تازہ ترین

بدھ، 26 فروری، 2020

ہاں!وہ مشورہ کیجیے جو دل کو تڑپا دے،روح کو گرما دے



تحریر: وزیر احمد مصباحی (بانکا)شعبہ تحقیق: جامعہ اشرفیہ مبارک پور


                   {موجِ خیال}

       اس وقت ہندوستان کی جو حالت زار ہے وہ کسی بھی باشعور ہندوستانی پر پوشیدہ نہیں ہے۔تقریبا تین مہینے سے سیاہ قانون کے خلاف امن پسند افراد احتجاجی مظاہرے کر رہے ہیں۔اس حوالے سے شاہین باغ کا نام سرفہرست ہے۔اسی طرح جامعہ ملیہ اسلامیہ ،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جوہر لال نہرو یونیورسٹی اور دوسرے تمام بڑے بڑے جامعات اور ادارے اس سیاہ قانون کے خلاف کھڑے ہیں۔مگر سرکار اس حوالے سے ایک قدم بھی پیچھے ہٹانے کے لیے تیار نہیں ہے۔اس وقت ماحول اس طرح پراگندہ ہوگیا ہے کہ سیاہ قانون کی حمایت کرنے والے افراد ان لوگوں کو جو ان کی مخالفت کر رہے ہیں انھیں ملک مخالف گردان رہے ہیں۔دو دن پہلے جس طرح دہلی کے جمنا پار علاقے میں شرپسندوں نے نفرت انگیزی کے ذریعہ مسلم آبادی پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے  ہیں وہ یقینا ہندوستانی جمہوریت کو شرمسار کر دینے کے لیے کافی ہے۔آج ان بھگوا دھاریوں کی حمایت میں دہلی پولیس نے اپنی جس شرمناک حرکت کو ظاہر کیا ہے وہ ہر امن پسند ہندوستانی کو بے چین کر دینے کے لیے کافی ہے۔بابر پور، موجپور ،چاند باغ ،جعفرآباد اور بھجن پورہ وغیرہ 
 علاقے میں شرپسندوں نے جس طرح توڑ پھوڑ اور مسلم گھروں میں آگ زنی کی ہیں وہ ملک کی امن پسندی کے لیے ایک زبردست خطرے کی نشانی ہے۔اس وقت دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال اور موجودہ سرکار کو اس حوالے سے ضرور جلدازجلد کوئی زبردست عملی اقدام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس طرح کی  ناگاہانی حالات پر فوری قابو پایا جاسکے اور ملکی امن و امان کو برقرار رکھا جاسکے۔ورنہ تو وہ دن دور نہیں جب ہندو مسلم کی آگ میں ہمارا یہ خوبصورت ملک جل کر راکھ ہو جائے گا۔

      اس وقت قوم مسلم کے لیے بھی یہ ایک سوچنے اور غور و فکر کرنے کا مقام ہے کہ آخر ہم ظلم و ستم کے نشانے پر کیوں ہیں؟ہمارے وہ قائدین جو اپنی امامت کا دم بھرتے ہیں آخر وہ اس مصیبت کی گھڑی میں ہماری  دستگیری کے لیے کیوں نہیں آرہے ہیں؟ہمیں اتحاد اتحاد کا درس دینے والے افراد ہی آخر آپسی رنجش اور ایک دوسرے کے دست بگریباں کیوں نظر آ رہے ہیں۔ایسا نہیں ہے کہ آج اگر غریب اور لاچار مسلمان ان حملوں کے چپیٹ میں ہیں تو کل ان عیش و آرام کی زندگی گزارنے والوں کے یہاں یہ مصیبت نہیں آئے گی۔ایسا ہرگز نہیں ہے۔ اس لیے کہ جب آگ لگتی ہے تو اس میں ہر ایک کے گھر جل کر راکھ ہو جایا کرتے ہیں۔جی ہاں! یہ وقت ہے سوچنے، سمجھنے،غوروفکر کرنے اور ان مصیبتوں سے چھٹکارا پانے کے لیے ایک زبردست لائحہ عمل تیار کرنے کا ۔ورنہ قریب ہے کہ اس نفرت بھرے دور میں یہ شرپسند عناصر ہمارا جینا دوبھر کر دیں۔ہر دن ایسا کوئی نہ کوئی حادثہ ضرور رونما ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے ایک عام آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ آخر ہمارا یہ ملک جو کہ جمہوریت کی عظیم نشانی سمجھی جاتی ہے اس طرح کی دل دہلا دینے والے واقعات و حالات ہر صبح و شام اسی کے دامن میں کیوں انجام پذیر ہوتے ہیں؟یہ سچ ہے کہ ہمارا ملک برسوں سے امن وآشتی کا گہوارہ تسلیم کیا جاتا رہا ہے۔پر اب جس طرح ہر روز ملکی حالات بگڑتے چلے جارہے ہیں۔

 وہ اس بات کی نشانی ہے کہ آج کہیں نہ کہیں جمہوریت اپنی اصل حقیقت  اجاگر کرنے میں ناکام ہے۔ہاں! اب وقت کی یہ اہم ضرورت ہے کہ آپ سر جوڑ کر بیٹھیں اور اپنی ایک ایسی ٹیم تیار کریں جو وقت و حالات سے مکمل آگاہی کے ساتھ ساتھ علم و عمل اور اخلاص و وفا کی دولت سے مالا مال ہوں۔اس لیے کہ تنظیمی شعور تو ہمیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ سے ملا ہے۔ایک تنظیم کے سانچے میں انسان وہ کارنامہ انجام دے سکتا ہے جو تن تنہا نہیں کر سکتا۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب آدمی کے اوپر مفاد پرستی کا بھوت سوار ہوتا ہے تو پھر اسے صرف اپنی ہی فکر‌رہتی ہے ۔کیا قوم ؟کیا ملت؟کیا انسانیت؟کیا بھائی چارہ اور کیا اجتماعیت پر انفرادیت کو قربان کر دینے کا جذبہ ؟؟؟یہ تمام چیزیں اس کے نزدیک بے فائدہ اور ہینچ ہو جاتی ہیں۔آج زندگی کی دوڑ بھاگ میں اکثر وہ صاحبانِ جبہ و دستار بھی ملا کرتے ہیں جو ۔۔۔ممبر رسول سے پیغام امن و محبت کی اپیل تو سامعین سے کر جاتے ہیں پر وہ خود انسیت و غم خواری کے ذریں اصول سے بے بہرہ ہوا کرتے ہیں۔ پونجی جمع کرنے کا خمار اس قدر سر پہ لیے پھرتے ہیں کہ ہر ایک چھوٹی موٹی چیز انجام دینے پر بھی قوم کی دولت ایٹھنے کا کام کرتے ہیں۔۔۔۔

یہ کتنی حیرت کی بات ہے نا کہ جب شروع شروع میں سیاہ قانون کے خلاف مظاہروں کی شروعات ہوئی تھیں تو اس وقت ملک بھر میں خواتین سر جوڑ کر دھرنوں میں شریک ہو گئی تھیں۔مگر ملت کے یہ  بھولے بھالے قائدین صرف اظہار افسوس ، بیان بازی اور میٹنگوں و کانفرنسوں سے کام چلا رہے تھے ۔۔۔۔روڈ پر اتر کر مظاہروں میں شرکت اور اس کی رہنمائی کا فریضہ تو بہت دور کی بات ہے۔سوائے چند کے اکثر خانقاہوں کے سجادہ نشین بس اپنے خواب گاہوں میں کھراٹے کی نیند لے رہے تھے۔جو میٹنگ اس وقت میں ہوئی تھی آج تک ان کے اثرات نظر نہیں آرہے ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ بس وقتی جذبے کے تحت ہی منعقد کی گئی تھی تاکہ کوئی دوسرے ان پر طعن و تشنیع کے تیر نہ برسا سکیں کہ" آپ نے کچھ نہیں کیا ہے" ۔سچ مچ ،اگر اس مقصد کے تحت اگر یہ لوگ سر جوڑ کر بیٹھتے کہ نہیں ہمیں موجودہ فتنوں سے نپٹنا ہیں اور عزم مصمم کرکے میدان عمل میں اترتے تو ضرور آج اس میٹنگ اور کانفرنسوں کے بہتر نتائج ہمیں دیکھنے کو ملتے۔

مجھے یقین ہے کہ دہلی کی اس بری حالت کے بعد ضرور نام نہاد قائدین و سربراہان ملت اس مرتبہ بھی میٹنگ کی بات کریں گے اور پھر ہمیشہ کی طرح خاموش ہو جائیں گے۔۔۔مگر ۔۔۔خدا کرے کہ ان حضرات کی یہ میٹنگیں قوم و ملت کے حق میں اثر انگیز و دیر پا ہوں۔۔۔اس وقت کانفرنسوں کے ساتھ ساتھ زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ آپ میدان عمل میں اتر کر ان نہتے ماؤں و بہنوں کی آواز میں بھی آواز ملائیں، ہاں! اتریں میدان عمل میں کہ اگر قوم زندہ رہی تو پھر ہزاروں میٹنگیں اور کانفرنسیں ہوں گی۔ یہ بات سچ ہے کہ عقل مندقومیں آپسی صلاح و مشورہ کے بعد ہی کوئی عملی اقدام کرتی ہیں۔۔۔مگر یہ حقیقت بھی سامنے رہے کہ وہ بس غور و فکر کے بعد خاموش نہیں بیٹھ جاتیں بلکہ اس‌کے حصول میں مسلسل جد و جہد بھی کرتی ہیں۔۔۔۔اے کاش!!! کہ ہم بھی ماضی کے جھروکوں سے کچھ روشنی حاصل کرکے موجودہ سخت حالات سے آنکھیں ملانے کے لیے کچھ ذریں اصول اخذ کر پاتے۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad