تازہ ترین

پیر، 23 مارچ، 2020

کیا کرونا عقل ودانش کو بھی چاٹ کر گیا!

از:امتیاز احمد وریاہ
انتہا پسند لبرل ہوں یا مذہبی، دونوں ہی لاعلاج ہیں۔ خود تراشیدہ دنیا کے باسی۔عقل ودانش ان سے ایسے ہی روٹھے ہوئے ہیں جیسے آج کل کرونا وائرس کی کوئی دوا ندارد ہے۔ ہفتے کے روز ایک انتہا پسند شیعہ خاتون کی سوشل میڈیا پر ویڈیو گردش کررہی ہے، موصوفہ کو یہ فکر لاحق ہے کہ حکومتِ پاکستان نے کرونا وائرس کی آڑ میں ان کی فرقہ وار نوعیت کی مجالس اور جلوسوں پر پابندی عاید کردی ہے۔وہ موجودہ اور سابق اربابِ اقتدار کو خوب جلی کٹی سنا رہی ہیں۔سابق صدر مرحوم جنرل ضیاء الحق کے بارے میں جو کچھ ارشاد کیا،اس سے ان کی تمام سوچ وفکر کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

ایک تلخ حقیقت ملاحظہ کیجیے۔آج تک پاکستان سمیت مسلم دنیا میں کرونا وائرس کے جتنے بھی کیسوں کی تصدیق ہوئی ہے،ان میں کی اکثریت کا تعلق ان ہی کے ہم مذہبوں سے ہے۔ وہ سب ایران کے سفر پر گئے اور اس بیماری کو ساتھ لے کر آبائی ممالک کو لوٹے اور پھر چل سو چل ۔ان سے میل ملاپ رکھنے والے بھی اس وبا سے دوچار ہوگئے۔اس حقیقت کی تصدیق کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔یہ سامنے کی حقیقت ہے۔ایران اور دوسرے ممالک سے لوٹنے والے زائرین اور مسافروں کی لائی ہوئی اس وبا کی وجہ سے ہم بہ حیثیت قوم جن حالات سے گزر رہے ہیں،اس کی ان خاتون کو ہرگز بھی پروا نہیں۔وہ اپنے ہم مذہبوں کو دوش دے رہی ہیں کہ وہ باہر نکلیں اور جلسے ، جلوس اور عزاداری کی مجالس منعقد کریں۔

المیہ تو یہ ہے کہ ایسے لوگ یہ سب کچھ آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے نام پر کرتے ہیں۔کیا خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل اولاد نے اُمت کو اس طرح کے کسی امتحان میں ڈالا۔ ان لوگوں سے ایک ہی گزارش کی جاسکتی ہے،اگر انھیں خود پر نہیں تو اس ملک اور اس کے عوام پر رحم کریں۔فرض نمازوں کی تو کسی کو فکر لاحق نہیں اور ایسے اجتماعات منعقد کرنے کا رونا رویا جارہا ہے جو دین میں فرض ہیں نہ واجب،سنت ہیں نہ نفل۔ان کا تعلق فقط تاریخ اور تاریخی واقعات سے ہے اور ان پر گھڑنت عقیدے استوارکر لیے گئے ہیں۔

ایسے انتہا پسند لوگ ایران کے حالات ملاحظہ کریں، وہاں کرونا وائرس پھیلنے کے بعد سے کیا صورت حال ہے،لوگ کس حال سے گزررہے ہیں،ان سے عبرت پکڑیں۔اگر جلوس اور اجتماع اتنے ہی ضروری ہیں تو پھر قُم، مشہد وغیرہ سے پاکستان یا دوسرے ممالک میں لوٹنے کی کیا ضرورت تھی؟ایران سے چُوری چھپے سعودی عرب کیوں واپس چلے گئے ہیں؟کسی بھی عقیدہ کے پیروکار اپنے اپنے مقدس مقامات میں تادمِ مرگ قیام اور وہاں جان جانِ آفرین کے سپرد کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔انھیں اس قول پر عمل کرنا چاہیے تھا تو کوئی ان پر حرف زنی کرتا اور نہ ان کی وجہ سے کوئی دوسرا کسی تکلیف میں مبتلا ہوتا۔۔؎

ولایت، پادشاہی، علمِ اشیاء کی جہاں‌گیری
یہ سب کیا ہیں، فقط اک نکتۂ ایماں کی تفسیریں
براہیمی نظر پیدا، مگر مشکل سے ہوتی ہے
ہَوس چُھپ چُھپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریں
تمیزِ بندہ و آقا فسادِ آدمیّت ہے
حذَر اے چِیرہ دستاں! سخت ہیں فطرت کی تعزیریں

پس نوشت:اس تحریر کے بعد دو مولوی حضرات کے ٹویٹر پر دو مختصر ویڈیو کلپ سننے کو ملے۔ دونوں اپنا ناتا اہل سنت سے جوڑ رہے تھے۔فوری طور پر یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ وہ کس مشرب ، مسلک یا مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔ایک صاحب انگریزی اور اردو زبان میں اپنی طلاقت لسانی کے جوہر دکھا رہے تھے اور سامعین و حاضرین کی داد وتحسین سمیٹ رہے تھے۔انھوں نے ارشاد کیا کہ کوئی سُنی کرونا وائرس کا شکار نہیں ہوسکتا۔اب معلوم نہیں یہ تحقیق کہاں ہوئی ہے کہ ایک وائرس کسی ایک مذہب کے پیروکاروں پر تو حملہ آور ہوگا مگر وہ کسی مسلک کے پیروکاروں کو متاثر نہیں کرے گا؟

ان صاحب کے یہ کلمات عالیہ کانوں میں ابھی رس گھول رہے تھے کہ اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر صاحب بہادر نے تبلیغی جماعت کے کرونا وائرس سے متاثرہ ایک رکن کو پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز(پمز) میں منتقل کرنے کی اطلاع دی ہے۔اس تبلیغی بھائی کے باقی بارہ ساتھیوں کو بھی قرنطینہ مرکز منتقل کردیا گیا ہے۔وہ جس جس مسجد میں گئے ہیں، انھیں تالے لگا دیے گئے ہیں۔یہ تو ہمارے سامنے کا کیس ہے۔ پورے ملک میں نجانے اور کتنے سُنی حضرات بھی اس مہلک وائرس کا شکار ہوچکے ہیں۔بندہ ان مولوی صاحب سے پوچھے :حضرت تبلیغی جماعت والے بھی خود کو سُنی کہلاتے ہیں۔اب اس بابت کیا ارشاد کریں گے؟اگر وہ کسی اور مسلک سے ہوئے تو یقینی طورپر اپنی ’’بلند پایہ تحقیق‘‘کے حق کوئی اور راہ نکال لیں گے اور تبلیغی جماعت کو اہل سنت سے دیس نکالا دے دیں گے۔

ایک سوال ایسے حضرات سے ضرور پوچھا جانا چاہیے۔ جب جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین طاعون کی وبا کا شکار ہوکر موت کے مُنھ میں چلے گئے تو میں اور آپ کس کھیت کی مولی ہیں۔ ان سے طاعون نے ان کا دین نہیں پوچھا تھا۔ موت سے کون رستگار ہوا ہے؟ کون؟جب کوئی وبائی بیماری آتی ہے تو وہ آپ سے آپ کا مسلک ، مشرب اور مذہب نہیں پوچھتی۔

ایک اور علامہ صاحب کسی مسجد میں جمعہ کے اجتماع سے مخاطب تھے۔ان کے مذہبی جذبات کا پارہ خوب چڑھا ہوا تھا۔وہ اپنے پیروکار کو یہ تلقین کررہے تھے کہ ’’نماز جمعہ ادا کرنے کے بعد سب آپس میں مصافحہ کریں اور جپھی شپھی ڈال کر جائیں۔آپ میں سے کسی کو بھی کرونا وائرس نہیں ہوگا، اگرکوئی کروناکا شکار ہوتا ہے تو مجھے گولی مار دی جائے اور اس کا کسی پر کوئی خون نہیں ہوگا۔‘‘یاللعجب۔عقل ہے کہ محو تماشائے لب بام ابھی۔ اگر ماہرین طب یہ کہہ رہے ہیں کہ کرونا وائرس کے اُچھوت سے بچنے کے لیے آپس میں گھلنے ملنے سے گریز کریں تو اس پرعمل کرنے میں کیا مضائقہ ہے؟کیا یہ حضرت بتا سکتے ہیں کہ کسی بھی نماز کے بعد لوگوں کو ایک دوسرے سے معانقے یا مصافحے کی کہاں ترغیب دی گئی ہے؟نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی کا تو یہ مفہوم ہے کہ باہر سے کسی اجتماع میں آنے والا فرد بس ایک سلام کرلے اور اس کو سب سے فرداً فرداً ہاتھ ملانے کی ضرورت نہیں لیکن ہمارے یہاں کے ان مذہبی حضرات نے دین کے نام پر ہر خلاف شرع کام کرنے کی قسم کھا رکھی ہے۔

اللہ کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی طاعون کی وبا سے متعلق حدیث کا مطالعہ کیجیے۔آپ کو وبا پھوٹنے کی صورت میں قرنطینہ یا لوگوں یا کسی علاقے کو الگ تھلگ کرنے کے ایک نئے مفہوم کا پتا چلے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا نصیحت کی تھی؟حضرت سعد رضی اللہ عنہ راوی ہیں،نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’جب تم کسی علاقے میں طاعون کے بارے میں سنو تو اس میں نہ جاؤ اور اگر کسی علاقے میں طاعون پھیل جائے اور تم اس میں ہو تو وہاں سے نہ نکلو۔‘‘اس حدیث مبارکہ پر کرونا وائرس کے تناظر میں غور کیجیے۔ اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائیں اور ملک وقوم کو اس مشکل صورت حال سے جلد نکالیں۔

کالم نگار کی رائے سے یو این اے نیوز کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad