنے کی کوشش کرو، یہ دنیا آزمائش کی جگہ ہے،بھلاآزمائش کی جگہ جشن منانا کسی کو زیب دیتا ہے؟ یہاں تو روتےہوئے زندگی گزارنی چاہئے ، نبی ؐکا فرمان ہے:لَوْ تَعْلَمُونَ ما أعْلَمُ لَضَحِکْتُمْ قَلِیلًا، ولَبَکَیْتُمْ کَثِیرًا(صحیح البخاری:6485)ترجمہ:جوکچھ میں جانتا ہوں اگر تمہیں بھی معلوم ہوتا توتم ہنستے کم اور روتے زیادہ۔آئیے عہد کرتے ہیں کہ اب سے نئے سال کا جشن نہیں منائیں گے بلکہ سال نو کی آمد پر اپنے نفس اور اعمال کا محاسبہ کریں گے اور سابقہ گناہوں سے توبہ کرکے آئندہ مستقل طورپر اعمال صالحہ انجام دینے کا عزم مصمم کرتے رہیں گے ۔ ان شاء اللہ۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad