تازہ ترین

اتوار، 22 مارچ، 2020

اُف ، یہ اندھ وشواس !

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی 
شام پانچ بجتے ہی غُل مچنے لگا،تالیاں پیٹی جانے لگیں،تھالیوں کی آوازیں کھنکنے لگیں، لوگ اپنے گھروں کے باہر سڑکوں پر اور گھروں کے اندر صحنوں ، برامدوں اور بالکنیوں وغیرہ میں کھڑے ہوکر شور کرنے لگے ، اس لیے کہ ملک کے وزیر اعظم نے کورونا وائرس کی خطرناکی سے نمٹنے کے لئے ایسا کرنے کا مشورہ دیا تھا،ملک کا میڈیا ان مناظر کو عام کرنے لگا اور سوشل میڈیا پر اس کی تصویریں وائرل کی جانے لگیں ،ایسا کرنے والوں نے یہ نہیں سوچا کہ اس طرح وہ دراصل جگ ہنسائی کا سامان فراہم کررہے ہیں،سائنسی دور میں ایسے غیر سائنسی عمل کا مظاہرہ پوری ڈھٹائی اور بے باکی سے کیا جائے گا ،اُف خدایا ! اتنی بد عقیدگی ! اتنا اندھ وشواس !!

دو روز قبل جب یہ اعلان سامنے آیا تھا کہ ملک کے وزیر اعظم کرونا وائرس کے قہر کے تدارک کے لیے قوم سے خطاب کرنے والے ہیں تو امید بندھی تھی کہ وہ اس کی روک تھام کے لیے حکومتی اقدامات کا اعلان کریں گے ، اس سے متاثر ہونے والوں کے لیے بہتر طبی سہولیات فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائیں گے ، ملک کے عوام کو اس سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے حکومتی منصوبوں کی تفصیلات سے آگاہ کریں گے اور جن غریب لوگوں پر اس کی مار پڑے گی ان کے لیے خصوصی پیکج کا اعلان کریں گے ، لیکن انھوں نے یہ سب کچھ نہ کیا ، بس ایک دن کے 'جنتا کرفیو' اور 5 منٹ کے شور و غل کی اپیل کر دی _

اس عمل کی مختلف توجیہات کی جا رہی ہیں _ بعض لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ اس مہلک مرض پر قابو پانے کی جدوجہد کرنے والے ڈاکٹروں ، طبی عملہ اور انتظامیہ کو خراج تحسین پیش کرنے کی ایک علامت ہے،بعض لوگ یہ سائنسی نکتہ نکال رہے ہیں کہ اجتماعی آوازوں سے جو وائبریشن پیدا ہوگا وہ اس مرض کو محدود کرنے میں معاون ہوگا،لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ اس کی جڑ اس میتھالوجی میں ہے جس کے مطابق شور و غل کرنا پوجا و پرستش قرار پاتا ہے ، جس میں دیوی دیوتاؤں کو خوش کرنے کے لیے گھنٹے بجائے ، تالی پیٹی اور سیٹی بجائی جاتی ہے۔

    اہلِ عرب اسی طرح کی بد اعتقادیوں کا شکار تھے _ قرآن مجید نے اس کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے :
وَمَا كَانَ صَلَاتُهُمۡ عِنۡدَ الۡبَيۡتِ اِلَّا مُكَآءً وَّتَصۡدِيَةً‌ (الانفال :35) 
 "بیت اللہ کے پاس ان لوگوں کی نماز کیا ہوتی ہے ، بس سیٹیاں بجاتے اور تالیاں پیٹتے ہیں۔


یہ صورت حال اہل ایمان سے دو کاموں کا تقاضا کرتی ہے : ایک یہ کہ وہ شکر ادا کریں کہ ان کے دین نے انھیں اس طرح کی بداعتقادیوں اور خرافاتی اعمال سے محفوظ رکھا ہے اور دوسرا یہ کہ وہ اپنے برادرانِ وطن کو اس طرح کے اندھ وشواس سے نکالنے کی کوشش کریں اور ان کے سامنے اسلام کی سیدھی سچّی اور فطری تعلیمات پیش کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad