تازہ ترین

جمعرات، 26 مارچ، 2020

کورونا بلائے آسمانی ہے اس کا تمسخر نہ اڑائیں!


ظفر امام ، کھجورباڑی خادم التدریس دارالعلوم بہادرگنج   
 آج ‘‘ کورونا ‘‘ کو لیکر پوری دنیا جس دورِ خستہ حالی و بےبسی سے گزر رہی ہے وہ کسی اہلِ خرد اور صاحبِ عقل پر مستور نہیں ، باغِ آدم کے حقیقی مالی نے ابنائے آدم کو شکستگی ، بےمائیگی ، بےبضاعتی ، بیکسی اور احساسِ کمتری کے جس پھندے میں گرفتار کیا ہے اس کے زہرناک جراثیم نے نظامِ کائنات کو حواس باختہ کردیا ہے ، اولادِ آدم خوف و ہراس اور دہشت و ڈر کے ہولناک سائے میں زندگی جینے پر مجبور ہیں ، لاچاری و بےبسی اور مجبوری و ناتوانی کے سیلِ ہمہ گیر انہیں خسِ و خاشاک کی طرح موت کے دہانے تک بہا لئے جا رہے ہیں ، پوری آبادی سہمی ہوئی ہے ، کائناتِ ارضی کے ہر افق پر مایوسی اور تاریکی کے گہرے بادل چھائے ہوئے ہیں ، گلیاں سنسان اور سڑکیں قبرستان بنی ہوئی ہیں ، ہر طرف سَناٹا پسرا ہوا ہے ، ہر سمت ایک ہُو کا عالم ہے ، شاہراہِ رسد رسانی پر‘‘ لاک ڈاؤن‘‘ کے پہرے بٹھا دیے گئے ہیں ، ایک اَن دیکھا اور اَنجانا خوف ہے جو کسی مہیب اور خوفناک اژدہے کی طرح پُھنکار رہا ہے جس سے بچنے کے لئے ہر کوئی کسی محفوظ پناہ گاہ کا متلاشی ہے ، لیکن! یہ تو خدائی قوت اور آسمانی آفت ہے جس سے جان چھڑانا انسانی بس سے باہر ہے، بس وہ جسے چاہے اسے ہی اپنے امان میں رکھ سکتا ہے۔

اور یہ کوئی نیا معاملہ یا نرالا حادثہ نہیں ہے جو آج قہر بن کر اولادِ آدم کے وجود پر نازل ہوا ہے ، بلکہ یہ تو قانون قدرت اور دستورِ ایزد ہے جو ازل سے لیکر اب تک سلسلہ وار چلا آرہا ہے کہ جب جب بھی اولادِ آدم نے نافرمانی و طغیانی ، ناشکری و عصیانی ، کفر و سرکشی اور عناد و ہٹ دھرمی کی حدود کو پار کیا ، اپنے کردار و عمل اور رفتار و گفتار سے خدا کے بنائے ہوئے نظام میں شگاف ڈالنے کی کوششِ مذموم کی ، خدا کی تخلیق کردہ زمین میں اپنی من مانی و من چاہی حکومت اور ظالمانہ و جابرانہ شہنشاہیت قائم کرکے خرمنِ انسانیت پر بجلیاں گرانے کے درپے ہوئی ، اور ظلم و ستم ، جبر و قہر اور جور و جفا کی چکیوں میں خدائی قانون کو ریزہ ریزہ کرڈالنے کا خیال اپنے دلوں میں پیدا کیا تب تب قادرِ مطلق کے ہاتھ حرکت میں آئے ہیں اور ان پر اپنی گرفت مضبوط کرتے ہوئے ان کے وجود کو نشانِ عبرت اور درسِ موعظت بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں چھوڑے ہیں ، ان کے سرکشی و طغیانی کی بنیاد پر کھڑے کئے گئے گھروندوں کو اپنی فولادی و آہنی تیشوں کی ضربوں سے پاش پاش کیا ہے اور تارِ عنکبوت سے بنائی گئی ان کی عمارتوں کو چور چور کیا ہے ، تاریخِ عالم ان دردناک اور عبرتناک واقعات سے بھری پڑی ہے۔

آج کے اس مادیت زدہ اور ترقی پسند دور میں اگر ہم دنیا کے حالات کا بنظرِ غائر مطالعہ کریں اور انسانوں کے اعمال و کردار اور اخلاق و آداب کے انحطاط کو حقیقت پسندی کی عینک سے دیکھیں تو ہمارے سامنے یہ بات آفتابِ نصف النہار کی طرح عیاں ہوجائیگی کہ آج کے دور کا انسان اپنے مقصدِ تخلیق اور منشأِ زیست کی راہوں سے مکمل طریقے پر کنارہ کش ہوچکا ہے ، اپنے پیدا کرنے والے خالقِ حقیقی اور معبودِ برحق کے احکامات و فرمودات کا علی الاعلان باغی بنا ہوا ہے ، تحصیلِ رزق اور حصولِ دنیا کی تگ و دو میں خیالِ رازق سے یکسر بےبہرہ ہوچکا ہے ، دولت اندوزی ، ذخیرہ داری ، بینک بیلنس ، کوٹھی ، بنگلہ ، گاڑی اور مختلف سامانِ عیش و طرب کے عشق میں وہ اس درجہ جنونی ہوچکا ہے کہ اسے نہ حلال کی تمیز ہے اور نہ حرام کی پرواہ ، یہ بھی خیال نہیں کہ مال جائز طریقوں سے آرہا ہے یا ناجائز راستوں سے ، جس طرف دیکھئے اور جس سمت بھی اپنی پلکوں کو زحمتِ دید دیجیے ہر سمت رشوت ستانی ، سود خوری ، جوئے بازی ، غارت گری اور حرام کاری کا بازار اتنا گرم نظر آتا ہیکہ بس الأمان و الحفیظ ، غرضیکہ آج کا انسان اپنے مقصدِ حیات اور منشأِ زیست سے بےبہرہ و نا آشنا تاریک راہوں اور انجان راستوں کے ان مسافرین کے قافلوں کی طرح اس چند روزہ سینۂ گیتی کی گزرگاہوں پر بڑھا چلا جاتا ہے کہ جنہیں نہ منزل کی خبر ہوتی ہے اور نہ انجام کی پرواہ ، بلکہ وہ بس یونہی صحرانوردی اور بادیہ پیمائی میں ہی اپنی عمرِ عزیز کے متاعِ گراں مایہ کو ضائع کردیتے ہیں اور انجام کار چلتے چلتے گمنامی اور وحشت آمیزی کے عمیق غار میں ہمیشہ کے لئے روپوش ہوجاتے ہیں۔

جب بات ایسی ہے اور خدا کے بندے خدائی راہوں کو چھوڑ کر شیطانی ڈگر پر چل پڑے ہیں ، تو پھر کیوں نہ غضبِ خداوندی حرکت میں آئے ، کیوں نہ قہرِ الہی خرمنِ کائنات پر بجلیاں بن کر گرے اور کیوں نہ آفتِ سماوی صفحۂ ہستی پر اپنے پنجے گاڑے ، بس اب ہمیں یہ سمجھنے میں ذرہ برابر بھی تامل اور پس و پیش نہیں کہ یہ ‘‘ کورونا ‘‘ خدا کی بےآواز لاٹھی ہے ، جو خوابِ نوشیں اور میٹھی نیند میں سوئے ہوئے انسانوں کو بیدار کر رہی ہے ، اور انہیں اپنے عہدِ رفتہ کی یاد تازہ کرا رہی ہیکہ ‘‘ اس کرۂ ارضی میں آنکھیں کھولنے والے انسانوں نے جب بھی خدائی طاقت سے دست و گریباں ہونے کی جرأت کی ہیں ، اور اس کے بنائے ہوئے نظام میں دست درازی کی کوشش کی ہیں تو خدائی قوت بےآواز لاٹھی بن کر ان پر برسی ہے ، اور ان کے وجود کو نشانِ عبرت اور درسِ نصیحت بنانے میں کوئی کمی نہیں کی ہے ، ماضی کے اوراق اور ان کی فلک بوس عمارتوں کے بوسیدہ کھنڈرات آج بھی اس پر شاہدِ عدل ہیں‘لیکن! افسوس کہ اب تک ہماری آنکھیں نہیں کھلی ہیں ، اب تلک ہمارے اعضاء پر ارتعاش پیدا نہیں ہوا ہے ، اب تلک ہمارے روؤں میں جنبشیں نہیں ابھری  ہیں ، اب تلک ہماری جبینیں بارگاہِ ایزدی میں جھکنے سے کوتاہ ہیں ، اب تلک ہماری آنکھیں نَم ہونے میں شرما رہی ہیں ، اب تلک ہمارے دل پیکرِ شقاوت بنے ہوئے ہیں ، اب تلک ہمارے دماغ خرافات و واہیات کی تباہ کاریوں سے باز نہیں آئے ہیں اور اب تلک ہماری سربمہر عقل کی بندشیں کھلنے میں ایک اندوہناک اور حسرتناک وقت کا انتظار کر رہی ہیں ، بلکہ کچھ ناعاقبت اندیش تو اب تک بھی اس کا تمسخر اڑا رہے ہیں ، اس کے نام پر ٹھٹھے مار رہے ہیں اور کچھ مجمع باز اور نقال اسے اپنی تشہیر و تعریف کا کار آمد ذریعہ سمجھ بیٹھے ہیں۔

جب کہ ایسے موقع پر اسلام کی تعلیم اور رسول اللہ ﷺ کا طریقِ کار یہ رہا ہے کہ جب بھی کوئی آفتِ ناگہانی یا بلائے آسمانی کا نزول ہوتا  تو رسول اللہ ﷺ سراپا عاجز اور پیکرِ انکسار بن کر بارگاہِ ایزدی کی طرف متوجہ ہوجاتے ، ان کی بارگاہِ رحمت بار میں روتے اور گڑگڑاتے ، خدا کے سامنے اپنی عاجزی و انکساری ، مسکینی و بےچارگی ، ضعف و ناتوانی ، کمزوری و بیکسی اور منت و زاری کا اظہار فرماتے ، ان کی رحمت کے کاشانوں کی طرف آس بھری نگاہوں سے تکتے رہتے اور اس وقت تک خوف و رجا اور امید و بیم کے گرداب سے باہر نہ نکلتے جب تک کہ خدا کی طرف سے نازل شدہ وہ بلا یا مصیبت سر سے ٹل نہ جاتی؛اس لئے خدا را اسے مذاق نہ بنائیں ، اپنے رب کو منانے کا یہ ایک حسین اور سنہرا موقع ہے ، اسے مفت میں نہ گنوائیں ، اب بھی وقت ہے ، لوٹ آئیں معبودِ حقیقی کے دربار کی طرف ، اپنی عبادتوں میں استواری لائیں ، اپنے نیک اعمال میں بہتری پیدا کریں ، توبہ و استغفار اور ذکر و اذکار سے خدا کے دل کو رام کرنے کی سعی کریں ، جو خدا وبا کو بھیجنے پر قادر ہے وہ خدا اسے اٹھانے پر بھی مقتدر ہے ، چشمِ فلک گواہ اور تاریخ کے صفحات شاہد ہیں کہ توبہ و استغفار کی بدولت خدا کے نازل کردہ عذاب نے رجعتِ قہقری کیا ہے ، سیدنا حضرت یونس علیہ السلام کی قوم نے جب عذابِ الہی کو بادل کی شکل میں نمودار ہوتے ہوئے دیکھا ، اور اپنے دلوں میں اپنی ہلاکت کو یقینی جان لیا تو بیساختہ بارگاہِ خداوندی میں سربسجود ہوگئی ، گناہوں سے توبہ و استغفار کرنے لگی اور اپنے دامنِ فقیری کو ان کی بیکراں رحمتوں کے سامنے پسارنے لگی ، پھر چشمِ فلک اور دیدۂ مہ و انجم نے دیکھا کہ عذاب کی وہ گھنگھور گھٹائیں جو سائبان کی طرح ان پر معلق ہوچکی تھیں اور کچھ ہی دیر میں گھن گرج کر برسنے والی تھیں آن کی آن میں چھٹ گئیں اور پلک جھپکتے ہی وہ قوم زمرۂ مغضوب سے نکل کر گروہِ منعَم میں داخل ہوگئی۔

یاد رکھیں! کہ یہ وبا صرف دین و ایمان کی راہوں سے بھٹکے ہوئے مسافرین کو راہِ راست پر لانے کے لئے ایک ہلکی سی سرزنش ہے ، اگر ہم نے اب بھی ہوش کے ناخن لے لئے تو خیر ، ورنہ پھر ربِ بےنیاز کو ہماری اور ہماری عبادتوں کی بالکل بھی ضرورت نہیں ، وہ ہماری ناشکری کے باعث ہمارے وجود کو قصۂ پارینہ اور فسانۂ ماضی بنادےگا ، ہمارے بعد آنیوالی قومیں ہمارے نام لینے سے بھی گھبراہٹ محسوس کرینگی ، اور پھر ہماری جگہ کسی ایسی قوم کی تخلیق کرےگا جو ہم جیسے بدطینت ، بدبخت اور شقی القلب نہیں ہوگی ، بلکہ وہ ایسی مرتاض اور مجاہد قوم ہوگی جو رب کی مرضی اور اس کے اشارے پر اپنی جان و دل نچھاور کرنے کے لئے ہمہ دم تیار ہوگی ، جس کی بوفشاں نیکوکاری اور خوش خلقی کی بدولت بزمِ کائنات کا ہر گوشہ مہک اٹھےگا۔

( نوٹ:- حالات کے پیشِ نظر پورے ملک میں لاک ڈاؤن کا سماں ہے ، اس لئے ایسے وقت میں ہمارے اوپر اپنے پاس پڑوس والوں کا خیال رکھنا اخلاقی و سماجی فریضہ ہے ، اور نیکی کمانے کا یہ ایک بہترین موقع بھی ہے ، لہذا سب اپنے حاجتمند پاس پڑوس والوں کا حتی الامکان خیال رکھیں)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad