تازہ ترین

اتوار، 8 مارچ، 2020

عوام کو تقسیم کرنے کا منصوبہ کسی بھی صورت میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے:مقررین

دیوبند:دانیال خان(یواین اے نیوز8مارچ2020)متحدہ خواتین کمیٹی کے زیر اہتمام شہریت ترمیمی ایکٹ کی مخالفت میں دیوبند کے عید گاہ میدان میں جاری غیر معینہ دھرنا خراب مو سم اور بارش کے باوجود41ویں روز بھی جاری رہا۔اس دوران شمع پروین،ریحانہ،شبنم،نغمہ اور شاہجہاں نے خواتین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں امن و امان کی برقراری کے لئے مسلمان ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں ہندوستان ہندو مسلم یکجہتی کی بہترین مثال ہے یہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے شیر و شکر کی طرح رہتے ہیں،ایک دوسرے کی خوشی اور غم میں برابرشریک ہوتے ہیں لیکن موجودہ حکومت نے اپنے سیاسی مفاد کی خاطر مذہب کی بنیاد پربنائے گئے قانون سے عوام کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا منصوبہ بنایا ہے جسے ہم کسی بھی صورت میں کامیاب نہیں ہونے دینگے اور جب تک حکومت اس سیاہ قانون کو واپس نہیں لے لیتی تب تک ہمارا ستیہ گرہ جاری رہے گا۔

رضوانہ،شمیمہ،فریدہ،فرزانہ اور ساجدہ نے کہا کہ ایک طرف تو ملک میں بین الاقوامی یوم خواتین منایا جا رہا ہے اور دوسری جانب خواتین کی آواز کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے ایسے میں یوم خواتین صرف ایک روایت بن کر رہ گیا ہے انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک کے تمام طبقات اس سلسلہ میں فکر مند نہیں ہیں لیکن ایک دیگرے تمام طبقات کو پریشانی لاحق ہو سکتی ہے اس لئے اس لڑائی کو ملکر لڑنے کی ضرورت ہے،تمام طبقات کا اتحاد ہی سیاہ قوانین کو منہ توڑ جواب دے سکتا ہے۔ آمنہ روشی،فوزیہ سرور،ارم عثمانی،سلمہ احسن اور عذرا خان نے کہا کہ شہریت ترمیمی قانوں میں مذہبی بنیاد پر استحصال کو بنیاد بنایا گیا ہے تو صرف افغانستان،بنگلہ دیش اور پاکستان ہی ہندوستان کے پڑوسی ملک نہیں ہیں بلکہ نیپال،چین،میانمار،شری لنکا اور تبت وغیرہ بھی ہمارے پڑوسی ممالک ہیں۔

 جہاں سے مذہبی استحصال کے شکار لوگوں نے ترک وطن کیا ہے، شری لنکا میں ہزاروں تمل استحصال کے شکار ہوئے،میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کو مذہب کی بنیاد پر ظلم کا شکار بنایا گیا۔تبت میں دلائی لاما اور انکے عقیدت مندوں پر ظلم کیا گیا جس کی وجہ سے ان کو ترلک وطن کر ہندوستان میں پناہ لینی پڑی،اسی طرح نیپال سے گورکھا لوگوں کو پریشان ہوکر ترک وطن کرنا پڑا،انہوں نے کہا کہ شہریت ترمیمی ایکٹ میں ان سب کا ذکر نہ کرنا یہ بتلاتا ہے کہ یہ قانون بڑے پیمانہ پر خامیوں اور مذہبی تعصب سے بھرا ہوا ہے،اس لئے اس قانون کا واپس ہونا نہایت ضروری ہے۔اس دوران خواتین نے متنازع قوانین کی مخالفت میں نعرے لگائے اور اسکولو ں کی طالبات نے حب الوطنی پر مبنی گیت پیش کئے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad