تازہ ترین

جمعرات، 5 مارچ، 2020

حکومت کے سوتیلے رویہ سے برہم بہار کے ساڑھے چار لاکھ سے زائد کانٹریکٹ اسکول اساتذہ مطالبات کی حمایت میں غیر معینہ ہڑتال پر

نصف ماہ سے اسکولوں میں تالابندی مگرسرکاراورسول سوسائٹی خاموش،تعلیمی نظام بری طرح متاثر،کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
 بہار،عبدالغنی(یو این اے نیوز5مارچ 2020)حکومت کے سوتیلے رویہ سے برہم بہار کے تقریبا ساڑھے چار لاکھ سے زائد کانٹریکٹ اسکول اساتذہ مطالبات کی حمایت میں غیر معینہ ہڑتال پر ہیں نصف ماہ سے اسکولوں میں تالابندی ہےمگرسرکاراورسول سوسائٹی سبھی خاموش ہیں طلبہ کی تعلیم بری طرح متاثر ہورہی ہے بلکہ تعلیمی نظام ٹھپ ہوکر رہ گیا ہے کوئی پرسان حال نہیں ہے حکومت کو بھی محض امتحانات اور کاپی جانچ کی فکر ستارہی ہے اسکولوں میں تالا لٹک رہا ہے بہار کے پرائمری،سیکنڈری اور سیںنئر سکنڈری اسکولوں میں زیر تعلیم لاکھوں طلبہ و طالبات کا مستقبل داؤ پر ہے بلکہ تعلیمی سال کے اختتام کا یہ آخری ماہ مارچ  جس میں کلاس کی ترقی کے لئے طلبہ و طالبات کو سالانہ امتحان میں عمدہ کاکردگی کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے مگر گزشتہ دو ہفتہ سے اساتذہ ہڑتال پر ہیں ان اسکولوں میں ریگولر اساتذہ کی تعداد برائے نام ہی ہے جو ہڑتال کی وجہ سے  اسکول کے بجائے بی آرسی یا دیگر دفتروں میں حاضری بنارہے ہیں اسکولوں کے بچوں کے لئے بننے والے دوپہر کا کھانا مڈ ڈے میل بھی بند ہے یہ حق تعلیم ایکٹ دوہزار نو کی صریح خلاف ورزی اور انسانی و سماجی اقدار کے خلاف عمل ہے ایکٹ کے مطابق چودہ سال کے تک بچوں کی تعلیم و تعلم کے انتظام و انصرام کی ذمہ دار سرکار ہے حق تعلیم ایکٹ کے نفاذ کے لئے ریاست کے موجودہ وزیراعلی نتیش کمار نے دوہزار چھے سے مقامی بلدیہ،پنچایت اور پریشد کے تحت جن اساتذہ کو کانٹریکٹ کی بنیاد پر بحال کیا۔

 اس کی تعداد رفتہ رفتہ چار لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے حق تعلیم ایکٹ کے نفاذ کے لئے اساتذہ کے خالی اسامیوں کو پرکرنا لازمی تھا اور حکومت کی مجبوری تھی چونکہ بہار کے اسکولوں میں اساتذہ طالب علم کے تناسب میں زمین آسمان کا فرق تھا سرکاری خزانہ کی بچت کی امید پہ بحال ہوئے کانٹریکٹ اساتذہ اب ٹھگا ہوا محسوس کرتے ہوئے سراپا احتجاج ہیں اساتذہ کو اب یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ ان کااستحصال ہورہا ہے کانٹریکٹ کے بنیاد پہ اسامیوں کو پرکرنے کے باوجود بہار میں چوہتر ہزار سے زائد اساتذہ کے عہدے خالی ہیں چونکہ بحالی عمل کی رفتار میں اس کی پیچیدگیوں کا ہمیشہ سے دخل رہا ہے اگست 2019 میں وزارت برائے فروغ  انسانی وسائل کی رپورٹ کے مطابق بہار میں اڑتیس طالب علموں کے مقابلہ ایک معلم ہے حق تعلیم ایکٹ دوہزار نو کے شیڈول میں پرائمری اور اپر پرائمری اسکولوں میں طلبا اساتذہ کا تناسب مقرر کیا گیا ہے اس کے مطابق ابتدائی کلاس یعنی ایک سے پانچ تک تیس طلباء کے لئے ایک معلم ہونا چاہیے اسی طرح اپر پرائمری چھے سے آٹھ تک کے کم سے کم پینتیس طلبا میں ایک ایک معلم ہونا چاہیے بہار کے گورنمنٹ اسکولو میں  اساتذہ کی کمی اور معیاری تعلیم کا ماحول انہی کانٹریکٹ اساتذہ کی وجہ سے ممکن ہوسکا ہے حالانکہ مختلف رپورٹس اور سروے سے صاف صاف ظاہر ہے کہ بہار کے اسکولوں میں تعلیمی انقلاب کے لئے ابھی مزید اصلاحات اور عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔

 مگر حیف صد حیف طلبا کا مستقبل تالوں پہ  لٹکانے والے اساتذہ اور اس پہ حکومت اور سول سوسائٹی کی مجرمانہ خاموشی حالانکہ اسکولوں کا ایک دن بھی بند رہنا کسی عظیم خسارہ سے کم نہیں ہے مگر دو ہفتہ سے زیادہ عرصہ بیت چکا ہے باوجود اس کے کہیں سے کوئی آواز بلند نہیں ہورہی ہے سرکار چاہتی تو اساتذہ یونین سے رابطہ کرکے گفت وشنید سے مسئلہ کا حل نکال سکتی تھی مگر سرکار بھی ارریٹیڈ ہے اور اسکول میں تعلیم کے بجائے انہیں فی الحال کاپی جانچ،امتحان اور اساتذہ پر ایف آئی آر درج کروانے میں دلچسپی ہے یہ رویہ یقینا ریاست،طلبا،گارجین،اساتذہ بلکہ کسی کے حق میں نہیں ہے تمام طرح کے  اساتذہ یونین کے مشترکہ پلیٹ فارم شکچھک سنگھرش سمنیو سمیتی بہار کے اپیل پر اساتذہ سترہ فروری دوہزار بیس سےشروع ہونے والے غیر معینہ ہڑتال پر ہیں اس کے علاوہ مادھمک شکچھک سنگھ بہار کا ہڑتال بھی 25 فروری سے جاری ہے گویا پرائمری سے ٹین پلس ٹو تک تمام اسکولوں میں تالا لٹک رہا ہے  سمیتی کے کل  آٹھ بنیادی مطالبات ہیں جن میں مساوی کام کے بدلہ مساوی تنخواہ،ریگولر اور ریاستی ملازم کا درجہ، سرول رولز،پنشن اور ریٹائرمینٹ کی عمر پینسٹھ سال وغیرہ شامل ہے اس درمیان میٹرک امتحانات اور اس کے بعد اساتذہ پر تادیبی کارروائی سمیت دیگر ہنگامہ کھڑا ہوچکا ہے مگر بجائے حل کے معاملہ مزید پیچیدہ ہوچکا ہے اس میں طلبا و طالبات کی زندگیوں سے کھلواڑ ہورہا ہے بس جو ناقابل برادشت ہے اور کسی ویلفیئر اسٹیٹ میں ایک گھناؤنا جرم بھی ہے  پرائمری تعلیم پر توجہ کی ضرورت تھی تو  حکومت نے اساتذہ کو بغیر کسی جانچ پڑتال اور معیار کے ڈگری لاؤ نوکری پاؤ کے نام پر کانٹریکٹ  کی بنیاد پر بحال کیا اس کے بعد حکومت نے بہار کے لاکھوں کانٹریکٹ  اساتذہ کے سہولت اور دیگر حقوق پر  غور کرنے سے انکار کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں ایک حلف نامہ پیش کیا جس میں بہار کے خزانہ کے ذکر کے ساتھ کانٹریکٹ اساتذہ کو اپنا ملازم ماننے سے انکار کردیا اب وہ ہڑتال کرنے والے اساتذہ کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔

 ایف آئی آر درج کروارہے ہین  حکومت بہار کو یہ  نہیں بھولنا چاہیےکہ ریاست کا بنیادی تعلیمی نظام ان ہی اساتذہ کے کندھوں پر کھڑا ہےواضح ہوکہ گزشتہ چند  سالوں سے بہار میں کانٹریکٹ اساتذہ مستقل ملازمین کا درجہ مساوی تنخواہ،پنشن اور ریٹائرمینٹ جیسے معاملات پر ریاستی حکومت سے برسر پیکار ہیں دوہزار سترہ میں پٹنہ ہائی کورٹ کے  فیصلے سے اساتذہ کچھ راحت ملی جس پر فیصلہ سناتے ہوئے بینچ نے کہا تھا"اگر کانٹریکٹ اساتذہ کو مساوی کام کے لئے مساوی تنخواہ کی ادائیگی نہیں ہورہی تو یہ غیر آئینی ہے اور آئینی اصول کی خلاف ورزی ہے"۔اس سے نتیش کمار حکومت کو جھٹکا لگا ایک ہنگامہ کھڑا ہوگیا مگر حکومت نے شاطرانہ انداز میں اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا عدالت کے داؤ پیج میں اساتذہ یونین کی ہار ہوئی اور عدالت عظمی نے ایک بار پھر کانٹریکٹ اساتذہ کو ریاستی حکومت کے رحم و کرم پر رکھتے ہوئے ہائی کورٹ کے حکم کو مسترد کردیا۔اب اساتذہ غیر معینہ ہڑتال پر ہیں اور حکومت احتجاج کررہے اساتذہ سے گفت وشنید کے بجائے بیان بازی سے کام لے رہے ہیں حالانکہ ابھی ضرورت اس بات کی ہے ہڑتال کو فورا سے پیشتر ختم کروانے کی پہل ہو تاکہ اسکول کھلے اور اسکول کی رونق لوٹ سکے اساتذہ کے جائز مطالبات پر سرکار سنجیدگی کے ساتھ غور کرے اور ایک فیصلہ لے جس سے ساڑھے چار لاکھ اساتذہ پھر سے اسکول جوائن کریں اور بہار میں تعلیمی انقلاب کا ااغاز ہوسکے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad