تازہ ترین

ہفتہ، 22 فروری، 2020

سی اے اے مسئلہ ہے،مسئلے کا حل نہیں!

تحریر: منصورقاسمی، ریاض سعودی عرب
شہریت ترمیمی بل وزیر داخلہ امیت شاہ نے بالآخرگرما گرم بحث و مباحثہ کے بعد پارلیامنٹ اور راجیہ سبھا میںمخالفت کے باوجود منظور کروا ہی لیا، صدر جمہوریہ ہند نے بھی اپنے دستخط اورمہر سے شہریت ترمیمی بل کوشہریت ترمیمی قانون بنا دیا۔ وزیر داخلہ کہتے ہیں:پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش میں ستائے ہوئے مظلوم و مقہور ہندو، بودھ، سکھ، عیسائی،جین اور پارسی کو سی اے اے کے ذریعہ شہریت دی جا ئے گی، مسلمانوں کو اس نئے قانون سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے؛حالانکہ آئین ہند مذہب، ذات، جنس، رنگ، پیشہ اور قبیلہ کی بنیاد پر تفریق نہیں اجازت نہیں دیتا ہے۔آئین مخالف یہ کالا قانون بنتے ہی پورے ملک میں ابال آ گیا، بڑے اور چھوٹے شہروں میں احتجاجات و مظاہرے شروع ہو گئے، دہلی کے شاہین باغ نے ہر جگہ ایک شاہین باغ کو جنم دیا،ہر طرف بے چینیاں، ہر دھرم کے لوگ پریشان چنانچہ مرد تو کجا وہ عورتیں بھی جو کبھی گھر سے باہرنہیں نکلتی تھیں، آئین وملک کی حفاظت کے لئے سڑکوں پر اتر آئیں،مگر وزیر اعظم نہ کسی سے بات کرنے کو تیار ہیں اور نہ سننے کو، وزیر داخلہ آمرانہ لہجے میں کہتے ہیں: سی اے اے سے ہم ایک انچ پیچھے نہیں ہٹیں گے،، اب کرونولوجی سمجھا رہے ہیں کہ سی اے اے شہریت دینے کے لئے ہے، لینے کے لئے نہیں؛جبکہ خود ہی ایوان بالا اور مغربی بنگال میں کہا تھا۔

کرونولوجی سمجھ لیجئے: پہلے سی اے اے آئے گا پھر این آر سی آئے گا،،یعنی آپ کو اپنی شہریت ثابت کرنی ہوگی ورنہ گھس پیٹھیے سمجھے جاؤگے۔ظاہر ہے جب شہریت کا، تشخص کا اوروقار کا سوال آجائے تو پورا ہندوستان کااس قانون کے خلاف کھڑا ہونا لازمی تھا، سو ہوا؛کیونکہ لوگوں نے دیکھا ایک مسلم آفیسر اجمل حق جس نے تیس سال فوج میں اپنی خدمت انجام دی،ان کو بھی شہریت ثابت کرنے کا شرمناک فرمان جاری کردیا گیا۔ ١٩٨٨ میں راجیہ سبھا کی رکن، ١٩٧٢، ١٩٧٨، ١٩٨٣، ١٩٩١ میں ریاست آسام کی رکن اسمبلی اور آسام کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ سیدہ انورہ تیمورکا نام بھی نیشنل رجسٹر آف سٹیزن سے غائب ہے،۔آسام ہی کی زبیدہ بیگم نے پین کارڈ، بینک ریکارڈ،آدھار کارڈ، الیکشن کارڈ،گاؤں کے پردھان کی سرٹیفیکٹ، اپنے والد زبید علی کی ١٩٦٦،١٩٧٠،١٩٧١ کے ووٹر لسٹ میں جڑے دستاویز سمیت پندرہ دستاویزات پیش کرنے کے بعد بھی حکومت اور کورٹ نے ان کو ہندوستانی شہری ماننے سے انکار کردیا۔ ایک حق پرست اور سچادیش بھکت جانتا ہے کہ سی اے اے مودی اور شاہ نے فقط اپنی سیاسی مفادات اور، ایک خاص طبقہ کو ٹارگٹ کرنے کے لئے لایا ہے؛لیکن اس کی زد میںتمام طبقات کے افراد آئیں گے۔ یہ قانون تارکین وطن کے مسئلے کا حل نہیں ہے بلکہ اہل وطن کے لئے مسئلہ ہے،اور یہی جان کر تمام طبقات کے لوگ سڑکوں پر اتر آئے ہیں۔

اقوام متحدہ کے سربراہ اینٹونیوگٹیرس نے بھی کہا ہے: شہریت ترمیمی قانون کی وجہ سے کئی لاکھ (میرا ماننا ہے کئی کروڑ) لوگوں کی شہریت پر خطرہ ہے اور ان میں سے زیادہ مسلم ہیں، اس پر مجھے فکر لاحق ہے،،۔اقوام متحدہ کے ہی انسانی حقوق کے ہائی کمیشن نے اندیشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے: بھارتی سپریم کورٹ اس نئے قانون کا باریک بینی کے ساتھ بین الاقوامی انسانی حقوق سے متعلق بھارتی ذمہ داریوں کا تقابل کرے،،۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سپریم کورٹ اس غیر قانونی قانون کو فورا سے پیشتر منسوخ کر دیتی مگر وہ چوں و چرا سے کام لے رہی ہے، گزشتہ چند فیصلوں سے اس کا انصاف بھی مشکوک ہوا ہے،سپریم کورٹ نے دو مذاکرہ کار سنجے ہیگڑے اور سادھنا رام چندرن کو شاہین باغ راستہ کھلوانے کے لئے بات چیت کرنے کو بھیجا،سی اے اے پر بات کرنے کے لئے نہیں،مظاہرین نے بھی واضح پیغام دے دیا ہے کہ ہم آئین اور گاندھی کے اصولوں پر چلنے والے ہیں، سی اے اے ایک ظالمانہ قانون ہے،'حکومت ابھی واپس لے ہم آدھے گھنٹے میں سڑک خالی کردیں گے!اقوام متحدہ کے علاوہ اس کالے قانون کی گونج یورپی پارلیمان میں بھی گونجی، چنانچہ چھ پارلیمان گروپوں کی طرف سے سی اے اے کے خلاف قرار دار پیش کی گئی،جس پر تیز و تند بحثیں ہوئیں، قرار داد پر بحث کرتے ہوئے بعض اراکین نے اس قانون کو نازی دور کے قوانین سے تشبیہ دے دی اور کہا۔

 سی اے اے صرف مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لئے اور انہیں بے وطن کرنے کے لئے لایا گیا ہے، یہ بہت ہی خطرناک اور امتیازی قانون ہے،،۔ملکی اور بین الاقوامی طور پر اس قانون سے ملک کی شبیہ خراب ہو رہی ہے، جمہوریت اور آزادی پر سوالات اٹھ رہے ہیں مگر مودی اور شاہ یہ پیغام دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ سی اے اے درست ہے، ہم پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش میں ستائے جا رہے ہندوؤںکو اس کے ذریعے شہریت دیں گے بس! جبکہ مودی اور شاہ کی اس مسیحائی کو وہاں کے ہندو ہی مذاق اڑا رہے ہیں۔ ١٦ /فروری کو پاکستان سے ٤٤ ہندو عقیدت مند ہریدوار ''گنگا اسنان،، کرنے کے لئے پہنچے تھے، ان سے جب سی اے اے کے حوالے سے سوالات کئے گئے تو انہوں نے کہا: سی اے اے ایک سیاسی کھیل ہے؛کیونکہ جس طرح کہا جا رہا ہے کہ پاکستان میں ہندوؤں پر مظالم ہو رہے ہیں،وہ قطعی درست نہیں ہے، ہم وہاں بہت خوش ہیں، کوئی پریشانی نہیں ہے، سی اے اے سے ہمیں کوئی سروکار نہیں،،مکیش شنکر نامی ِشخص نے کہا کہ: ہندوؤں کے استحصال جیسی کوئی بات نہیں ہے،آج تک ہمارے شہر میںکسی کے ساتھ غلط نہیں ہوا ہے، یہ ضرور ہے کہ ہندوستان کی طرح تہوار کی دھوم سڑکوں پر دیکھنے کو نہیں ملتی ہے۔

ایک طرف سی اے اے کے ذریعے کروڑوں غیر ملکی تارکین وطن کو شہریت دینے کے لئے حکومت بے چین ہے وہیں دوسری طرف '' جن سنکھیا نینترن،،قانون بنانے کا مطالبہ بی جے پی اور ہندو دادی تنظیمیں عرصہء دراز سے کررہی ہیں،انہیں لگتا ہے کہ مسلمان بہت زیادہ بچے پیدا کررہے ہیں؛چنانچہ زہریلے بیانات کے لئے مشہور ساکشی مہاراج اورسادھوی پراچی نے کہا تھا کہ ہندو عورتیں چار چار بچے پیدا کریں تاکہ ہندو مذہب کا تحفظ ہو سکے ورنہ ہندو مذہب کا وجود اور بقاء پر خطرہ لاحق ہو جائے گا۔ پروین توگڑیا نے کہا تھا: مسلمان چار چار شادیاں اور دس دس بچے پیدا کرتے ہیں،اگر دو کی بات کرنی ہے تو قانون بناؤ اور جو خلاف ورزی کرے اس کو ملازمت،ووٹ اور دیگر سرکاری مراعات سے محروم کردیا جائے۔عجیب بات یہ ہے،زیادہ بچے پیدا کرنے کا مشورہ وہ دے رہے ہیں جن کو شادی، بیوی اوربچوں سے مطلب ہی نہیں ہے۔ ایک وقت یہ پرو پیگنڈہ پھیلایا گیا کہ ٢٠٣٥ تک ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی ٥.٩٢ کروڑ ہو جائے گی جبکہ ہندوؤں کی آبادی ٢.٩٠ ہوگی، ٢٠٤٠ تک ہندو تہوار بھی نہیں منا سکیں گے۔

 بڑے پیمانے پر غیر مسلموں کا قتل کیا جائے گا، ٢٠٥٠ تک آتے آتے ہندوستان مسلم ملک ہو جائے گا؛حالانکہ شرح پیدائش دیکھیں تو ٢٠٥٠ کیا ٢١٠٠ تک بھی ہندوستان مسلم ملک نہیں بن پائے گا۔ ١٦۔٢٠١٥میں نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کے مطابق ہندوؤں میں بچے کی شرح پیدائش ١.٢ جبکہ٥۔ ٢٠٠٤ میں ٨.٢ تھی، مطلب ٧.کی کمی دس سالوں میں ہوئی۔ مسلمانوں کی شرح پیدائش ١٦۔٢٠١٥ میں ٦.٢ تھی جبکہ ٥۔٢٠٠٤ میں ٤.٣ تھی، مطلب ٨.کی کمی آئی یعنی ہندوؤں سے زیادہ مسلمانوں کی شرح پیدائش میں کمی آئی ہے،پھر کیسے ٢٠٥٠ تک ہندوستان ایک مسلم ملک بن جائے گا،؟جین کی موجودہ شرح پیدائش ٢.١ سکھ٦.١ بودھ٧.١ اور عیسائی ٢ فیصد کو شامل کردیں تو مسلمان کہیں بھی نظر نہیں آئے گا پھر یہ پروپیگنڈہ کیوں؟ 

مجھے اس سے بحث نہیں ہے کہ کس مذہب میں شرح پیدائش زیادہ ہے اور کس میں کم، بحث یہ ہے کہ جب بڑھتی آبادی پر کنٹرول کی بات زور و شور سے کی جا رہی ہے، برتھ کنٹرول کی ترغیب دی جا رہی ہے، منصوبے بن رہے ہیں، دو بچے کے لئے قانون لانے کی بات ہو رہی ہے تو غیر ملکیوں کوشہریت دینے کے لئے کیوںشہریت ترمیمی قانون لایا گیا، کیا یہ '' جن سنکھیا نینترن،، کے خلاف نہیں ہے؟ اور کیایہ غیر کے بچے کو گود لینا اور اپنے بچے کو دھتکارنا جیسا عمل نہیں ہے؟قابل غور ہے کہ جن کو شہریت دی جا ئے گی ان کے لئے حکومت رہائش کا بند و بست، ملازمت، تعلیم، صحت اور ساری بنیادی سہولیات کیسے فراہم کرے گی، اس کے لئے فنڈ کہاں سے آئے گا،کیا ملک کی معیشت پر بوجھ نہیں بڑھے گا؟ حقیقت تو یہ ہے کہ سی اے اے ہندو تارکین کے مسئلے کوحل کے لئے نہیں لایا گیا ہے بلکہ پسماندہ طبقات خصوصا مسلمانوں کو پریشان کرنے اور اس کو دوسرے درجے کا شہری بنانے کے لئے لایا گیا ہے،ورنہ غیر ملکیوں کو شہریت دینے کے لئے توپہلے سے ہی قانون موجود ہے،جس کے ذریعے ہزاروں لوگوں کو گزشتہ سرکاریں اور خود بی جے پی شہریت دے چکی ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad