تازہ ترین

ہفتہ، 7 مارچ، 2020

مدد چاہتی ہے یہ حوّا کی بیٹی !

محمد عباس دھالیوال،مالیر کوٹلہ،پنجاب
 بے شک آج دنیا نے بہت ترقی کر لی ہے. چاند پر کمند ڈالنے کے بعد آدمی منگل پہ تسخیر پانے کی فراق میں میں ہے .لیکن اس سب کے باوجود سماج میں عورت کی حالت کا جب ہم مشاہدہ کرتے ہیں تو یہ جوں کی توں نظر آتی ہے یعنی عورت کا جو استحصال صدیوں پہلے ہو رہا تھا وہ آج بھی بدستور جاری ہے.عالمی سطح پر ہر سال آٹھ مارچ کو یومِ خواتین کے طور پر منایا جاتا ہے.اس دن خواتین کی فلاح و بہبود اور ان کے امپاورمنٹ کے ضمن میں ضروری اقدامات اٹھانے کے تعلق سے دنیا بھر میں مختلف پروگراموں کا انعقاد کیا جاتا ہے تاکہ خواتین کو اپنے حقوقِ تحفظ کے لئے بیدار کیا جاسکے.آج خصوصاً یومِ خواتین کے موقع پر عورتوں کے تحفظ کے پسِ منظر کو دیکھتے ہوئے یقیناً ہمیں بے حد مایوسی ہوتی ہے. عورت کی جس مظلوم صورت حال کو ساحر نے اپنی نظموں میں سات آٹھ دہائیوں پہلے پیش کیا تھا. موجودہ حالات میں جب ہم اس تصویر کا مشاہدہ کرتے ہیں تو عورت کے استحصال کی یہ تصویر ہمیں پہلے سے کہیں زیادہ مظلومیت کا شکار نظر آتی ہے . کیونکہ چمنیا نند اور سینگر جیسے لوگوں کی وجہ سے آج بھی عورت ذات اپنا استحصال ہونے پر حصول انصاف کے کے لیے ترستی نظر آتی ہیں . جبکہ معاشرے میں آج بھی زینبیوں اور آصفاؤں کے حیوانوں کے ہاتھوں شکار ہونے کے سلسلے تھمے نہیں ہیں اور ہاں نربھیہ جیسی کتنی ابلاؤں کی روحیں اپنے مجرموں کو سزائیں دلوانے کو ترستی ہیں۔

ملک کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے والی طالبات بھی غیر محفوظ نظر آتی ہیں. آئے دن ان کے تعلق سے جو خبریں دیکھنے اور سننے کو ملتی ہیں ان کو دیکھ کر بھی ایک طرح سے کلیجہ منہ کو آتا ہے. کہاں کا انصاف ہے کہ ایک کالج کی پرنسپل 68 لڑکیوں کے انڈر گارمنٹس کو صرف اس لئے اتروا دیتی ہے تا کہ وہ یہ پتا لگا سکے سینڈری پیڈ کس لڑکی نے گرایا تھا. جب کہ ایک دوسرے معاملہ میں کالج کی لڑکیوں کے ساتھ جہاں غنڈہ گرد عناصر کی جانب سے کیمپس میں ہی تمام طرح کی نازیبا حرکات کی جاتی ہیں. وہیں واشروم میں لے جا کر ان کے سامنے ہی بے شرمی تمام حدود پار کرتے ہوئے مشت زنی کیے جانے کے دلسوز واقعات پیش آتے ہیں . جبکہ ایک دیگر یونیورسٹی میں سرِ عام پولیس کی موجودگی میں غنڈہ گرد عناصر ہوسٹل میں گھس کر لڑکیوں پر ہاکیوں اور ڈنڈوں سے وار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور پولیس خاموش تماشائی بنی نظر آتی ہے. جبکہ ایک دیگر یونیورسٹی کی لڑکیوں کے مظاہرے کو ختم کرنے کے لیے ان کی شرمگاہوں تک لاتیں اور گھونسے چلانے سے بھی سیکیورٹی اہلکار گریز نہیں کرتے۔

 جبکہ ایک اور دلخراش واقع میں ایک بیوہ ماں کو صرف اس لیے دیش دھرو کے مقدمہ کا سامنا کرتے ہوئے چودہ دن کے لیے جیل کی ہوا کھانی پڑتی ہے کیونکہ اس کی معصوم بچی نے ایک ایسی سکِٹ میں حصہ لیا. جو اقلیتوں پہ ہو رہے غیر منصفانہ سلوک کی عکاسی کر تی تھی.شاید یہ ایک اتفاق ہی ہے کہ جس دن کو ہم یومِ خواتین کے طور پر مناتے ہیں اسی آٹھ مارچ کو ہندی فلم انڈسٹری کے معروف نغمہ نگار اور خواتین کے خیر خواہ شاعر ساحر لدھیانوی کی یومِ پیدائش ہوئی . 
ساحر کا اصل نام عبدالحئی تھا آپ کی پیدائش 8 مارچ 1921 کو لدھیانہ میں ہوئی. یومِ خواتین کے موقع پر ساحر اور ان کی نظموں کے انتخاب کا مقصد یہی ہے کہ ہم انکی نظموں میں اٹھائے خواتین سے وابستہ مختلف مسائل کو اپنے مطالعے میں لاتے ہوئے غور و خوض کریں۔

عورت ذات جو صدیوں سے مردانہ سماج میں طرح طرح کے ظلم و تشدد اور استحصال کا شکار ہوتی آ رہی ہے. اس کی عکاسی ساحر نے اپنی نظموں میں بے باک انداز میں کی ہے. ساحر نے دوسرے شعراء کی طرح اپنی شاعرانہ جوہر کو عورت کی زلف کے پیچ و خم ہے کو سجانے سنوارنے پہ صرف نہیں کیا اور نہ ہی شاعری کو عورت کے سراپائے حسن کی بے جا تعریف کرنے کا ذریعہ بنایا. بلکہ ساحر نے سماج کی ان عورتوں پر قلم اٹھایا ہے، جو معاشرے میں کوئی عزت یا مقام نہیں رکھتی یا جنھیں سماج کے چند ٹھیکیداروں نے بازار کی زینت بنا رکھا ہے یا جنھیں معاشرہ اچھوت سمجھتے ہوئے ان کے بیچ جانے سے یا انھیں اپنانے سے قطراتا ہے.عورتوں کے لیے جو درد ساحر کے دل میں موجود تھا اس کی بڑی وجہ شاید یہ تھی کہ ساحر کے بچپنے میں ہی اس کے والد نے انکی ماں سے علیحدگی اختیار کر لی تھی .اس طرح ساحر نے اپنی ماں کے ہمراہ زندگی کے تمام نشیب و فراز کو دیکھا اور تمام طرح کی صعوبتیں برداشت کیں . یعنی تمام عمر ساحر نے زندگی کی تلخیوں کے مشاہدے میں بسر کی. اس کی عکاسی ان کی شاعری میں جا بجا واضح نظر آتی ہے. جیسے کہ :

دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں

اپنے ایک گیت میں مردوں کے تسلط سے دوچار عورت کی زندگی کے شب و روز کا بیان کچھ اس طرح سے کرتے ہیں کہ
عورت نے جنم دیا مردوں کو، مردوں نے اسے بازار دیا۔

جب جی چاہا مسلا کچلا جب جی چاہا دھتکار دیا. 
مردوں کے لیے ہر ظلم روا، عورت کے لیے رونا بھی خطا. 
مردوں کے لیے ہر عیش کا حق، عورت کے لیے جینا بھی خطا. 
مردوں کے لیے لاکھوں سیجیں، عورت کے لیے بس ایک چتا. 
عورت نے جنم دیا مردوں کو، مردوں نے اسے بازار دیا۔

اپنی ایک اور نظم ‘چکلے’ میں ساحر نے بازارِ حسن میں عورتوں کی نیلامی، اس کے بکتے اجسام، اور بے یارو مددگار 
خواتین کی تصویر اس انداز میں پیش کی ہے

یہ کوچے یہ نیلام گھر دلکشی کے
یہ لٹتے ہوئے کارواں زندگی کے
کہاں ہیں کہاں ہیں محافظ خودی کے
ثناء خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں؟
یہ پر پیچ گلیاں یہ بے خواب بازار
یہ گمنام راہی یہ سکّوں کی جھنکار
یہ عصمت کے سودے یہ سودوں پہ تکرار
ثناء خوان تقدیسِ…
مدد چاہتی ہے یہ حوّا کی بیٹی
یشودھا کی ہم جنس رادھا کی بیٹی
پیغمبر کی امت، زلیخا کی بیٹی
ثناء خوان تقدیسِ …..

ایک گیت میں ساحر نے عورت کے تعلق سے مردوں کی طرف سے عورت کو فقط جسم سمجھنے لینے پہ طنز کستے ہوئے کہا ہے کہ

لوگ عورت کو فقط جسم سمجھ لیتے ہیں
روح بھی ہوتی ہے اس میں یہ کہاں سوچتے ہیں
کتنی صدیوں سے یہ وحشت کا چلن جاری ہے
کتنی صدیوں سے ہے قائم یہ گناہوں کا رواج
لوگ عورت کی ہر اک چیخ کو نغمہ سمجھے
وہ قبیلوں کا زمانہ ہو کہ شہروں کا رواج

ساحر اپنی نظم کے آخر میں ایک جگہ کہا ہے کہ
عورت سنسار کی قسمت ہے پھر بھی تقدیر کی بیٹی ہے
اوتار پیعمبر جنتی ہے پھر بھی شیطان کی بیٹی ہے
یہ وہ بد قسمت ماں ہے جو بیٹوں کی سیج پہ لیٹی ہے
عورت نے جنم دیا مردوں کو، مردوں نے اسے بازار دیا

 ہندی سنیما کا یہ معروف نغمہ نگار اور اردو شاعری کا کوہِ نور ساحر لدھیانوی اپنے ذہن و فکر کی آب و تاب کو کو اس جہاں میں بکھیرنے کے بعد 1980 میں 59 سال کی عمر میں اس دنیا ئے فانی سے ہمیشہ ہمیش کے لیے کوچ کر گئے. بھلے ہی ساحر آج ہمارے بیچ میں نہ ہوں لیکن اپنی شاعری اور ہر گلی موڑ پر چلنے والے اپنے نغموں کی بدولت ایسا لگتا ہے کہ وہ آج بھی ہمارے درمیان میں موجود ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad