تازہ ترین

پیر، 10 فروری، 2020

سلطان صلاح الدین ایوبیؒ...دوسری قسط

قاضی عبدالستار
سارا فرش سبز پتھر کا تھا جس پر سفید بچی کا ری اورسنگ مرر کی آبدار دیواروں پر سیپ کی خانہ بندی تھی۔ ناز ک گل بوٹوں کے حاشیوں کے درمیان ’’اقوال زریں‘‘ کندہ تھے۔ تھوڑی تھوڑی دور پر قد آدم محرابوں میں نازک ترین جالیوں کے پردے لگے تھے۔ بیضوی طاقوں میں جگمگاتی ہوئے زریں انگیٹھیوں میں عودوعنبر سلگ رہا تھا۔ مغربی دیوار کے نیچے سنگ سماق کا تخت بچھا تھا۔ جس کے پارے سونے کے کام سے زرد تھے۔چمڑے کے گدے پر شیر کی کھال بچھائے بھاری گاؤ تکیے سے پشت لگائے بادشاہوں کا بادشاہ نیم دراز تھا۔ ان کے گھٹنوں پر کشمیری شال پڑی تھی۔ جس سے ان کا سفید پائجامہ جھانک رہا تھا۔ زرد کفتان کے گریبان اورچوڑی چکلی آستین سے حریر کی صدری کے تکمے اور کف نظر آرہے تھے۔ داہنے ہاتھ کی انگلی میں وہ انگوٹھی تھی جسے یورپ کے سفیر نور کا پہاڑ کہتے تھے۔ رخساروں کی ہڈیاں ابھری ہوئی تھیں، دہانہ تنگ، ہونٹ پتلے اور دانت سفید تھے۔ کشادہ پیشانی کے وسط سے اونچی ناک کی جڑ کے پاس تک زخم کا وہ نشان تھا جسے سلطان اعظم نے حطین کی لڑائی میں قبول کیا تھا۔ اور جس پر بالوں کی ایک سفید لٹ سجدہ کر رہی تھی۔ 

سیاہ گھنے دور دور بیٹھے ابروؤں کے نیچے بے پناہ آنکھیں اس بڑھاپے میں بھی زندگی کے منصوبوں اور عزائم کی آگ سے دہل رہی تھیں۔ سفید پتلی اور نوک دار داڑھی نے فرشتوں کا تجمل پیدا کر دیا تھا۔تخت کے پہلو میں ہاتھی دانت کی تپائی پر وہ طربوش رکھا ہوا تھا جس نے تاریخ عالم کی عظیم الشان لڑائیوں کی کڑی دھوپ سہی تھی۔ تخت کی پشت پر دیوار میں ’’نصرمن اللہ و فتح قریب‘‘ کے زریں طغرے کے نیچے سونے کی کھونٹی میں چمڑے کا معمولی نیام پہنے وہ تلوار لٹک رہی تھی جس کی شکست کیلئے ساری دنیا کے گرجوں میں سالہا سال تک لاکھوں انسانو ں نے ہزاروں من آنسوؤں سے دھوئی ہوئی دعائیں مانگی تھیں۔سلطان اعظم کسی سوچ میں ڈوبے ہوئے تھے۔ قدموں کی چاپ پر نگاہ اٹھائی۔ پادری گھٹنوں پر گر گیا۔ اشارہ پاتے ہی خدمت گزاروں نے پادری کو کھلونے کی طرح اٹھا کر تخت کے نیچے بچھے ہوئے سفید قالین پر رکھ دیا۔ جب ہوش بجا ہوئے تو اس نے آنکھیں اٹھائیں۔ شبنم کی طرح نرم سلطانی نگاہ اس کا چہرہ پڑھ رہی تھیں۔ اس نے کانپتے ہاتھوں سے اپنی صلیب اتاری اور اس کے اوپر کا حصہ پکڑ کر پوری طاقت سے زور کیا۔ صلیب کھل گئی۔ خول سے ایک موم جامہ نکال کر آنکھوں سے لگایا اور دونوں ہاتھوں پر رکھ کر گھٹنوں کے بل کھڑا ہو گیا۔ حاجب نے اٹھالیا اور چاہاکہ مہر توڑ دے۔ پادری نے ہکلاتے ہوئے گزارش کی۔

’’میری استدعا ہے کہ اسے سلطان اعظم کے دست مبارک میں دے دیا جائے۔ سلطان کی نظریں دیکھ کر حاجب نے اسے سلطان کی خدمت میں پیش کر دیا۔ سلطان نے مہر دیکھی نگاہ مطمئن ہو گئی۔ کفتان کی آستین سے چھوٹا سا خنجر نکالا اور اس کے نیلے پھل سے لفافہ چاک کر کے خط نکال کر سرکاری انداز میں پڑھا۔ پھر پادری کو دیکھا جس نے نگاہ جھکالی۔ وہ خط تکیے پر ڈال کر زرنگار چھت میں جھولتے ہوئے بھاری فانوس کے نقش و نگار میں کھو گئے۔ تھوڑی دیر بعد نظریں نیچی کیں۔ فرمان کے منتظر حاجب کو دیکھ کر گردن ہلا دی۔ وہ پادری کو لے کر آرام خانہ خاص کے باہر چلا گیا۔ وہ اسی طرح بے حس و حرکت بیٹھے رہے۔ پھرتالی بجائی۔ مرصع غلاموں کا ایک دستہ بے آواز قدموں سے آکر حکم کا انتظار کرنے لگا۔ سلطان نے ان کی طرف دیکھے بغیر اشارہ کیا۔

’’آج کی حاضر یاں موقوف کی گئیں‘‘۔دستہ الٹے پیروں واپس ہو گیا۔ سارے وقت آنکھیں سوچتی رہیں۔ دل کا پوجا ہوا ایک زخم ہرا ہو گیا جس کی خوشبو سے پوری شخصیت معطر ہو گئی۔ ظہر اور عصر کی نماز تنہا پڑھی گئی۔ مغرب کے وقت زینے کے پردے کے پیچھے، ہتھیار وں کی مدھم جنبش اور دبی دبی سرگوشیوں کے پس منظر میں شہزادہ نصر کی ضدی چونچال اور مودبانہ آواز کھنکنے لگی۔ ملک العزیز کے اس بیٹے کو سلطان بہت عزیزرکھتے تھے۔ اجازت پا کر شہزادہ نصر کے داخل ہوتے ہی سلطان کا چھوٹا بیٹا ملک الظاہر اپنی دنیا کے سب سے بڑے حکیم میموس کو لے کر داخل ہوا۔

حکیم لانبی داڑھی پر خلفائے عباسیہ کا درباری جبہ پہنے اندر آئے جس کے سیاہ گھیر دار دامن ٹخنوں پر لرز رہے تھے اور دست بستہ کھڑے ہو گئے۔ سلطان نے کلائی بڑھائی۔ حکیم نے کفتان کی سوتی آستین الٹ دی اور نبض دیکھنے لگے۔ پھر مراقبے سے نکل کر ملک الظاہر کو مسرت سے دیکھا۔گویا سلطان کی تندرستی پر مبارکباد دے رہے ہوں۔خادم کے ہاتھوں سے سنہرے طشت سے وہ گلاس اٹھالیا جس پر سونے کے پانی سے قرآن پاک کی آیتیں لکھی ہوئی تھیں کچھ پڑھا، سرپوش اٹھا کر گلاس پردم کیا اور ہتھیلی پر رکھ کر رکوع میں چلے گئے۔

سلطان نے بے نیازی سے گلاس اٹھا کر لبوں سے لگا لیااور دونوں ہاتھ پھیلا کر خدا سے ایک دعا مانگنے لگے۔ عالمِ اسلام کے سب سے بڑے محسن کی زندگی کی دعا مانگنے لگے۔ اتنی دیر میں غلاموں نے ایک ایک جھاڑ ایک ایک قانوس روشن کر دیا۔ اس دوران ملک الظاہر بھی واپس آگئے۔ شہزادہ نصراور لپٹا رہتا لیکن وضو کیلئے آبدار خانہ جاتے ہوئے غلاموں کو اشارے میں حکم دے گئے جو شہزادہ کو بہلا پھسلا کر گھسیٹ لے گئے۔ نماز کی مر مریں چوکی پر کھڑے ہوتے ہی حکم دیا۔نہ غذا کی خواہش ہے اور نہ کسی کو داخلے کی اجازت‘‘۔

نماز کے بعد دیر تک وہ مصلے پر بیٹھے رہے۔ عدن کے موتیوں کی تسبیح ان کی گندمی مخروطی انگلیوں میں لرزتی رہی۔ یہاں تک کہ قصر معلٰی کی مسجد کے مؤذن نے عشاء کی اذان دے دی۔ وہ پھر نماز کے لئے کھڑے ہوگئے۔ جب اٹھے تو نیچے پہرہ تبدیل ہو رہا تھا۔ آوازیں ہونٹوں پر انگلی رکھے چبوترے پر رینگ رہی تھیں۔ وہ تخت پر گاؤ تکیے کے سہارے بیٹھ گئے اور پادری کا لا ہوا خط نکال کر دوبارہ پڑھا۔یہ رات ان کی زندگی کی سب سے بھاری رات تھی۔ ان کے گھنگھور شباب نے ۱۱۵۲ء کی وہ بھیانک رات بھی دیکھی تھی جب فرانس کی ملکہ نے دین مسیح کی دعوت ٹھکرا دینے پر انہیں اپنی دائمی جدائی کے سمندر میں غرق کر دیا تھا۔ انہیں ابھی دو برس پہلے ۱۲جولائی ۱۱۹۱ء کی وہ رات بھی یاد تھی جب وہ صاحبِ فراش تھے اور کروٹ بدلنے سے معذور تھے اور فرنجیوں نے ان کی شہادت کی خبر اڑا دی تھی اور مکہ کے بیوقوف اور بزدل امیر نے ہتھیار ڈال دیئے تھے اور انہوں نے ایما ن کی حرارت میں بکترپہن لیا تھا اور وہ ابلق گھوڑا طلب کر لیا تھاجس کی چال سے گردشِ ایام نے چلنا سیکھا تھا۔وہ چاہتا تھا کہ پچاس ہزار سواروں سے یورپ کی پانچ سلطنتوں کی چار لاکھ فوج پر جا پڑیں اور اسلام کی آبرو پر نچھاور ہو جائیں لیکن دین کے عالم اور تلوار کے دھنی ندیموں نے رکاب پر سر رکھ دیتے تھے اور پاپوش آنسوؤں سے بھگودی تھی۔

لیکن آج کی رات اس رات سے کہیں بھاری تھی۔اس غم کو بانٹنے کے لئے پچاس ہزار جاں باز مجاہدوں کی گردنیں خم تھیں لیکن اس پہاڑ کا بوجھ تنہا ان کے شانوں پر تھا۔ ان کے ایک اشارے پر ہزاروں ہاتھ اپنی گردنیں قلم کر کے ان کے قدموں میں ڈال سکتے تھے لیکن کوئی ایک آنکھ دو آنسوؤں سے بھی ان کے اس غم میں غم گسار نہیں ہو سکتی تھی۔ وہ کس قدر تنہا تھے۔ ان کے سرپر کسی جان لیوا تنہائی کی تلوار لٹک رہی تھی۔ انہوں نے ساتویں بار وہ خط پڑھا۔

’’اکتالیس برس پہلے دریائے زرافشاں کے کنارے ہم نے آپ کو الوداع کہی تھی۔ آپ نے جن نظروں سے ہمیں دیکھا تھا وہ نظریں۔۔۔فرانس اور انگلستان کے تخت و تاج سے قیمتی نظریں ہمارے ساتھ ساتھ رہتی ہیں۔زندگی کے کالے کوسوں میں ان نظروں نے ہماری چارہ گری کی ہے ہماری ہمت بندھائی ہے۔ ہم نے چاہا تھا کہ آپ کو مخاطب کرنے کی جسارت نہ کریں گے لیکن وقت نے مجبور کر دیا۔ وقت جو بڑے بڑے کشورکشاؤں پر بادشاہی کرتا ہے۔ ہمارا رچرڈ، انگلستان کا تاجدار اور آپ کا حلیف،شہنشاہ جرمنی کے بزدلانہ دام میں گرفتار ہے اور اس کا باغی بھائی نائب السلطنت ہے جو حکومت کو ہڑپ کرنے کا منصوبہ بنائے بیٹھا ہے۔ فرانس کا بادشاہ اس خوشی میں جشن منا رہا ہے اور ہم بے دست وپا ہیں۔ دل سوختہ، دماغ مختل اور چشم نزار ہے۔ نہ اختیار میں لشکر ہے نہ قابو میں حکومت۔

اے نائٹوں کے نائٹ تونے اَن گنت ماؤں کو بیٹے، لاتعداد بہنوں کو بھائی اور بے شمار بیویوں کو شوہر عطا کئے ہیں۔ اے شجاعوں کے شجاع۔۔۔مشرق سے مغرب تک تیری تلوار کے گیت گائے جاتے ہیں۔ اے بادشاہوں کے بادشاہ یورپ کے ہر کنگرہ سلطانی پر ہم نے تیرے پرچم کی پر چھائیاں دیکھی ہیں۔ ہم کو یقین ہے کہ تیرے لشکر کے گھوڑوں کی ٹاپوں کی دھمک سے جرمنی کا غرور لرز جائے گی۔ اور رچرڈ کو تاجداروں کے اعزاز کے ساتھ رخصت کیا جائے گا۔ہم فرانس کی سابق ملکہ، انگلستان کے بادشاہ کی ماں آپ سے اپنے بیٹے اور آپ کے حلیف کو مانگتے ہیں۔

ایلبنورسلطانِ اعظم کی آنکھیں بند ہو گئیں اور ان کے رخساروں پر دو موتی ڈھلک آئے اور وہ خود کلام ہوئے۔

’’ہم نے رچرڈ کو دشمن فوج کے سپہ سالار کی طرح کہاں برتا۔ ہم نے اس کی سفاکیوں کو نظر اندا ز گستاخیوں کو برداشت کیا۔ ہم نے اسے افضل اور عزیز کی طرح جانا اور چاہا تھا۔ وہ جب بیمار ہوا تو دمشق سے بغداد تک کے بہترین طبیبوں کی تیمارداری کا حکم صادر کیا گیا۔ فرانس کی تیاری کے خلاف بروقت یاوری کی اور جب ہمارے جاں نثاروں نے اس کا گھوڑا قتل کر دیا اور وہ جنگِ سلطانی لڑنے لگا تو ہم نے اپنی سواری کا خاص گھوڑا عنایت کیا۔ اور سوار ہونے کی مہلت بھی عطا کی۔ ایلینور۔۔۔سپاہی جانتا ہے کہ میدان جنگ کی اس مہلت کا دوسرا نام دوسری زندگی ہوا کرتا ہے۔ مگر۔۔۔اور سلطانِ اعظم اپنی بیداری کے خواب سے چونک پڑے۔ ان کی آواز کی گونج سنتے ہی حکم بردار شمشیر زادوں سے زینہ بھر گیا۔ انہوں نے بھاری آواز میں تخلیے کا حکم صادر کیا۔ اور آنکھیں بند کر لیں۔ اب یادوں کی آندھی چلنے لگی تھی اور صحیفہ زندگی کے ورق بکھر گئے تھے۔

دوسری صلیبی جنگ کا عہد اور شباب کا زمانہ تھا۔ بدن میں آگ، دل میں حوصلے اور دماغ میں منصوبے بھرے تھے۔ وہ جبل لبنان کی تاریک گھاٹیوں میں گھوڑا دوڑا کر شیر کو ڈھونڈ کر شکار کر چکا تھا۔ ساتھ کے سپاہی چھوٹ چکے تھے اور گھوڑے پر اڑا اڑا ان کی جستجو کر رہا تھا۔ جب وہ فلک نما کی اس چوٹی پر پہنچا جہاں سے ذرا افشاں کے چمکیلے کنارے نظر آتے ہیں تو متحیر ہو کر کھڑا رہ گیا۔ دریا کا تمام مغربی کنارہ افرنجی لشکروں سے کچلا پڑا تھا۔ سورج کی گلابی کرنوں میں غضب سے لال زرا فشاں کچھ سوچتا ہوا آہستہ آہستہ بہہ رہا تھا۔اس نے گھوڑے کو ایڑلگائی اورچکارے کی طرح طرارے بھر تا قیام گاہ پر آیا۔ کچھ ملازم خیمے لادکر دمشق روانہ ہو چکے تھے اور باقی اس کا انتظار کر رہے تھے کہ والد محترم امیر دمشق کا حکم سنائیں۔ اس نے اپنا بارہواں شیر گیدڑوں کے لئے چھوڑا اور گہرے ہوتے اندھیرے میں دمشق کی طرف باگیں اٹھا دیں۔(جاری ہے)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad