تازہ ترین

پیر، 18 مئی، 2020

بیس لاکھ کروڑ کا خصوصی پیکیج؛ کیا بھارت کا اقتصادی نظام بہتر ہوگا؟

از قلم : وزیر احمد مصباحی (بانکا)
                   ‌{موجِ خیال}

 کسی بھی ملک کی تعمیر و ترقی میں اقتصادی نظام کا بہت بڑا دخل ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں کوئی ایسا ملک نہیں ہے جس نے اپنی ترقیوں کے سارے خواب معاشی نظام کی بہتری کے بغیر ہی پورا کر لیا ہو۔یقینا! کسی ملک میں اگر آمدنی کے تمام ذرائع مقفل ہو جائیں تو پھر یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اس کی زندگی چند روزہ ہو جاتی ہے۔ ایک وقت تھا جب وطن عزیز (بھارت) اقتصادیات کے باب میں دنیا کا تیسرا سب سے بڑا ملک تھا۔ جی، ڈی، پی کی شرح نمو مسلسل آگے بڑھ رہی تھی، مگر پھر دھیرے دھیرے  اس ضمن میں رکاوٹ آتی گئی اور ہمارا ملک بھی اقتصادی بدحالی کا شکار ہوگیا۔ فی الوقت بڑی بڑی کمپنیاں، کارخانے فیکٹریاں، انڈسٹریز اور چھوٹے موٹے کاروبار سب کے سب ٹھپ پڑے ہوئے ہیں۔ عروس البلاد (ممبئی) جیسا ترقی یافتہ شہر، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کاروبار کے معاملے میں یہ بڑا زرخیز شہر ہے اور یہاں بڑی بڑی کمپنیاں اور بڑے بڑے انڈسٹریز موجود ہیں، اس وقت یہ بھی کورونا جیسی مہاماری کی بنا پر مکمل طور سے تہس نہس ہو کر رہ گیا ہے۔ جب سے بی جے پی اقتدار میں آئی ہے اس وقت سے ہی بھارت کی ڈی جی پی مسلسل تنزلی کا شکار ہے۔ روز بروز بےروزگاری کی خبریں اخباروں و نیوز چینلوں کی زینت بنتی رہتی ہیں۔

       شاید آپ کو یاد ہوگا کہ مودی حکومت نے جب چند سالوں قبل کالا دھن واپس لانے کے لئے راتوں رات "نوٹ بندی" کا اعلان کیا تھا تو اس وقت ملک کی حالت بدترین ہوگئی تھی۔ مودی جی نے ہر ایک بھارتی کے کھاتے میں پندرہ پندرہ لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا تھا،مگر اس بندی کا انجام اتنا بھیانک نکلا کہ عوام کو ہی بینکوں سے اپنا جمع شدہ رقم نکالنے میں نانی یاد آ گئی۔ ملک بھرمیں لائنوں و قطاروں کا ایک زبردست جال سا بچ گیا تھا، ہر طرف ہاہاکار سا مچ گیا تھا،تقریبا دو سو افراد نے اس سخت مشکل گھڑی کے سامنے ماتھا ٹیک دیا اور وہ اس دنیا سے چلے گئے۔۔۔مگر پھر بھی ہندوستانی معیشت میں اضافہ اور شرح نمو میں ترقی ہونے کے بجائے تنزلی ہی ہوتی گئی۔گزرتے ایام کے ساتھ ہمارے ملک کا اقتصادی نظام برابر بگڑتا رہا، یہاں تک کہ عالمی مالیاتی ادارے نے بھی امر ھذا پر اظہارِ افسوس کرتے ہوئے یہ بات کہی کہ" بھارت کو اس معاملے میں جلد از جلد کوئی عملی اقدام کرنے کی ضرورت ہے، ورنہ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو پھر انڈیا کو شدید مالی بحران کا شکار ہونا پڑے گا"۔

       مودی حکومت کی یہی وہ ناکامی تھی جس کو چھپانے کے لئے اس نے بھارتی ریزرو بینک سے ایک خطیر رقم بھی بطور قرض لیا،مگر پھر بھی وہ اپنی ناکامی چھپانے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ اس وقت جب کہ پورا ملک پریشانی میں ہے اور کورونا جیسی مہاماری کے چلتے لوک ڈاؤن کو چالیس/ پچاس روز مکمل ہونے کو ہے، ملک بھر میں کاروباری سلسلہ بالکلیہ معطل ہوکر رہ گیا ہے اور ساتھ ہی ہندوستانی معیشت برابر گرتی ہی چلی جارہی ہے۔ یقیناً معاش و معیشت کے باب میں پاؤں جمانے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ پہلے آپ سرمایہ کاری سے مرتبط ہوں، بغیر سرمایہ کاری کے ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھا جا سکتا ہے۔ اس ضمن میں ماہرین اقتصادیات کا بھی خیال یہی ہے کہ :" عالمی منڈی سے قرضہ لینا مفید نہیں ہوتا کہ اس سے نجی شعبے میں سرمایہ کاری میں بڑھوتری رک جاتی ہے"۔ تاریخ شاہد ہے کہ کسی بھی حکومت کو بیرونی قرضوں کے حصول کا نشہ بڑی تیزی سے لگتا ہے کہ یہ قلیل مدت کے لیے سستے لگتے ہیں، مگر پھر بعد میں جب درد سر بنتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ سرمایہ کاری کا یہ ڈھب کتنا خطرناک اور سخت ہے۔

 اس وقت جب کہ چھوٹے بڑے ہر قسم کے کاروباری افراد سخت مشکل گھڑی میں ہیں اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے صنعت کاری کے سارے نظام خستہ حال ہیں، مودی حکومت کی طرف سے منگل کے روز ملکی معیشت کی سست رفتاری کو تیز سے تیز تر کرنے اور اس بحران کو ایک موقع طور پر استعمال کرنے کی دھن میں جس بیس لاکھ کروڑ روپے کے اقتصادی پیکیج کا خصوصی اعلان کیا گیا ہے، وہ یقینا خوش کن ہے۔ بڑی بات یہ بھی ہے کہ اس اعلان کے دوسرے ہی دن بھارتی وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے اس خصوصی پیکیج کے مصرف کا خاکہ پیش کر دیا۔ اگر اس میں ایم، ایس، ایم، ای کو چار سال کے لیے یے تین لاکھ کروڑ کا مفت قرض دینے کی وضاحت ہے تو وہیں چھوٹی صنعتی اکائیوں کو مفت قرضہ فراہم کرنے کا منصوبہ بھی شامل ہے۔ وزیر خزانہ نے مملکت خزانہ "انوراگ ٹھاکر" کے ساتھ مل کر پریس کانفرنس میں اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ خود کفیل ہندوستان مہم کے تحت مختلف شعبوں کے لئے بھی پیکج کا اعلان کرے گی۔ حکومت کی طرف سے یہ پہل بھی کیا گیا ہے کہ وہ پرائیویٹ صنعتوں میں کام کرنے والے اہلکاروں کے خاطر زیادہ پیسے کا انتظام کروائے گی اور وہ اس کے لئے اگلے تین ماہ تک کے لیے ایمپلائز پروویڈنٹ فنڈ آرگنائزیشن میں دیے جانے والے شیئر میں کمی کرے گی۔

       مگر۔۔۔۔مگر ہم جیسے سادہ ذہن لوگوں کو اب بھی برابر یہ کنفیوژن ہوتا ہے کہ کہیں مودی حکومت کا یہ دعویٰ بھی گزشتہ واقعات کے مثل صرف اور صرف زبانی جمع خرچی ہی تو نہیں ہے کہ وہ اس بار بھی بڑی چالاکی کے ساتھ خاموش رہنے اور زبان بند کروانے کے لیے سنہرے خواب دکھا کر خوب صورت پیالے میں چٹکی بھر وہ میٹھا زہر پلا رہے ہیں،جس کا انجام نہایت خطرناک ہے اور ہمیں اس‌ کا شائبہ تک نہیں؟ واقعی! اس قدر اعلانات سے پرے اٹھ کر یہ بات سوچنے کی ہے کہ آخر مودی حکومت اتنی خطیر رقم لائے گی کہاں سے جب کہ وہ پہلے ہی سے خستہ حالی کے شکار ہے؟ ہر دن کمپنیاں اور کارخانے مقفل ہوتے جا رہے ہیں اور پرواسی مزدوروں پر ایک سخت مشکل گھڑی آ پڑی ہے۔ آخر کہاں چلا گیا وہ "سب کا ساتھ__سب کا وکاس" جیسا پرفریب نعرہ؟ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ مودی حکومت نے کورونا جیسی آفت کے پیچھے کسی زبردست مواقع کا سراغ لگا لیا ہے اور وہ اس کے لیے برابر کاروباری دنیا کو عوام کی امیدوں پر کھرا اترنے کی تلقین کر رہی ہے۔ جی ہاں! یہ سن کر بڑا اچھا لگتا ہے کہ اب ضروری معاشی اصطلاحات کیے جائیں گے اور پیداوار کا معیار بہتر کرنے، اس کی کھپت بڑھانے اور تکنیکی ایشوز کو بروقت حل کرنے میں حکومت مستعدی کے ساتھ کام کرے گی___ مگر پھرکبھی کبھی یہ سارے حکومتی پلاننگ یقین کے اچھوتے معیار پر ثابت قدم نہیں رہ پاتی ہیں کہ کہیں  یہ بھی گزشتہ حادثات کی طرح ڈھونگ نہ ہوجائے۔ مدتوں سے ہم جس مفاد پرست حکومت کی بالادستی کا رونا رو رہے ہیں، آج اس لوک ڈاؤن میں آبائی وطن جانے کے لیے کوسوں دور تک کا سفر کرتے ہوئے لاچاروں، غریبوں اور مزدوروں کی گردش کرتی ہوئیں دلسوز تصاویر اسی حکومت کی نا اہلی کا واضح منظر پیش کر رہی ہیں۔ 

اب تو اکثر باشندگان بھارت کا بھی موجودہ سرکار سے اعتماد اٹھ گیا ہے۔ مگر پھر چند ثانیے بعد ہی گاؤں و دیہات میں بسنے والے لوگ اس لیے شش و پنج کا شکار ہو جاتے ہیں کہ پریس کانفرنسوں میں مودی کا بگٹٹ چلتا ہوا تمکنت سے پر لہجہ ان کے دل و دماغ کو برابر یقین کی طرف مائل کرنے لگتا ہے۔ اس حقیقت کا اندازہ آپ معروف صحافی و سکالر ندیم اختر کے اس اقتباس سے لگا سکتے ہیں۔ آپ اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں:"ایک صحافی دوست نے بتایا کہ انھوں نے سیکڑوں کیلو میٹر کا سفر کرکے  اپنے گھر لوٹنے والے کچھ مزدوروں سے بات کی، ان سب کا تعلق اونچی برادریوں سے تھاـ انھوں نے ان لوگوں سے جاننا چاہا کہ اس قدر بھوک پیاس سے دوچار ہونے کے بعد وزیر اعظم مودی کے بارے میں ان کی کیا رائے ہے؟ کیا مودی جی اور ان کی حکومت اس کے لیے ذمے دار ہے؟

بھوکے اور درد سے نڈھال مزدوروں نے انھیں جواب دیا: اب مودی جی کیا کریں گے؟ وہ تو بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔ یہ کورونا وائرس مودی جی تھوڑی لے کر آئے ہیں۔ یہ تو جماعتیوں نے پھیلایا ہے، جس کی سزا ہم لوگ بھگت رہے ہیں ـ مودی جی سے ہمیں کوئی شکایت نہیں ہے "ـ (یہ اقتباس، نایاب حسن کی فیس بک ٹائم لائن سے لیا گیا ہے)

       خیر اب ہم امید باندھنے کے سوا کر بھی کیا سکتے ہیں؟ حکومت نے اس پیکیج کو غریبوں اور مزدوروں کے لیے جس طرح راحت بخش بتایا ہے اس کا تقاضا یہی ہے کہ اس سے استفادہ کیا جائے۔ یہ ضرور ہے کہ یہ سرکار جملہ بازی کا دوسرا نام ہے۔ پر امید ہے کہ ملکی معیشت کی بربادی اور جی ڈی پی کی مسلسل گرتی شرح کو سامنے رکھ کر یہ کچھ نہ کچھ ضرور اچھا کرے گی۔عالمی اقتصادی منظرنامے پر بھارت کی جو موجودہ ناکام چھبی ہے وہ اسی بہانے کچھ نہ کچھ تو ضرور دھندلی ہوگی۔ مگر ہاں! یہ بات ضرور یاد رہے کہ یہ کام آسان نہیں ہے بلکہ ایک بہت بڑا چیلنج کے طور پر ہمارے سامنے آیا ہے اور ہم اسے قبول کرکے ہی ملک کو خود کفیل بنا پائیں گے۔

(مضمون نگارعربک یونیورسٹی، جامعہ اشرفیہ مبارک پور کے ریسرچ اسکالر ہیں)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad