تازہ ترین

جمعرات، 23 جنوری، 2020

صداقت ودیانت کی لاشوں پر نسل پرستانہ کھیل

شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی امام وخطیب مسجد انوار ممبئی

دنیا کی سب کی بڑی جمہوریت اور سیکولر دستور وقانون کے حوالے سے ایک نمایاں پہچان رکھنے والے ملک بھارت کے دستور وآئین پر فرقہ وارانہ اور وحشیانہ قانون کے ذریعے شب خون مار کر اس شناخت کو ختم کرتے وقت،ملک کو ہندو راشٹر کی طرف لیجانے والے نسل پرستانہ اقدامات کے وقت اور اس ملک کی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کو برہمن واد کے شعلوں میں جھونکنے والے خاکے میں رنگ بھرتے وقت، انتہا پسند حکومت اور اس کے بدنام زمانہ فرقہ پرست وزیر داخلہ امت ساہ کو قطعی یہ اندازہ نہیں تھا کہ اس غیر سیکولر اور جمہوری نظام سے متصادم نیز انسانیت کے لیے بدنما داغ کی حیثیت رکھنے والے اس سیاہ قانون سیٹیزن شپ امینڈمنٹ ایکٹ (CAA) نیشنل رجسٹریشن سیٹیزن شپ (NRC) کے خلاف یونیورسٹی کالج اور اسکولوں کے طلباء سڑکوں پر نکل کر اس جنگلی قانون کا بائیکاٹ کریں گے اور اس قدر قوت کے ساتھ اور سرفروشانہ انداز اور سر سے کفن باندھ کر ظلم کی آندھیوں،سفاکیت کے طوفانوں اور آمریت کی چیخ وپکار سے بے پروا صدائے احتجاج بلند کریں گے کہ جنگل کی آگ کی طرح ان کی دستوری آوازیں پورے ملک میں پھیل جائیں گی اور آزادی کی انقلاب آفریں جد وجہد اور فلک شگاف نعروں سے ملک کے تمام شہروں کے درو بام ہل جائیں گے، متعدد وزرائے اعلی مخالفت پر اتر آئیں گے۔

خود بی جے پی کے خیمے انتشار کا شکار ہو جائیں گے ۔
عدل وانصاف کے خلاف اور آئین وسسٹم کے خلاف ذاتی انا کی تسکین اور حیوانی نظریات کی ترویج کا علم اٹھانے والے کرداروں میں ہزار پروپیگنڈوں کے باوجود نفسیات کا خوف دوڑتا رہتا ہے'، ملک کی بگڑتی صورتحال اور جمہوریت کے تحفظ کی آوازوں اور نسل پرستانہ قانون کے خلاف سیلاب کے پانی کی طرح بڑھتے ہوئے اقلیتوں کے اتحاد، بڑھتے ہوئے انسانی اجسام، مضبوط ہوتی ہوئی انقلابی صداؤں نے  اہل اقتدار کی نیندوں کو ان سے چھین لیا ہے، چالیس روز سے شاہین باغ دہلی میں لاکھوں کی تعداد میں خواتین کے احتجاج ان کے انشن نے اقتدار کے ہوش اڑا دئیے ہیں، اس تاریخی مظاہروں کی تائید میں ملک کے اکثر شہروں سے گذر کر دیہی علاقوں میں اسی طرز پر غیر متعینہ مدت پر مشتمل بے شمار احتجاجوں نے آمران وقت کے اوسان خطا کردئیے ہیں۔اپنی مخالفت رسوائی اور تانا شاہی پر پردہ ڈالنے کے لئے انتہا پسندحکومت نے طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کئے ،گودی میڈیا اور زر خرید ضمیر فروشوں کے ذریعے کذب و افتراء کا طومار کھڑا کیا، جگہ جگہ حمایتی ریلیاں نکالیں،یہ دکھانے کے لئے کہ بہت سی عوام اس قانون سے مطمئن ہے'کرائے پر سامعین کو جمع کیا ،اور پھرانتہائی بے شرمی کے ساتھ اسٹیج پر تنگ نظر اقتدار یہ اعلان کرتا ہے'کہ مذکورہ قانون آئین ہند کے مطابق ہے'،اور یہاں کے باشندوں کو شہریت چھیننے کے لئے نہیں بلکہ اس کی حفاظت کے لئے وضع کیا گیا ہے،اس دروغ گوئی اور سفید جھوٹ کا بدترین مظہر کل 21جنوری کو اترپردیش کی راجدھانی لکھنؤ میں اس سیاہ قانون کی حمایت میں ہونے والی ریلی میں نظر آیا جس میں بڑے طمطراق سے امت ساہ نے ماضی کی طرح یہ اعلان کیا کہ،،حکومت کسی بھی صورت میں شہرت ترمیمی قانون کو واپس نہیں لے گی ورودھ کرنے والے احتجاج کرنے والے چاہے جتنی طاقت لگادیں،،یہ آمرانہ اعلان درحقیقت اس بات کا اظہار ہے کہ ملک میں آئین کی بالادستی اب  ختم ہو چکی ہے، سیکولر ازم اور عدالت  کی بنیاد پر ملک اب نہیں چلے گا، ہمارا حکم اب اس کا دستور اور ہمارا فیصلہ اس کا آئین ہوگا، ملک اب ڈیموکریسی پر نہیں بلکہ ہمارے مخصوص نظریے کے رحم وکرم پر ہے ، اس لیے ہمارے فیصلے پر اقلیت اٹھتی ہے اٹھتی رہے، مزدور، کسان، کاریگر،سے لیکر عام بزنس مین اور اہل علم ودانش ور طبقات تک اس ایکٹ کے خلاف کھڑے ہیں وہ کھڑے ہوتے رہیں، ملک کی خواتین سڑکوں پر رات گذارتی ہیں تو اپنے بچوں کے ساتھ مائینس ڈگری  پرسردی کی حالت میں بسر کرتی رہیں، ہمیں اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے، یہ اقتدار قائم ہی اس لیے کیا گیا ہے کہ ملک پر نازی ازم کا نظریہ تھوپ کر اسے انتہا پسند اسٹیٹ بنایا جائے، جمہوری نظام کی یہ خاصیت ہے'کہ اس میں جس قدر اختیارات اصحاب اقتدار کے ہوتے ہیں اسی قدر عوام کے بھی ہوتے ہیں'، یہاں حکمراں تانا شاہ نہیں بلکہ عوام کا نمائندہ ہوتاہے، عوام سے ہی اس کی حاکمیت اور اسی سے اس کی حکومت قائم رہتی ہے'لیکن ملک کا یہ کیسا رہنمااور کیسا حاکم ہے'کہ عوام کے جذبات کا اس قدر بے شرمی سے خون کر رہا ہے'، یہ کیسی حکومت ہے'کہ اپنے مفادات پر عام پبلک کے مفادات کو قربان کررہی ہے'، یہ کیسا اقتدار اور کیسا نظام ہے'جس میں نہ قوم کے بچوں کے جذبات واحساسات کو سمجھنے کی گنجائش ہے'نہ ہی ملک کی لاکھوں خواتین کی صداؤں کو سننے ،اور ان کے جائز اور دستوری حقوق پر غور کرنے  کی کوئی  حرکت۔۔۔سوال یہ ہے'کہ ایک ایسا قانون جو سراسر ملک کے دستور کے خلاف ہے'،ایک مخصوص مائنارٹی اور مذھب کے حوالے سے تفریق کی راہ ہموار کرتا ہے'، ایک ایسا ایکٹ جو نہ صرف آئین بلکہ اس ملک کے مزاج اور انسانیت کے بھی خلاف ہے' اور اس پر ملک کے لاکھوں افراد نے بے اطمینانی کا اظہار کیا ہے'،کیا جاہل اور کیا دانشور، کیا مزدور اور کیا بزنس مین، کیا اسٹوڈنٹس اور ٹیچرز وماہرین آئین ،اور کیا مرد اور کیا بچے وخواتین،ایک دنیا سڑکوں پر کھڑی ہوگئی ہے اس پر اپنی بے اعتمادی اور بے اطمینانی کا کھلے عام اظہار کررہی ہے'،اس کے جواب میں وزیر داخلہ کا یہ اٹل فیصلہ سنانا کہ کسی بھی صورت میں یہ قانون واپس نہیں ہوگا  ملک کی سالمیت کے حوالے سے انتہائی غیر ذمے دارانہ عمل ہے'،انھوں نے اس اعلان کے ساتھ ہی یہ ثابت کردیا کہ ان کا یہ عمل ملک کی سالمیت اور ملک کی ترقی و تعمیر کے لئے نہیں بلکہ ایک مخصوص قوم کو سیاسی،اقتصادی ،سماجی ہر لحاظ سے حاشیہ پر لا کر اسے بے دست و پا کرنا ہے،انگریزوں کی طرح نفرت کی آگ پھیلا کر انھوں نے اقتدار پر قبضہ کیا ہے' اس ریلی میں بھی امت ساہ نے دروغ کرتے ہوئے اور پبلک کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے یہ کہا کہ،،سیٹیزن شپ امینڈمنٹ ایکٹ لانے کی وجہ پاکستان میں اقلیتوں پرہونے والے مظالم ہیں، وہاں ہندؤں کو بے گھر کیا گیا،آزادی کے بعد وہاں اقلیتوں بالخصوص ہندوؤں کی تعداد زیادہ تھی لیکن اب یہ تعداد گھٹ کر انتہائی کم فیصد پرآگئی ہے'، اس سے پہلے بھی انھوں نے سفید جھوٹ بول کر کہ،،پاکستان میں 1974 میں اقلیتوں کی آبادی 23فیصد تھی جو 2011میں گھٹ کر 7ء3فی صد رہ گئی ہے اسی طرح بنگلہ دیش میں 1974میں اقلیتوں کی آبادی 22 فی صد تھی جو 2011میں کم ہو کر 8ء7 فیصد رہ گئی ہے کہاں گئے یہ لوگ، یا تو ان کو مار دیا گیا ہے یا ان لوگوں کا زبردستی مذہب تبدیل کردیا گیا ہے یا بھارت بھگا دئیے گئے ہیں،،اس  دعویٰ کا حقیقت سے ایسا ہی تعلق ہے' جیسا آسمان وزمین،آگ اور پانی، دن اور رات کے درمیان ہے'، اس طرح کی دروغ گوئی اوربے بنیاد دعوؤں اور نفرت انگیز پروپیگنڈوں کے ذریعے اپنے کھوکھلے اور غیر قانونی وغیر انسانی قانون کی کمزوریوں اور اس کی غیر منصفانہ دفعات اور سنگینی پر پردہ ڈالنے کے اس عمل سے واضح ہے'کہ اپنے پست مقصد کے لیے یہ طبقہ کسی بھی حد تک جاسکتا ہے'، چنانچہ ملک میں پھیلی ہوئی انارکی کی آگ، افرا تفری کے شعلے، عدم تحفظ کی فضا، بے چینی واضطراب کا ماحول، اور دلخراش وجگر سوز حالات شاہد ہیں اور زبان حال سے اس بات کے گواہ ہیں کہ انتہا پسندانہ نظریات پر عمل پیرا اہل اقتدار کے اس طبقے نے اپنے نصب العین یعنی، عدم مساوات،عدم انصاف، فرقہ پرستی، و نسل پرستی کے خاکوں میں رنگ بھرنے کے لئے  تاریخ کو مسخ کرڈالا، اس کی جگہ پر اپنے مزاج کے مطابق تاریخ سازی کرکے قوموں کے درمیان خلیج پیدا کی'، آزادانہ صحافت پر پابندی لگا ئی، میڈیا کو خرید کر صداقت کا خون کرڈالا، اجلاس عام اور پبلک ریلیوں میں بے محابا جھوٹ فریب اور افتراء پردازیوں کا طوفان کھڑا کیا، سی اے اے کی راہیں ہموار کرنے کے لئےلکھنؤ کا یہ بیان بھی انہیں کا کرداروں کا عکس ہے'،حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ،، پاکستان میں  1951میں جب پہلی بار اقوام متحدہ کی طرف سے مردم شماری ہوئی تو غیر مسلم آبادی کا تناسب 14ء20 فی صد تھا مغربی پاکستان میں اقلیتی آبادی کا تناسب 3ء44 فی صد تھا جب کہ مشرقی پاکستان حال بنگلہ دیش میں 23ء20 فی صد اقلیتیں آباد تھیں۔پاکستان میں 1971 کی مردم شماری کے مطابق غیر مسلم آبادی 3ء25 فی صد ریکارڈ کی گئی اسی طرح 1981میں 3ء30 فیصد اور 1998 میں اقلیتی آبادی 3ء70 فی صد پائی گئی پاکستان میں 2017کی مردم شماری کے نتائج ابھی شائع نہیں کئے گئے ہیں' ان اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں اقلیتی آبادی کا تناسب کم وبیش وہی ہے جو 1947 میں تھا ایک طرح سے 44فی صد سے بڑھ کر 3ء70 فی صد ہو گیا، بنگلہ دیش میں اقلیتی آبادی میں بتدریج کمی آئی ہے 1974کی مردم شماری کے مطابق غیر مسلم آبادی کی شرح 14ء60 فی صد تھی جو 1981 میں 11ء70فیصد اور 2001 میں 10ء40 فی صد اور پھر 2011 میں 9ء6 فی صد ریکارڈ کی گئی ( روزنامہ منصف حیدرآباد تحریر افتخار گیلانی)لیکن یہاں اس امر کی وضاحت ناگزیر ہے کہ بنگلہ دیش میں اقلیتوں کی کمی کاسبب اکثریت یا حکومتی سطح پر ان کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک ہرگزنہیں ہے'بلکہ بنگلہ دیش کے وجود میں آنے کے بعد لسانی تشدد کے واقعات کے نتیجے میں بہت سے افراد نے جس ہندو مسلمان دونوں تھے پڑوسی ممالک میں بودوباش اختیار کر لی اس کے علاوہ اس ہجرت کا سبب اس ملک کی معاشی بدحالی بھی تھی جس کی وجہ سے لاکھوں افراد نے بھارت میں بھی پناہ لی تھی خود اس وقت عالمی سطح پر پاکستان کی شبیہ کو اجاگر کرنے کے لئے بھارت نے بھی اپنی سرحدیں بڑی فراخدلی سے کھول رکھی تھی ،مہاجرین کی حوصلہ افزائی کی تھی ان کا استقبال کیا تھا اور اسی حوالے سے دنیا کے مختلف ممالک سے اس نے سرمایہ بھی حاصل کیا تھا۔

لیکن وقت بدلا،حالات بدلے، انتہا پسندانہ نظریات کو عروج حاصل ہوا توپروپیگنڈوں کی تلواروں سے انصاف وعدالت اور سچائیوں کا گلا گھونٹ کر  پوری فضا کو فرقہ پرستی سے مسموم کردیا گیا، انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ جھوٹ کی عمریں لمبی نہیں ہوا کرتی ہیں' ،سچائیوں پر ہمیشہ کے لیے پہرے نہیں بٹھائے جاسکتے، صداقتوں کی روشنی کو باطل کے زندانوں میں طویل عرصے تک قید نہیں کیا جاسکتا، وقت کی قینچیوں سے پروپیگنڈوں کے پردے چاک ہوتے ہی مکر و فریب کا سارا طلسم ٹوٹ جائے گا، ان کے قو ل  و عمل کے تضادات  طشت از بام ہوکر رہیں گے، طاقت وقوت اور میڈیا کے سہارے دام ہم رنگ زمیں کے شکار کل انقلابی سرگرمیوں سے آزاد ہوکر رہیں گے،اور دروغ گوئی کی بنیاد پر کھڑی ہونے والی عمارتیں ریت کا گھروندا ثابت ہوں گی، شرط یہ ہے'کہ ظلم وآمریت کے خلاف رونما ہونے والا اقلیتوں کا یہ اتحاد مضبوط سے مضبوط تر ہوتا رہے، احتجاج کی تحریکوں کو افراد کی غذا اور استقامت واستقلال کی اسپرٹ ملتی رہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad