تازہ ترین

اتوار، 10 مئی، 2020

مدر ڈے اور اسکی حقیقت 

محمد سرتاج عالیہ ثانیہ  متعلم دارالعلوم فیض محمدی ہتھیاگڑھ مہراجگنج  
 ماں ایک ایسی ذات ہے جسکا تذکرہ چھڑتے ہی بےتاب ومضطرب دل کو قرار،قلب وروح کو سرور، مرجھائےاور کمہلائے کلیوں میں تروتازگی آجاتی ہے،زمین میں سر سبزوشادابی پھیل جاتی ہے،لہلہاتے باغوں کی کلیاں مسکرانے لگتی ہیں، اور ہوائیں پریم کے گیت گاتی اس ہستی کا خیر مقدم کر رہی ہوتی ہیں، کیونکہ اس  پیار و محبت کرنے والی ہستی کے دل کو قدرت نے اپنے نور محبت سے روشن کر دیا ہے، جو پروانے کی طرح اپنے بچوں پر نثار ہو جاتی ہے، ان پر آنے والے حادثات کا ڈٹ کر مقابلہ کرتی ہے، خود مفلسی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی رہتی ہے مگر اپنے بچوں کے کانوں میں افلاس و تنگدستی کی زنجیروں کی آواز بھی نہیں پہونچنے دیتی۔

ایک مدت سے میری ماں نہیں سوئی تابش
میں نے ایک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتاہے

قرآن نے اس کی تعظیم و تکریم کو واجب قرار دیا "اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو! اگر ماں باپ میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کی عمر تک پہنچ جائے اور انکی خدمت کا بوجھ تم پر آپڑے تو ان کی کسی بات پر اف نہ کرو!یعنی کوئی بات کتنی ہی ناگوار گزرے مگر حرف شکایت زبان پرنہ لاؤ! اور نہ تیزی میں آکر جھڑکنے لگو! ان سے بات چیت عزت و ادب کے ساتھ کرو! ان کے آگے محبت اور مہربانی کے ساتھ عاجزی کا سر جھکائے رکھو!" بنی اسرائیل-٢٣ ۔ترجمان القرآن،اور محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے ماں کو وہ مقام دیا کہ جنت کے محلات کو بھی اس کے قدموں کے نیچے آنا پڑا۔

تاہم دنیا کے لوگوں نے بھی ایک چراغ آرزو جلایا، اور اس کی محبت، مامتااور بچوں کے تئیں بےلوث قربانیوں کو ایک روز "مدر ڈے" میں سمونے کی کوشش کی، میں آپ کو بتاتا چلوں کہ ہر سال مئی کے دوسرے اتوار کو مدر ڈے بڑے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے، تاریخی اعتبار سے اس دن کا آغاز ایک خاتون،juliya ward نے 1870 عیسوی میں اپنی ماں کی یاد میں منایا تھا، پھر سات سال بعد 1877 میں امریکی سطح پر پہلا مدر ڈے منایاگیا،اور 1908میں امریکی ریاست" فلا ڈیفیا"میں" Anna Marie Jarvis" نامی اسکول ٹیچرنے اپنی ماں "Anna  Reeves Jarvis" کی یاد میں باقاعدہ اس دن چرچ میں اپنی ماں کو پسندیدہ پھول دے کر قومی سطح پر اس دن کو منانے کی تحریک قائم کی، اور اس وقت کے امریکی صدر  ڈرولس نے ماؤں کے احترام میں اس تحریک کو ہری جھنڈی دکھا کر  اسے پھلنے پھولنے کا موقع دیا، تب سے ہر سال مستشرقین و ملحدین اور ان کے مقلدین اسے مناتے چلے آرہے ہیں۔

لیکن کیا صرف اس سے اس ہستی کے احسانات کا بدلہ ہم سے ادا ہو جائے گا؟کیا کسی کے دل میں یہ بات بھی نہیں آتی کہ اس عظیم ماں کے لیے سال میں ایک مدر ڈے ہی نہیں بلکہ زندگی کا ہر سال، ہر مہینہ، ہر ہفتہ، ہر دن، ہر گھنٹہ، ہر منٹ، اور ہر سیکنڈ بھی ناکافی ہوگا؟ کیا یہ عقلیں اپنے ماں کی پرورش و پرداخت بھول گئیں ؟ ماں کا وہ جھوٹ بولنا یاد نہیں ؟ کھانے میں ماں کہتی ہے،بیٹا! تم کھالو!مجھےبھوک نہیں، موسم سرما میں ٹھنڈ کی بات ہو تو ماں کہتی ہے ،بیٹا! کمبل اوڑھ لے! مجھے ٹھنڈ نہیں لگ رہی، بیماری میں مبتلا ہو کر کہتی ہے بیٹا! مت رو! مجھے کچھ نہیں ہواہے،دنیا کو خیر آباد کہتے وقت بھی ماں کہتی ہے میرے لاڈلے کا خیال رکھنا۔

لبوں پہ اسکے کبھی بددعا نہیں ہوتی 
بس اک ماں ہے،جو کبھی خفا نہیں ہوتی

  کیا ماں کے یہ الفاظ انکے دلوں کو نہیں جھنجھوڑتے ؟انہیں احساس نہیں دلاتے؟۔ یا وہ اپنا حس کھو بیٹھی ہیں؟
جی ہاں! کیوں کر احساسات کی کرن ان کے دلوں کو چھوئے گی،   جب رب العالمین کے بندے خواہشات کے پجاری بن جائے، جب قرآنی احکام کو سینے سے لگانے اور اس پر عمل پیرا ہونے والے نفس کے بندے اور دنیا کے غلام بن جائے، جب عقلیں فیشن اور جدید ماڈلز کے نام پر مغرب کی گندی ہواؤں کی بدبو کو مشک سمجھنے لگے، یہ ہررنگ میں رنگ جانے والی بے رنگ عقلیں کاش یہ سمجھ لیتی کی عالمی سطح پر منایا جانے والا مدرس ڈے اس میں اپنے بچوں کے لئے اپنی جیون تیاگ دینے والی ماں کے لیے پھول کم اور کانٹے زیادہ ہیں،فائدہ کم نقصان زیادہ ہے،اس کی عظمت و رفعت کم اس کے رشتے کے تقدس کی پامالی زیادہ ہے، اسکی قربانیوں کے لئے خراج تحسین کم  اس کی توہین اور اسکا مزاق زیادہ ہے۔

آج اس تہذیب کی تقلید کی جا رہی ہے جہاں والدین کے بوڑھے ہوتے ہی اولڈ ہومز old homes میں رکھ دیا جاتا ہے ان کے پاس پیار محبت کی باتیں کرنے والا کوئی نہیں رہتا، وہ سینے پہ پتھر رکھے انتظار کی گھڑیاں گن رہے ہوتےہیں کہ کب مدرس ڈے آئے گا ان کا لخت جگر ان سے محو گفتگو ہو گا اگر کوئی اس خیال کو اپنے سینے میں جگہ دیتاہے کہ عبادات ،نماز روزہ،زکوۃاور حج کو اسلامی طرز عمل پر انجام دے اور ماں باپ کے تئیں مدر ڈےاور fathers day کو زندگی میں لائے تو اسکا خود ساختہ مذہب اور دین ہے ،اسلام اور محمد عربی صلی اللہ علیہ کا نہیں۔اے کاش ہم دین اسلام کو اس منحوس مدر ڈے مدرس ڈےکی آمیزش،ملاوٹ اور  سےپاک وصاف کرلیتے  اور پوری دنیا بالخصوص مغرب کو پیغام دیتے کہ ہمارے اسلام میں ھماری ماؤں کے لیے ہر یوم، یوم مدر ہے، وہی ہماری جنت بھی ہیں،اور دوزخ بھی۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad