تازہ ترین

اتوار، 9 فروری، 2020

بس نام رہے گا اللہ کا ،اپنوں سے کچھ باتیں:

بس نام رہے گا اللہ کا ،اپنوں سے کچھ باتیں:
 شعور کے ذرے سے آشنائی کے بعد میری تشنگی میں اضافہ ہوا خاک چھاننے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ بھارت میں " شعور "  کچھ لوگوں کے یہاں نام ہے، گستاخی کا، بدتمیزی کا، چکاچوند کی پوجا کا، ان کے یہاں شعور کا اظہار جرم ہے.
 مزید اوراق پلٹنے کے بعد معلوم ہوا کہ وہ دیوانگی سے فرزانگی کی طرف کوچ کر چکے ہیں، وہ نظری زندگی سے زیادہ منظر کی غلامی کو ترجیح دے چکےہیں، وہ درحقیقت غیر حقيقي دنیا اور غیر معروضی زندگی کے اسیر ہوچکے ہیں، جب سے اس طبقے کی یہ حالت مشاہدے کے ساتھ علم میں آئی ان سے محبت کا تعلق مزید ہمدردی کے ساتھ گہرا ہوگیا

 کل دارالعلوم دیوبند کے مہتمم صاحب کا بیان آیا، جو کہ غلط تھا، آر ایس ایس کی عالمی مشنری نے اس کے بعد جس طرح ان کے بیان کو فٹافٹ استعمال کیا، نیشنل نہیں بلکہ انٹرنیشنل کارنر میں جس طرح مہتمم صاحب کے بیان کے حوالے سے  Global Opinion تشکیل دینے کے لیے حیرت انگیز طورپر اسی وقت عالمی اسٹریمنگ پر اسے Debate کے ليے ترجیح دی اس سے یہ بالکل واضح ہوگیا کہ یہ ساری بساط پہلے سے ہی بچھائی جا چکی تھی، دیوبند میں اس مقامی امن و امان والی میٹنگ کے نام پر، مہتمم صاحب جیسے بےحد شریف طبیعت کی شخصیت کو اس میٹنگ میں بلوا کر ان پر منظم دباؤ بنایاگیا کہ وہ اس قسم کی بات کہیں، وہ میٹنگ یوگی آدتیہ ناتھ کی ماتحت انتظامیہ نے بلائی تھی یہ تو سبھی جانتےہیں، اور یوگی کی زہریلی سوچ کون نہیں جانتا؟ پھر اس جگہ میٹنگ میں مخصوص ماحول کے ذریعے مہتمم صاحب کا ذہن ایکطرف کیاگیا اور جب انہوں نے سنگھیوں کے مطلب والی بات کہی،

 تو اسے فوراﹰ کیمرے میں قید کرکے وائرل کردیاگیا، اور پہلے سے طے شدہ پلان کے تحت اسے مشنریوں کے حوالے کرکے اس پر عالمی چرچا شروع کروادی گئی، نیشنل اور انٹرنیشنل میڈیا اس بیان کو لیکر ملک بھر میں جاری شاہین باغ کے آندولن پر ٹوٹ پڑا، دوپہر سے شام تک یہ کھیل چلتا رہا، یہاں تک کہ بالآخر خواتین کو مہتمم صاحب کی رائے کو مسترد کرنا پڑا، جسے بیشتر زبانوں میں میڈیا نے عام کیا، پھر ملک کے نامور عالم کبیر حضرت مولانا حبیب الرحمان لدھیانوی صاحب مدظلہ نے مہتمم صاحب کے اس بیان کو سرکا پرستی سے تعبیر کرتے ہوئے ان سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا، ایسے ہی عمومی طورپر فضلاء مدارس نے بھی اس بیانیے کےخلاف سخت تنقیدیں کیں، ہم نے بھی کی، کیونکہ یہ بڑی ہی سنگین صورتحال ہوگئی تھی 

 شام ہوتے ہوتے طلباء دارالعلوم میں اس بیان کو لیکر بےچینی پھیلی اور وہ احتجاج پر آ بیٹھے، مہتمم صاحب نے تحریری وضاحت لکھی، لیکن وہ بالکل ناکافی تھی، اس وضاحت کی بھی تردید ہوئی، پھر مہتمم صاحب نے مستقل ویڈیو بیان اور انگریزی میں دارالعلوم کا موقف جاری کیا، یہاں تک کہ رات کے ۱۰ بج گئےیہ بیان اور انگریزی والا موقف ٹھیک تھا، جس کے بعد ہم نے پھر انگریزی اور ہندی میں اپنے احباب کے ذریعے میڈیا والوں تک اس موقف کو حقیقت کی شکل میں پہنچانے کی بھرپور کوشش بھی کی، تاکہ دارالعلوم دیوبند کے حوالے سے اور مہتمم صاحب کے حوالے سے یہ والا بیان اور موقف نیشنل میڈیا میں آئے اور اس پر ملک بھر کی ہماری ماں بہنوں کی توجہ مبذول ہو اور انہیں حوصلہ ملے 

 ہم نے پہلے مہتمم صاحب کے غیر واضح غلط بیان جس سے پورے ملک کے مظاہرین کےخلاف دارالعلوم کی طرف سے انتہائی حوصلہ شکن پیغام جارہاتھا اس پر تنقید کی، پھر شام میں مہتمم صاحب کے رجوع کے بعد ان کے رجوع والے موقف کو دارالعلوم کے موقف کی شکل میں وائرل کرنے کی بھی کوشش کی، گرچہ RSS کی مشنری عالمی پیمانے پر اپنا کام کر گئی تھی عالمی سطح پر اس کی تلافی ممکن بھی نہیں ہے، اس لیے ہم نے اور بیشمار ہمدردادنِ دارالعلوم نے فوکس اس بات پر کیا کہ یہ والا موقف جو رجوع کے بعد آیاہے اس کو ملک بھر کے شاہین باغوں میں بھرپور عام کیا جاوے، اور کم از کم عام بھولے بھالے مسلمانوں اور مظاہرہ کررہی خواتین کا کنفیوژن دور کیا جاسکے، اس کی خاطر جس قدر کوششیں ممکن ہوئیں وہ سب نے کی  یہ دونوں زاویے، یعنی، غلط بیان پر سخت ردعمل جس کے نتیجے میں رجوع سامنے آیا اور غلط بیان پر سخت تنقید ہی کے نتیجے میں اس کے اثرات مسلمانوں میں بہت زیادہ راسخ نہیں ہوسکے کیونکہ دیگر مسلمان علماء ہی اس کو مسترد بھی کررہےتھے، اس طرح یہ پہلو قابو میں آیا، اور وہیں رجوع کی وجہ سے ایک حد تک میڈیا میں یہ والا پہلو بھی آگیا  کل گزشتہ ہر دیانت دار، اور صاف گو عالم دین نے ان دونوں پہلوﺅں پر خیرخواہانہ کام کیا، دونوں ہی بہت لازم تھے، جس کا ادراک بھی سب کو ہوا_

 لیکن اس کے بعد چند شدت پسند فضلاء مدارس کی طرف سے توقع کے مطابق جو  ردعمل سامنے آیاہے اس نے سخت منفی پیغام عام کیا ہے  ہم نے مہتمم دارالعلوم پر جو تنقید کی اس میں ہم نے یہ ثابت کیا کہ ان کا یہ بیان غلط ہے، موقف غلط ہے، اور ویڈیو غلط، ان کے فعل پر ہم نے سخت گرفت کی، انہیں ان کے بزرگوں کی عظیم تاریخ یاددلائی، اس سے سنگھیوں کو پہنچنے والے فائدے پر بات کی، لیکن ایک لفظ بھی ان کی ذاتیات پر کیچڑ نہیں اچھالا، ہم اب بھی کہتےہیں کہ پہلا ویڈیو جس تناظرمیں وائرل ہوا اس کی سخت تردید بہت لازمی تھی دونوں پہلوﺅں سے،  اور ہم نے یہ کبھی بھی، کسی بھی شخصیت کے ساتھ نہیں کیا، ہم بڑے علماء اور اپنے اساتذہ کی آراء سے کبھی کبھی سخت اختلاف کرتےہیں جو آراء موجودہ سیاسی و جمہوری منظرنامے میں منصوبہ بند Narrative کے لیے استعمال کی جاتی ہوں، ہم ان کی تنقید ضرور کرتےہیں اور مدلل کرتےہیں، لیکن صاحب رائے کوئی بھی ہو ہم اس کی ذات، پر حکم کبھی نہیں لگاتے اس کی رائے اور اس ایک غلط فعل پر تو سخت تنقید کرتےہیں لیکن اسی تنقید کے ساتھ اس شخصیت کے واجبی احترام کی بات بھی ضرور کرتےہیں 
کل بھی ہم نے یہی کیا، ہم نے ہی نہیں تقریباﹰ ہر عالم دین نے ایسے ہی کیا اور بزرگوں کی غلطیوں پر حقیقت بیانی اور حق گوئی کا یہی اسلوب بھی ہوتاہے 

لیکن بدقسمتی سے بھارت کے علماء طبقے میں کچھ ایسے عناصر تشکیل پا چکےہیں جو صحتمندانہ معاشرے کے لیے خطرناک ہوتےہیں  یہ اتنے سخت گیر شدت پسند لوگ ہیں کہ ان کا بس چلے تو اپنے مخالف رائے رکھنے والے مسلمان کی خونریزی سے بھی دریغ نہیں کرینگے  آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی بہت ہی مؤقر خاتون ذمہ دار ڈاکٹر اسماء زہرا صاحبہ، جنہوں نے بورڈ کے پلیٹ فارم سے ملک گیر سطح پر بھارت میں خواتین اسلام کے لیے بہت کام کیا ہے خاص طورپر طلاق ثلاثہ کے مسئلے میں، مسلم خواتین کے مسائل کی خاطر ان کے متحرک رہنے کی وجہ سے میرے دل میں بھی ان کی بڑی قدر ہے، اور ابھی بھی مودی سرکار اور آر ایس ایس کے ظالمانہ عزائم کےخلاف خواتین کی تحریک میں وہ ایکٹو ہیں، انہوں نے بھی مہتمم دارالعلوم دیوبند کے پہلے والے بیان کےخلاف سخت تنقید کی تھی، ان کے اس آوڈیو کو سن کر ہندوستان کے موجودہ حالات سے واقفیت رکھنے والا ادنیٰ سا شخص بھی ان کے درد اور کرب کو محسوس کرسکتا ہے، ان کے شدید اسلوب سے اختلاف کی یقینًا گنجائش ہے، 

لیکن نجانے کس قسم کے وہ سخت گیر متشدد لوگ ہیں جو اپنے آپ کو عالم بھی کہلاتے ہیں لیکن ان کے زہر بجھے لعن طعن کرنے والے قلم اب ان محترم خاتون کے خلاف بھی بڑی ہی بے مروتی سے چل رہےہیں اس رویے سے سخت تکلیف ہوئی ایک طرف ہماری مائیں بہنیں قربانیاں دے رہی ہیں، ملک میں وجود سنگین موڑ پر ہے، دشمن ننگا ناچ کھیلنے تیار ہے، آپ غیرضروری عذر تلاش کر کنارے ہو، چلیے شرکت مت کیجیے اس لڑائی میں لیکن دوسری طرف دارالعلوم ندوۃ العلماء سے کبھی خبر آتی ہےکہ انتظامیہ نے یوگی آدتیہ ناتھ کی پولیس میں اپنے ہی ایک ندوی فاضل کے خلاف پولیس کیس کروا دیا، خبر آتی ہےکہ جامعہ اسلامیہ مظفرپور اعظم گڑھ کے ذمہ داروں نے احتجاجی جذبہ رکھنے والے سولہ سولہ طلباء کا ہی اخراج کردیا، دیوبند میں دارالعلوم کے ذمہ دار حضرات کی طرف سے بھی تشویشناک خبر آہی جاتی ہے، کوئی ایمان والا ذرا اپنے آپ کو اللّٰہ کے حاضر ناظر مان کر اپنے ہی ضمیر سے پوچھ لے کہ کیا اتنے نازک حالات میں ایسی خطرناک روش پوری تحریک کو نقصان نہیں پہنچائے گی؟ ان پر کس طرح خاموش رہاجائے؟ 

دراصل یہ طبقہ مدرسے سے سند حاصل کرنے کے بعد بیشتر وقت اپنی اپنی علاقائی چہاردیواری میں مقید رہتاہے،  عملی دنیا پیچیدگیوں سے انہیں واسطہ نہیں پڑتا اسلیے وہ ایک طرح سے مجبور بھی ہیں، وہ اپنے موجودہ چند مشہور لوگوں کے نام پر دارالعلوم دیوبند کی بنیادی تاریخ پر تیرونشتر چلاتے ہیں، وہ دارالعلوم ندوۃ العلما کی اصل فکر کو تو درکنار علی میاں ندویؒ والے ندوہ کو بھی قبول نہیں کر پارہے ہیں

وہ قاسم نانوتوی، شیخ الہند، انور شاہ، مرشد تھانوی، عبیداللہ سندھی والے دارالعلوم سے منقطع ہوچکےہیں وہ محمد علی مونگیری، شبلی نعمانی، سید سلیمان ندوی، عمران خان ندوی، ابوالحسن علی ندوی، والے ندوہ کی رمق سے بھی محروم ہیں 
 دوسری طرف تنظیموں پر تنقید کردو تو ان کے دفاع میں بدتمیزی کرنے والے اعلان کرتےہیں کہ انہیں، مفتی کفایت اللہ، شیخ الہند، شیخ الاسلام،  اور حفظ الرحمن سیوہاروی والی غیور جمعیۃ سے اب کوئی تعلق نہیں، انہیں منت اللہ رحمانی، قاری طیب، ابوالحسن علی ندوی اور قاضی مجاہد الاسلام والے بورڈ سے نسبت نہیں رہی… 

یہ متشدد فوج اپنے ان عظیم بانیوں اور ربانی اسلاف کی تاریخ کو کچلنے لگتی ہے، جس پر طرفہ تماشا ہوتاہے کہ وہ اکابر اور علماء کا دفاع کررہے ہیں، بلکہ کل تو ایک عالِم صاحب یہاں تک فرما رہےتھے کہ وہ اکابر کی غلطیوں کی تاویل کے ذریعے مسلمانوں کے عقائد کی حفاظت کررہےہیں، اکثر لوگوں نے یہ طوفان کھڑا کیا ہوتاہے کہ بڑے غلطی بھی کریں تو ان کی تاویل کرو ورنہ عوام کا ایمان خطرےمیں پڑ جائےگا، علماء سے اعتماد اٹھ جائےگا، لوگوں کے ایمان و اسلام پر بن آئےگی، 

کیسی کیسی سطحی بے حیثیت اور غیر اسلامی افسانوی باتیں ہیں یہ، یہ دراصل دیومالائی اجارہ داری، اور سنسنی خیز ایمان کا خوف پیدا کرکے مذہب کے نام پر استحصال کرنے والے وہ ہتھکنڈے ہیں جس کے ذریعے برسہابرس سے بھارت میں مخصوص مفادات کے تحفظ کے ليے عقیدت مند فوج تیار کی گئی ہے، اور یہی وجہ ہیکہ بھارت میں برسہابرس سے ان مخصوص مفادات کا تحفظ تو ہوگیا لیکن ملت اسلامیہ کو Democratic دوڑ میں Productive Progress کے نام پر کسی بھی شعبے میں تنکا تک حاصل نہیں ہوا، یہاں تک کہ اب ان کے وجود کی لڑائی بھی ان کی شناخت چھپا چھپا کر لڑنے کے بےغیرت مگر مجبور دانشمندی کے مشورے آنے لگتے ہیں 

 اس مخصوص جماعت کو یہ سمجھا دیا گیا ہےکہ اب اللہ، رسول اللّٰہﷺ، قرآن، شریعت اور اسلام کی محافظت کا التزام بھارت میں گن کر ۱۰ شخصیات کے ساتھ اندھی بہری، غیر شرعی عقیدت والی وابستگی میں قید ہوچکاہے، اگر ایک خاص فکر کے علماء پر واجبی تنقید بھی کی جائےگی تو اس کی وجہ سے اللّٰہ کا فیصلہ " انا نحن نزلنا الذکر و انا لہ لحٰفظون " نعوذباللہ منسوخ ہوجائے گا، اور شریعت اسلامیہ دھڑادھڑ منہدم ہوجائے گی، اگر ان میں سے کسی کے بھی " حضرت " کی رائے سے اختلاف یا پالیسی پر تنقید کردی گئی تو اسی وقت سے بھارت میں اسپین کی طرح مسلمانوں کا قتل عام ہوگا اور علماء سے عوام کا اعتماد ختم ہوجائےگا 

یہ افسانوی اور ڈرامائی بھکتی والی معجون برسہابرس سے ایک طبقے کو وافر مقدار میں پلا دی گئی ہے، جس کے بعد ان کے مذہبی اور فقہی اعمال ہی نہیں علم، مطالعہ، سیاست، معیشت سے لیکر خبریں پڑھنے کا انداز تک اس نادیدہ خطرے سے خطراتی ہوگیاہے یہاں تک کہ جب وہ غیر اسلامی جمہوری ملکی پالیسیوں پر تبصرے کرتے ہیں تو بھی تان اسی پر آکر ٹوٹ جاتی ہے کہ علماء سے اعتماد ختم ہورہاہے، لیکن انہی مدارس سے ایسی صورتحال پیدا ہورہی ہےکہ گزشتہ چند سالوں میں مسلسل زوال پذیر صورتحال کی وجہ سے ایسی نسل باہر آرہی ہے جو حقیقت پسند ہے وہ رفتہ رفتہ سوالات اٹھا رہی ہے، جس سے ہر ایک کی برسہابرس سے چلی آرہی روش مخدوش نظر آنے لگی ہے، یہاں تک کہ وہ نسل اپنی عالمانہ شناخت اور حقیقی علماء کی جانشینی کے لیے اب ملک کے مختلف حصوں میں میدان سنبھالنے لگی ہے، اس صورتحال سے بہت ساروں کے ہاتھ پیر پھول رہےہیں، تو اس ذہنیت نے یہ کیا کہ جدید تقاضوں سے لیس ہوکر کام کرنے والے اپنے ہی علماء اور فضلاء کےخلاف بدنامی کردارکشی کی مہم چھیڑنے لگے، حال تو یہ ہوچکاہے کپ بار بار دہائی دیتےہیں کہ ہم پر بھروسہ کرو، ہماری عزت کرو، اعتماد اور نجانے کیا کیا کرو، عجیب و غریب بشارتیں، کرامتیں سب فلاپ ہونے لگیں تو پھر سے وہی راگ کہ یہ رافضی، شیعہ ہیں، باطل کے ایجنٹ منافق گستاخ ہیں علماء سے اعتماد ختم کروا رہےہیں 
یہ دہائیاں دے دے کر وہ خود اپنی پوزیشن کمزور کرتےہیں 

یہ وہ صورتحال ہے جو اسوقت مسلمانوں کے مذہبی طبقے میں برپا ہے، اور اس طبقے میں Productive، نظریاتی ترقی کے ساتھ کام کرنے  والے ہر عالم دین کو ان اتہامات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے 

 شدت پسندی اور ذہنیت کیسی ہوچکی ہے اس کا اندازہ آپ اس سے لگائیں کہ کل ایکطرف ہماری طرف سے بروقت اقدام پر جہاں پچاسوں لوگوں نے شکریہ کا مستحق سمجھا وہیں ہمیں بعضوں نے صریح گالیاں بھی دیں، یہاں تک کہ ایک صاحب نے لکھا ہے کہ یہودیوں کا ایجنٹ ہے سمیع اللّٰہ، ایسے منافقوں کی گردن مار دی جائے اس کا اسکرین شارٹ میرےپاس محفوظ ہے، اس ذہنیت کا سامنا ہمیں بار بار کرنا پڑتاہے، اور یہ کئی دفعہ ہوچکاہے جب اس طبقے کے شدت پسندوں نے یہ لکھاہے کہ ہمارا قتل جائز ہوگیا  ہم زمین پر سنگھیوں، آر ایس ایس، بھاجپا وغیرہ کی پالیسیوں کے خلاف کام کرتےہیں لیکن جب اپنوں کو متوجہ کرنا چاہتےہیں تو معلوم پڑتاہے کہ خطرناک سَنگھ واد تو ہمارے لوگوں کے یہاں بھی ہے جس نے ان کی ترقی روک رکھی ہے 

 ایسے لوگوں کو بہت اچھے سے سمجھ لینا چاہیے کہ، ان کی یہ متشددانہ روش چند سالوں میں انہیں مزید شدید رسوائی کے دہانے پر اس طرح لا کھڑا کرےگی جب وہ شدت اشتعال سے نوچنے کے لیے کچھ نہیں پائیں گے، اسلام کسی بھی زمانے میں کسی کا محتاج نہیں ہوا یہ اللّٰہ کی شان کےخلاف ہے، مدارس کی سینکڑوں برس پرانی روح ہماری شان ہے اور اس روح سے نسبت پر ہمیں آج بھی فخر ہے وہ روح پلٹے گی، علماء حق کی عظمت کبھی بھی کم نہیں ہوئی نا دنیا میں کوئی ان کی عظمتوں کو کم کرنے کی طاقت رکھتاہے، بھارت میں علماء حق کی عظمت کا پھر سے عروج ہوگا،  باطل اور طاغوت کے خلاف ایک بار پھر سے قاسم نانوتوی، شیخ الہند اور عبیداللہ سندھی کے جانشین صف آرا ہوں گے، علمی دنیا پھر سے مرشد تھانوی، شبلی نعمانی، انور شاہ  جیسے جبال علم و عمل سے آباد ہوگی 
ولی اللہی چشمے کا فیض پھر سے آفاقی پُل استوار کرےگا 

اسلام کی فطری سربلندی ڈھکوسلوں سے سربلند ہے،ذہنی اور زمینی سطح پر پوری طرح محض گزشتہ چالیس سال کے اندر جکڑے ہوئے لوگ عالمگیریت کی عظمت رفتہ کے مسافر نہیں ہوسکیں گے، البتہ وہ ضرور دیکھیں گے کہ 
اہل حق اور باطل کی سخت کشمکش ہوگی، خدشات، خطرات اور تحفظات والے ڈور سلجھانے اور بچانے میں رہ جائیں گے دوسری طرف معرکہ بھی سر ہوجائے گا، سب کچھ فنا ہوجائے گا، بس نام رہے گا اللّٰہ کا، پھر
دور عروج پلٹے گا، مجاہد صفت درویشوں کی روحانیت سرشار کرےگی، گوناگونی میں متنوع حسین دلوں کا مجمع ہوگا، لیکن وہاں کوئی خطرہ نہیں ہوگا… گالیاں دینے والوں کو دعائیں، یہودیوں کا ایجنٹ کہنے والوں کو بہت سارا پیار، جان سے مار دینے کی خواہش رکھنے والوں کو بھی ڈھیر سارے مہکتے پھول_

سمیع اللّٰہ خان

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad