تازہ ترین

ہفتہ، 4 جنوری، 2020

یا رنج و بلا کا خوف نہ کر یا نام نہ لے آزادی کا

از: حسن مدنی ندوی جامعہ ملیہ اسلامیہ

لازم ہے  گلستاں میں کہ ہر آنکھ  وا  رہے 
جب باغباں کے ہاتھ میں خنجر  کھلا رہے
خیبر   رہے,   حنین    رہے , کربلا     رہے 
دنیا میں ہم جہاں بھی رہے  با وفا  رہے 

وہ ایک تاریک شام تھی، چہار سو گھٹا چھائی ہوئی تھی، بارش بدستور جاری تھی، اویسی صاحب کے پارلیمنٹ میں بل پھاڑنے سے لیکر علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلباء کے علم احتجاج بلند کرنے تک ہر طالب علم کے ذہن و دماغ میں تشویش کی لہر دوڑ نے لگ گئی تھی، سرزمین دیوبند سے نانوتوی کے سپوتوں نے اس شام مغرب کی نماز سے قبل صدائے حق بلند کی اور جی ٹی روڈ بلاک کر نماز ادا کی، ابنائے جامعہ کرب و بے چینی کے ساتھ مختلف جمعیتوں میں اور ٹولیوں میں مشورے کر رہے تھے کہ پر امن احتجاج کی صدا کہاں سے بلند ہو! تبھی بنات جامعہ اور قوم کی ہوش مند دلیر اور غیور بیٹیاں دار الاقامہ سے وی وانٹ جسٹس اور انقلاب زندہ باد کے نعرے لگاتی ہوئی آتی ہیں۔

کام ہے میرا تغیر نام ہے میرا شباب
میرا نعرہ انقلاب. انقلاب. انقلاب 
ورق سے برق کے مانند لہراتا ہوا 
موت کے سایہ میں رہ کر موت پر چھایا ہوا

جم غفیر ۷ نمبر گیٹ باب آزاد پر جمع ہوتا ہے، اور اس مجرمانہ قانون کے خلاف آزادی کی صدا بلند ہوتی ہے، شیخ الہند اور ذاکر حسین کی یہ جامعہ ایک صدی سے خاموش تھی، منصوبہ بندی کے تحت یہاں یونین ختم کی گئی تھی، شہریار کہا کرتے تھے کہ یہ رسمی مسلم یونیورسٹی ہے، دینی تقاضوں سے نا آشنا ملی خدمات سے قطع نظر یہاں محض مفاد پرستی پائی جاتی ہے، لیکن انا الحق کی صدا جو یہاں سے بلند ہوئی اور اگلی صبح ہوتے ہوتے ہر فرزند جامعہ اس کا گواہ بنتا گیا، جمعہ کا دن تھا، ہم نے جامعہ کی جامع مسجد میں نماز ادا کی اور امام صاحب کے سیاسی خطبہ پر استغفار پڑھا جو یہ کہتے نہیں تھک رہے تھے کہ آپ لوگ اپنے کاموں کو بدستور جاری رکھیں، ملی بقاء کے لئے گویا اب انکے نزدیک صدا بلند کرنا غیر ضروری اور شرعی تقاضوں کے خلاف تھا، خیر باب آزاد سے آزادی کی صدا بلند ہوئی جس نے جے این یو کے طلبا میں ہمیشہ سے ہمہ گیر جوش وولولہ پیدا کیا، آج وہ صدا جامعہ کی در و دیوار سے اٹھ رہی تھیں، پارلیمنٹ تک امن و استحکام برقرار رکھتے ہوئے مارچ نکلنا تھا جو تین بجے رفتہ رفتہ اپنے قدم بڑھانے لگا۔

 انقلاب زندہ باد، تاناشاہی نہیں چلے گی کہ نعرے لگ رہے تھے، اور آگے بیریکیٹ لگے ہوئے تھے، سرکاری نمائندوں اور دھلی پولیس کا ماننا تھا کہ امن مارچ سے امن کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے لہذا آگے نہ بڑھنے دیا جائے، ہمارے ساتھ جامعہ کے طلبا کے علاوہ ندوۃ العلماء کے چند ابنائے قدیم بھی تھے، یکایک شام ڈھلنے سے پہلے ہی پولیس نے آنسو گیس لگاتار داغنے شروع کئے، ہم بیک فٹ آتے رہے کہ کچھ دکھائی دے، آنکھیں کھولنا مشکل ہورہا تھا، سانسیں رک رہی تھیں، تو کشمیری طلبا جو ان حالات سے ہمیشہ سے دوچار ہوئے ہیں انہوں نے ہم اور دیگر طلبا کو نمک دیا کہ آرام ملے، طلبائے جامعہ کہ ساتھ اساتذہ ایسوسیشن بھی موجود تھی لیکن سب بے بس تھے، پولیس نے کئی طلبا پر بے دریغ لاٹھی چارج کی اور معصوموں کو زخمی کیا، یہی تک بس نہیں بلکہ جامعہ کی سرحد میں گیٹ سے گیس کے گولے داغے۔

ان توپوں کے سایہ میں ہم نے مغرب و عشا کی نماز ادا کی، رب ذی الجلال گواہ ہے کہ اپنے ہوش میں میدان رابعہ عدویہ کے بعد یہ دوسرا سانحہ تھا جو ہم دیکھ رہے تھے، محسوس کر رہے تھے، اس قوم کی خاطر جس نے اپنے اسلاف کی میراث بھلادی، تو ثریا نے آسماں سے زمیں پر ان کو دے مارا، شدت پسندوں کی حکمرانی ہونے لگی، کلمہء توحید کی مخالفت ہونے لگی، دینی اصولوں کی اور تشخص کی پامالی ہونے لگی، یہ معیار تو اقوام عالم کے زوال کی اہم کڑی ازل سے رہی اورابد تک رہیگی، الغرض یہ کہ اس اندھیری رات میں بھی طلبا جامعہ میں رہے اور ہم بھی دیکھینگے نغمہ کا احساس زندہ کرتے رہے۔

ہم دیکھیں گے، ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جو لوحِ ازل میں لکھا ہے
جب ظلم و ستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اُڑ جائیں گے
ہم اہلِ سفا مردودِ حرم
مسند پہ بٹھائے جائیں گے
سب تاج اچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے

نوید صبح انقلابی کرنوں کے ساتھ اجاگر ہوئی، جوش و خروش بڑھتا رہا، جمہوری ملک میں ہٹلر کی تاناشاہی کے خلاف آوازیں تیز ہونے لگیں، حاکمیت سے غلامی سے دستبرداری کا عہد کیا گیا، اور مستقل طور سے تحریک کی ابتدا ہوئی کہ جب تک یہ ظالمانہ قانون واپس نہیں ہوگا تحریک ختم نہیں ہوگی۔

یا رنج و بلا کا خوف نہ کر یا نام نہ لے آزادی کا 
جب ولولۂ پرواز نہیں الزام نہ لے آزادی کا 
آزادی کو تلواروں کی آغوش میں پالا جاتا ہے
آبادی کو بربادی کے سانچوں میں ڈھالا جاتا ہے
میدان وفا میں جینے کا ارمان نکالا جاتا ہے
غیرت کے سنہرے پرچم کو سر دے کے سنبھالا جاتا ہے

، تیغوں کے سایہ میں خوف کے طوق سے آزاد ہماری بہنوں بیٹیوں نے اس تحریک کی قیادت کو اپنے ذمہ کیا کیونکہ قائدین،اب قاعدین ہو چکے تھے، یہودی اور عیسائی رہبانیوں کی طرح وہ قومیت سے بے خبر مدرسوں مسجدوں خانقاہوں میں چوڑیاں پہن کر دو جھوٹے آنسو بہانے میں لگ گئے تھے۔

حرم فروش فقیہوں کے حوض کوثر سے
مغنیہ کے لبوں کی شراب بہتر ہے۔

یاد رہے کہ ابنائے جامعہ نے تحریک کی ابتدا سے قبل علمائے ہند کے نام ایک اپیل کی تھی کہ آپ قیادت کرئے ہماری، ہمیں آپ کی ضرورت ہے، نبیوں کے وارثین آپ ہیں، لیکن جو ستر سال سے جنگ آزادی میں علماء کا کردار گناتے تھے ایسا لگنے لگا تھا کہ ان کا وجود ختم کردیا گیا ہے، ان کو زنداں میں قید با مشقت کردیا گیا ہے، دھلی سے پنجاب تک انکی لاشیں پھر سے ایک بار لٹکائی جا چکی ہیں، لیکن یہ محض ایک وہم تھا، ہماری قیادت یاں تو چند عوض میں اپنا دین بیچ چکی تھی یاں پھر بستر مرگ پر تڑپ رہی تھی، یاں سجدوں میں اپنی بے حسی دکھا رہی تھی۔

یہ مصرع لکھ دیا کس شوخ نے محراب مسجد پر 
یہ ناداں گر گئے سجدوں میں جب وقت قیام آیا 

۱۵ دسمبر کو تیسرا دن ہونے جارہا تھا، طلبا کے ساتھ اب جامعہ نگر و شاہین باغ کی عوام بھی محاذ پر آ چکی تھی، شام ہوتے ہوتے ایک جم غفیر بے ترتیبی کے ساتھ جامعہ کے راستے سے آگے بڑھ کر جولینا چوراہے تک پہنچ چکا تھا جہاں دھلی کا پوش علاقہ فرینڈز کالونی واقع ہے، پھر دو بسیں وہاں جلائی گئی نامعلوم افراد کی طرف سے اور ہولیس کے ساتھ مزید نامعلوم افراد کے موجود ہونے کی خبر ملی، آنسو گیس اور لاٹھی چارج سے بھیڑ کو پھر سے ایک بار منتشر کیا گیا یہاں تک کہ جو طلباء غلطی سے پولیس کے ہاتھ لگے انکے ساتھ ظلم و بربریت کی ساری حدیں پار کی گئی، پولیس شام ہونے تک جامعہ کی سرحد میں گھس آئی اور پھر جو ہوا وہ آپ سب جانتے ہیں، نامعلوم افراد کے ذریعہ ہوئی بد نظمی کا تانتا جامعہ کے معصوم طلبا پر پھوڑا گیا اور جامعہ لائبریری میں ظلم و بربریت کی ایک نئی داستاں رقم کی گئی، ہمارے حلقہء احباب میں سے عاقب ندوی اور محمد توصیف کو گہرے گھاؤ آئے۔

 اور پوری رات انہوں نے جیل کی سلاخوں کے پیچھے کاٹی، ہم اور جے این یو اور دلھی یونیورسٹی کے چند احباب اس سانحہ سے بمشکل ۱۰ منٹ قبل ہی لائبریری سے بٹلہ ہاؤس کی جانب نکلے تھے، اسی اثنا ندوۃ العلماء سے خبریں موصول ہوئیں کہ وہاں طلبا نے علم احتجاج بلند کرتے ہوئے دیر رات سڑک پر آگئے ہیں، انکو منظم دستور میں صبح کے وعدہ کے ساتھ انتظامیہ نے واپس بھیجا اگلی صبح پولیس اور طلبا میں ٹکراؤ کی صورتحال بنی، اور کئی بے قصور طلبا کو جیل جانا پڑا، اور اب یہ دونوں واقعات عالمی میڈیا کی سرخیوں پر آگئے تھے،بسمل کا نعرہ، اشفاق کا نعرہ، بھگت سنگھ کا نعرہ اب ہر زباں پر تھا، سید احمد شہید کی قربانی سے لیکر گاندھی کی تحریک عدم تعاون تک ہر قصہ دہرایا جارہا تھا۔

آج پھر مقتل میں قاتل کہہ رہا ہے بار بار 
آئیں وہ شوق شہادت جن کے جن کے دل میں ہے 
مرنے والو آؤ اب گردن کٹاؤ شوق سے 
یہ غنیمت وقت ہے خنجر کف قاتل میں ہے 
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے

جامعہ سانحہ کے بعد سے ملک بھر کی ینورسٹیز و کالجز میں دھلی پولیس کی بربر تا کے خلاف اور اس سی اے اے،این آر سی،این آر پی، جیسے کالے قوانین کے خلاف آوازیں بلند ہونے لگیں، نیشنل میڈیا میں  این ڈی ٹی وی،دی وائر،دی کونٹ ہی سچائی کو ذرائع ابلاغ کے ذریعہ سامنے لا رہے تھے وہیں دوسری جانب دیگر میڈیا تخت نشینوں کے ہاتھ فروخت ہوچکی تھی، لیکن حق کی ذرا سی کرن اندھیروں پر غالب آتی ہے، اور میڈیا کے نام پر ان ضمیر فروشوں کی حقیقت سامنے آتی ہے، ہم نے لکھا تھا کہ: ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ نفرت کی اس دیوار کے معاون ستون موجود ہیں ، بنیادی طور پر میڈیا ، غلط معلومات اور پروپیگنڈے کو پھیلانے والا پہلا اور بہترین انتخاب ہوسکتا ہے ، اے بی پی نیوز ، زی میڈیا ، اج تک ، ہندوستان ، جمہوریہ ٹی وی پر نظر ڈالیں۔

لیکن نیشنل سے انٹرنیشنل میڈیا نے رپورٹنگ قدرے غنیمت کری، الجزیرہ، بی بی سی، واشنگٹن پوسٹ، نیویارک ٹائمس نے صفحۂ اوّل پر شاہینوں کے ساتھ ہوئی بربر تا کا ذکر کیا، اور عالمی سطح پر فاشسٹ حکومت کے غیر آئینی فیصلے کے خلاف احتجاجات کا یہ سلسلہ شروع ہوا جو بدستور جاری ہے، اور جاری رہیگا جب تک یہ ظالمانہ قانون نہیں ختم ہوتا جب تک یہ مجرمانہ عمل ناپید نہیں ہوتا، مذہبی بھید بھاؤ کا کھیل نہیں مٹتا کیونکہ ۔

ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
 خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائیگا
ظلم کی بات ہی کیا، ظلم کی اوقات ہی کیا
ظلم بس ظلم ہے آغاز سے انجام تلک
خون پھر خون ہے، سو شکل بدل سکتا ہے
ایسی شکلیں کہ مٹاؤ تو مٹائے نہ بنے
ایسے شعلے کہ بجھاؤ تو بجھائے نہ بنے
ایسے نعرے کہ دباؤ تو دبائے نہ بنے​

تحریک مذہبی نہیں ہے اور نہ ہوگی، اسلام اور مسلم قوم کی سالمیت کے لئے خاص بھی نہیں ہے، یہ تحریک جمہوریت کی بقا کی کوشش ہے، امبیڈکر کے دستور کو بچانے کی تحریک، ہندو مسلم کو جوڑنے کی تحریک، شرپسند عناصر کو خارج کر امن و امان برقرار رکھنے کی تحریک، گاندھی کی تحریک، آزاد بھارت کی تحریک جو عصبیت کے خلاف ہے، جو ہندوتو کے خلاف ہے، جو دو قومی نظریہ کے خلاف ہے، جناح و ساورکر کی سوچ کے خلاف ہے، آزادی کی تحریک کا اٹوٹ انگ ہے وہ انگریزوں کے خلاف تھی یہ انگریزوں کے زر خرید غلاموں کے خلاف ہے، یہ چند لوگوں کی خوشیوں کے خلاف ہے، وہ جو سائے میں ہیں مصلحت کے پلے انکے خلاف ہے۔

جنکے دستور کو
 صبح بے نور کو 
ہم نہیں جانتے
 ہم نہیں مانتے
پھول شاخوں پہ کھلنے لگے تم کہو 
جام رندوں کو ملنے لگے تم کہو 
چاک سینوں کے سلنے لگے تم کہو 
اس کھلے جھوٹ کو ذہن کی لوٹ کو 
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا

عہد شباب میں ہیں آپ، بوڑھی قیادت ہاتھ جوڑ کر کہہ رہی ہے کہ ظلم سہہ لو مگر خاموش رہو، حد سے حد تمہارا حال برما اور چین کے مسلمانوں جیسا ہوگا، زیادہ سے زیادہ مار دیے جاؤگے، مگر مظلوم تو رہوگے، بے قصور ہوگے، آزادی کا نام نہ لو، کیونکہ کشمیری لیتے تھے ہم نے ان کا ساتھ نہیں دیا، فلسطینی لیتے تھے ہم نے ان کا ساتھ نہیں دیا، اخوان لیتے تھے ہم نے انکی بات نہیں سنی، حرم اقصی سے لیکر بابری مسجد تک ہم نے اغیار کے کاشانوں پر لٹادی، کہ ہم سلامت رہیں، ہمارا مسلک بلند رہے، سر بکف رہیں، لیکن یاد رہے گھبرانا نہیں ہے، تیغوں کے سایہ میں ہم پل بڑھ کر جواں ہوئے ہیں آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا۔

مانا کہ بساط عالم پر مجبور ہے تو لاچار ہے تو
باطل کے عساکر کے آگے ٹوٹی ہوئی اک تلوار ہے تو
آباد ہیں وہ برباد ہے تو زردار ہیں وہ نادار ہے تو
وہ روئے زمیں کے مالک ہیں اور دوش زمیں پر بار ہے تو 
لیکن یہ جہاں سب تیرا ہے تاریخ سلف دہراتا چل
ایمان و عمل کے بربط پر اسلام کا نغمہ گاتا چل 

اب لازم ہے کہ گلستاں کو ہر وار سے بچایا جائے، وطن کی فکر کی جائے کہ مصیبت آگئی ہے، اور آسماں میں بربادیوں کے مشورے ہونے لگے ہیں، قوم کی فکر کی جائے کہ یہ عہد ضلالت مٹ جائے، یہ تاریک شب گزر جائے، یہ ظلم کی دنیا کروٹ لے، یہ دور ہلاکت مٹ جائے، بس نام رہے اللہ کا جو حاضر بھی ہے غائب بھی، جو ناظر بھی ہے منظر بھی، جو ازل سے ہے اور ابد تک رہیگا، شب غفلت میں سوئے قوم کے جوان جاگ اٹھیں، قنوت و تہجد کا اہتمام ہو، دعا و دعوت کے تقاضے پورے ہوں، زہر حقیقت کو لبوں سے چومیں، دینی قومی ملی سالمیت اور اسکی بقا کے لئے ہر کس و ناکس ہمہ تن گوش ہو، بن قاسم، اور ایوبی مثال ہوں، قرآن و سیرت و آئین دستور ہو، حرم مادی اور حرم ظاہری کے لئے پاسباں ایک ہوں، امن، محبت و اخوت کی ایک نئی داستاں رقم ہو، برادران وطن کو لیکر ایک قدم حق و انصاف کی طرف بڑھائیں، وہ دو قدم بڑھ آئینگے، اور خدا ذو الجلال ہم سب کا حامی و ناصر ہوگا۔

پھر دلوں کو یاد آ جائے گا پیغامِ سجود
پھر جبیں خاکِ حرم سے آشنا ہو جائے گی
نالۂ صیّاد سے ہوں گے نوا ساماں طیور
خُونِ گُلچیں سے کلی رنگیں قبا ہو جائے گی
شب گریزاں ہو گی آخر جلوۂ خورشید سے
یہ چمن معمور ہوگا نغمۂ توحید سے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad