تازہ ترین

بدھ، 8 اپریل، 2020

کیوں نہ جہاد کو حرفِ غلط کی طرح مٹادیا جائے؟؟

شفاء اللہ رحمانی ؔ، میڈیکل اسٹوڈنٹ، جامعہ ہمدرد نئی دہلی
مخالفین اسلام نے جس وحشیانہ انداز میں جہاد کو عوام کے سامنے پیش کیا ہے۔ اسے سن کر اور پڑھ کر بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نعوذ باللہ مسلمان انسانیت کے قاتل اور خونخوار درندیہیں جسکا مقصدِ اصلی انسانیت کو ہلاک و برباد کرنا ہے۔ اس ناپاک سوچ نے عوام و خواص کی ذہنیت کو اس قدر آلودہ کردیا کہ خواص بھی اسے اپنے تمام تر نصوص سے حرفِ غلط کی طرح مٹادینا چاہتے ہیں۔

تو کیا جہاد کوحرفِ غلط کی طرح مٹادیا جائے؟ اگر نہیں تو کیونکر؟
اسکو سمجھنے کے لئے اولاً  ہمارا توحید یعنی اللہ کو ایک جاننے اور ماننے کا عقیدہ بالکل صاف ہونا چاہئے۔ اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی معلوم ہوناچاہئے کہ ہمارا مقصد ِزندگی کیا ہے؟ مسلمانوں کے خالق نے اس کا مقصد بالکل سامنے رکھ دیا ہے: ــمیں نے انسان اور جنّات کو پیدا ہی اس غرض سے کیا ہے کہ میری عبادت کیا کریںـــ سورہ  ذاریات۔   آیت ۲۹بس یہی ایک مقصد ہے جس کی تکمیل کیلئے مسلمانوں کو زندگی جینے لئے کہا گیا۔اس کے علاوہ کوئی اور دوسرا مقصدنہیں۔ رہا سوال کہ وہ اپنے مقصدِاصلی کو پانے کے لئے لڑائی جھگڑے اور قتل وقتال میں کیوں پڑے؟ تو اسکا جواب یہی ہے کہ جب تک مذہب ِاسلام سر بلند نہیں ہوگا اس کے تمام تر قواعدوضوابط کا نفاذ بآسانی ممکن نہ ہو سکے گا۔عقل بھی اسی بات کو تسلیم کرتی ہے۔معلوم ہونا چاہئے کہ اسلام میں جنگ کیمواقع و اصول وضوابط بھی منضبط ہیں. ضابطۂ جنگ بیان کرتے ہوئے قرآن حکیم فرماتا ہے:’’اور اللہ کی راہ میں ان سے جنگ کرو جو تم سے جنگ کرتے ہیں (ہاں) مگر حد سے نہ بڑھو۔‘‘ سورہ بقرہ ۱۸۹ایک دوسری جگہ اللہ فرماتا ہے. جسکا مطلب یہ ہے کہ حملہ آور ہو کر تلوار اٹھانے کا اجازت نہیں بلکہ دفاع کی جدوجہد کی اجازت ہے ہے تاکہ عبادت گاہیں محفوظ رہیں اور ہر کوئی پر امن ماحول میں اپنے اپنے دین پر عمل جاری رکھ سکے۔ (ذرا غور کیجئے عبادت گاہیں کس قدر محفوظ ہیں؟ اور اسلامی فضاء کس قدر میسر ہے؟) ۔یوں نہیں کہ بس ادنی سی بات پر اعلانِ جنگ کردیا جائے۔ چنانچہ اس اصول کو توڑنیوالا قاتل کی فہرست میں شمار ہوتاہے اور اسکی پاسداری کرنے والا مجاہد کی فہرست میں۔ دونوں کے جزاء اور سزاء کو بھی اللہ نے متعین کردیا ہے۔

 ہاں نقطہ کی بات یہ ہے کہ اسلام نے جس طرح جہاد کے موضوع پر کھل کر بات کی ہے وہ  دوسرے مذاہب  میں اس انداز میں موجود نہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ کہ اسلام ایک سماوی مذہب ہے اور اسکا کوئی گوشہ ایسا نہیں جس کی تفصیل قرآن و حدیث میں موجود نہ ہو۔ دوسرے مذاہب زندگی کے مختلف شعبوں سے متعلق نقائص کے بے شمار پہلو اپنے اندر سمائے ہوئے ہے۔انسان کی فطرت ہے کہ جب وہ فقرو فاقہ سے گزرے گا تو وہ نہ صرف صاحبِ ثروت کے مال میں عیب جوئی کریگا بلکہ اس پر الزام تراشی بھی کریگا کہ اس کے پاس جو مال ہے وہ’حرام’ہے۔ اس پر پابندی  لگانی چاہئے اور اسے ضبط کیا جانا چاہئے۔

ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ تمام مذاہب کے ماننے والوں کا مقصد اپنے اپنے خدا کو پوجنا ہے۔اسی مقصد کے لئے انکے ماننے والے جِیا کرتے ہیں۔  چنانچہ ہم سب کامشاہدہ، مطالعہ اور جائزہ سب اس بات کی دلیل دیتے ہیں کہ  کوئی قوم،کوئی مذہب،کوئی گروہ اورکوئی سلطنت اس وقت تک اپنی اصلی ہیئت پر قائم نہیں رہ سکتی جب تک کہ وہ اپنے مخالفین کے لیے اعلانِ جنگ نہیں کردیتی۔ اس جنگ کا مقصدنہ تو  انسانیت کو نقصان پہونچانا ہے اور نہ ہی یہ پیغام دینا ہے کہ انسانیت کے درمیان سیمحبت ختم کردی جائے۔ بلکہ اس قوم، گروہ یا مذہب کا  اپنی اصلیت  اپنی ہیئت اوراپنے فکر کو مخالفین کے ضرَر سے محفوظ رکھنا ہے۔ وہ اپنی حفاظت میں جنگ میں پیش قدمی کرتی ہے اور دفاع میں جنگ کا مقابلہ کرتی ہے۔قدرت نے انسان کو معزز اور مشرف بنانے کے ساتھ ساتھ اس کے اندر اشرف کی صفت بھی انفرادی طور پر ڈال دی ہے۔ وہ یہ کہ  وہ جہاں کہیں بھی رہیگا، اپنی بالادستی کے لئے کوشش کریگا  اور وہ اپنے  مذہب، اپنی قوم، اپنے ادارے اوراپنی تنظیم کو پروموٹ کرنے کی کوشش کریگا۔ اس درمیان حائل ہونے والے افراد سے دستِ گریباں بھی ہوگا جوکہ نہ صرف تاریخ کے حوالے سے ہمارے مشاہدے میں ہے بلکہ سوشل میڈیا اور نیوزچینل  کے ذریعہ نشر ہونے والی بہت سی خبریں اسکی زندہ جاوید مثال ہیں۔

چنانچہ دوسری طرف جمہوریت پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ جمہوریت بالفاظِ دیگر اکثریت کانام ہے۔ اکثریت جیساچاہے گی ویسا ہی قانون بنے گا۔گرچہ وہ کسی مذہبی قانون سے کیوں نہ ٹکراتی ہو۔ اوریہ جمہوری عوام جس قانون کو منسوخ کرناچاہے کر سکتی ہے۔جمہوریت میں آئین،   مذہبی کتاب سے زیادہ مقد س مانا جاتا ہے۔چنانچہ اس آئین کے تقدس کو  پامال کرنے والے کے لئے جمہوری حکومت  بھی اعلانِ جنگ کرتی ہے۔ تاکہ اسکی جمہوریت کی تحفظ ممکن ہو سکے۔ان سب سے صرفِ نظر کرتے ہوئیاگر ہم اس بات کے قائل ہوجائیں کہ مذہب سے دست بردار ہوکر ایک گروہ تیار کیا جائے۔  جنکے بنیادی اصول و ضوابط  میں انسانیت  اور اسکے ٖفلاح و بہبود کے لئے کام کرنا ہو۔ اور اس  کا مقصد  انسانیت کو ہی بچانا ہو۔  ہر ایک کی جان کو تحفظ دینا ہو۔ تو کیایہ ممکن ہے کہ اس گروہ کے مخالفین پیدا نہ ہونگے؟ حالانکہ مخالفت تو انسان کے خون میں روزِاوّل سے پیوست ہے۔لہذا اس صورت میں  انسانیت کا یہ سب سے محبوب ترین گروہ اپنے مخالفین کے لیے اعلان جنگ کرنے پر مجبورتو  ہو جائیگا  لیکن یہ ایسا ہی ہوگا  گویا چھت کے نیچے ستون کو   ٹھوکرماری جائے۔یہاں  مزید برے نتائج مرتب ہونگے کیونکہ جزاء اور سزا کا نظریہ کلی طور پر  باطل ہوجائیگا۔    مجرم سینہ ٹھوک  کر جرم کرتا نظر آئیگا۔یہی نہیں بلکہ  علی الاعلان طوائف خانیآباد کرنے والے کو بھی جان کی سلامتی دی جائیگی۔خلاصہ یہ ہیکہ انفردی طور پر قانون کی مخالفت کرنے والے کے لئے سزا کا اعلان ہوتا ہے نیز جب یہی مخالفت اور زیادتی کسی قوم کی جانب سے کی جاتی ہے تو اسکے لئے اعلانِ جنگ ہوتا ہے۔ چونکہ   اسلام ایک مذہب ہی نہیں بلکہ ایک مستقل، مہذب  اور مکمل دستورِحیات ہے۔چناچہ  جہاد کااسلام میں موجود ہونا اسکے اندر کسی فالٹ کو نہیں بتاتا، نہ ہی کسی شدت پسندی کو ظاہر کرتا ہے اور نہ ہی یہ ثابت کرتا ہے کہ اسلام انسانیت کیمخالف  ہے۔  بلکہ یہ بتاتاہے کہ جہاد  در اصل وہ لڑائی ہےجو ہرمنظم حکومت اور گروہ اپنی بقاء کے لئے لڑا کرتی ہے۔ جسے تم انگریزی میں(وار) کہتے ہو۔

1 تبصرہ:

Post Top Ad