تازہ ترین

منگل، 31 مارچ، 2020

اور کورونا مشرف بہ اسلام ہو گیا

کامران غنی صبا، مدیر اعزازی اردو نیٹ جاپان 
کورونا نے چین، اٹلی، امریکہ،اسپین، جرمنی، فرانس سمیت پوری دنیا کو دہشت میں مبتلا کیا. ہزاروں لوگ اس کی چپیٹ میں آ کر لقمہ اجل بنے لیکن کسی بھی ملک میں کورونا کو مذہبی عینک لگا کر نہیں دیکھا گیا. لیکن چند ہی روز انڈیا میں گزارنے کے بعد کورونا نے اسلام کے ہاتھ پر بیعت کر لی. خدا بھلا کرے تبلیغی جماعت کا جس نے کورونا جیسے ظالم و جابر اور اس وقت کے سب سے بڑے دشمنِ انسان کو دائرہ اسلام میں داخل کروا ہی چھوڑا.آئینے میں خوفناک منظر دیکھنے کے بعد انسان کو اپنے وجود سے بھی ڈرلگنے لگتا ہے. ہمارے ملک کا یہی المیہ ہے. وہ ایک ایسا آئئنہ بنتا جا رہا ہے جس کو دیکھنے کے بعد اپنا وجود بھی مکروہ نظر آنے لگتا ہے. ایسے وقت میں کہ جب دنیا مذہب اور رنگ و نسل بلکہ سرحدوں کی تفریق کو بھول کر انسان اور انسانیت کو بچانے کی بات کر رہی ہے ہمارے ملک کا میڈیا ابھی بھی نفرت کی پلید سیاست کو فروغ دے رہا ہے. اسے آنند ویہار میں ہزاروں کے مجمعے سے تکلیف نہیں ہوتی... اسے اس بات سے بھی کوئی تکلیف نہیں کہ ایک بڑی ریاست کا وزیر اعلی دھرم کے نام پر سارے اصول و ضوابط کو بالائے طاق رکھ کر مجمع کے ساتھ مندر میں حاضری دے رہا ہے. اسے اس بات کی بھی فکر نہیں کہ اچانک لاک ڈاؤن کے اعلان سے لاکھوں لوگوں کو کن مسائل سے گزرنا ہوگا؟  

 اسے تو بس ہندو مسلم راگ الاپنے کا موقع چاہیے. ملک میں بیرونی ممالک کے کتنے لوگ ہیں؟ وہ کس جگہ مقیم ہیں؟ ان کے پاس کتنے روز کا ویزا ہے؟ ان کے پاس کن شہروں میں جانے کی پرمیشن ہے؟ یہ ساری معلومات حکومت کے پاس موجود ہوتی ہیں. ایسے میں یہ جوابدہی حکومت کی ہے کہ وہ بیرونی ممالک سے آئے ہوئے لوگوں پر نظر رکھے. ان کا طبی معائنہ کروایا جائے. انہیں عام لوگوں سے ملنے جلنے سے روکا جائے. تف ہے سرکاری نوالوں پر پلنے والے حکومت کے دلال صحافیوں پر جو حکومت کی غلطیوں کو طشت از بام کرنے کی بجائے ابھی کے نازک حالات میں بھی مذہبی منافرت کو بڑھاوا دینے میں جی جان سے لگے ہیں اور اس سے بھی زیادہ تف "اپنے" ان لوگوں پر ہے جو سارا کھیل جانتے بوجھتے بھی صرف اس بنیاد پر تبلیغی جماعت کو لعن طعن کر رہے ہیں کہ وہ نظریاتی اعتبار سے اس جماعت سے اختلاف رکھتے ہیں. جس وقت ذاکر نائیک کے خلاف یہی دلال میڈیا زہرافشانی کر رہا تھا اس وقت بھی کچھ یہی صورت حال پیدا ہوئی تھی جو افراد (اور جماعتیں) ذاکر نائیک سے نظریاتی اختلاف رکھتے تھے انہوں نے حکومت اور میڈیا کی خوب پیٹ تھپتھپائی اور جم کر اپنے دل کی بھڑاس نکالی. آج جب تبلیغی جماعت سنگھی میڈیا کی زد پر ہے ہمارے اپنے کچھ لوگ صرف نظریاتی اختلاف کی وجہ سے جماعت کو لعن طعن کررہے ہیں..... یاد رکھیے یہ شرانگیزی تبلیغی جماعت کے خلاف نہیں ہے.... ہماری ہر جماعت سنگھی شیطانوں کی نظر میں ہے. آج جو لوگ تبلیغی جماعت کے خلاف اٹھنے والی آواز سے خوش ہو رہے ہیں وہ یہ بات نوٹ کر لیں کہ ایک وقت آئے گا کہ جب آپ رو رہے ہوں گے اور آپ کے آنسو پوچھنے والا کوئی نہیں ہوگا.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad