تازہ ترین

بدھ، 6 مئی، 2020

کرونا کی آڑ میں حکومت کا متعصبانہ رویہ

شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی
کہتے ہیں انسان کی زندگی جب اپنے ارد گرد  سامان راحت و آسائش کی فراوانی دیکھتی ہے تو عموماً وہ انسانی قدروں اور اس کے تقاضوں کو بھول کر رعونتوں اور غرور وتمکنت کے دشت میں داخل ہوجاتی ہے'اور جب وہ دنیا کی دولتوں اور عیش وعشرت کے وسائل سے محروم ہوکر تنگ دست ہوجاتی ہے'تو  اسے انسانیت کا سبق شدت سے یاد آتا ہے، پامالی حقوق کا احساس ہوتا ہے،اور  احساس کا یہ عنصر بھی جہاں خود اس کے لئے سکون دل کا سامان ہوتا ہے دوسروں کیلئے بھی  وفرحت وعافیت کا سبب ہوتا ہے اس لیے کہ یہی وہ لمحہ ہے جس میں اخلاق وکردار کے اصولوں پر ایمان اور ان پر عمل کی حقیقت اور اس کے نتائج کھلی کتاب کے اوراق کی طرح نگاہوں کے سامنے آتے ہیں، ماضی کے مظالم پر افسوس ہوتا ہے'، غفلتوں اور عیاشیوں پر رنج ہوتا ہے'، ایک پرامن اور بے ضرر زندگی گذارنے کا نہ صرف جذبہ بلکہ عزم لے کر  ایک وجود پھر اٹھتا ھے اور انصاف وعدالت اور امانت ودیانت کی راہ پر تاریخ رقم کرتا چلا جاتا ہے، یہ تبدیلی درحقیقت اس مالی یا سیاسی اور سماجی یا اقتصادی بحران کا نتیجہ ہوتی ہے'اور اس کے لئے زندگی میں انقلاب کی صورت میں رحمت ثابت ہوتی ہے'،یہ صورت حال جس طرح فرد کی زندگی میں پیش آتی ہے'ٹھیک اسی طرح خاندان،معاشرے اور حکومت و اقتدار کی اجتماعی زندگی میں بھی پیش آتی ہے'۔فرد کی طرح فرمانروائے ملک اور سینیٹ اور ارکان سلطنت بھی ماضی کے غیر منصفانہ کرداروں کے نتائج ناخوشگوار صورت میں دیکھتے ہیں تو مستقبل کی تعمیر کے لئے ان کرداروں سے سبق لیتے ہیں، اور حقوق انسانیت کے تحفظ کی راہوں پر چل پڑتے ہیں۔۔

لیکن کبھی کبھی معاملہ اس کے بالکل برعکس بھی ہوتا ہے کہ زمانے کی تبدیلی کرداروں پر اثر انداز نہیں ہوپاتی ہے'، حالات کی سنگینی فکر ونظر کا زاویہ چینج نہیں کرپاتی ہے'،بےحسی کی یہ فضا اس وجہ سے قائم رہتی ہے کہ سماج کا پورا ڈھانچہ تعصب ونفرت کے دلدل میں غرق رہتا ہے ،اس کی فکر اس کی سوچ کا زاویہ اور اس کی حرکت وعمل انہیں عناصر کے زیرِ اثر انجام پاتے ہیں نتیجتاً انسان ہوس کا شکار ہو کر رہ جاتا ہےپھر اس کے ہاتھوں انسانی اقدار پامال ہوتی ہیں،مساوات رواداری مسخ ہوتی ہے،اخوت وعصمت زخم زخم ہوتی ہے، ملکی ومعاشرتی مفادات اور انصاف ودیانت کا قتل ہوتا ہے،

 بدقسمتی سے ہمارا ملک اسی غیر انسانی فرقہ وارانہ عفریت کے پنجوں میں سسک رہا ہے، موجودہ کرونا وائرس کے قہر سے جہاں پوری دنیا خوفزدہ ہے اور اس کے تباہ کن اثرات سے لرزہ براندام ہے وہیں ہندوستان بھی اس کی تباہ کاریوں کی زد میں ہے ہر آنے والا دن پچھلے دنوں کے مقابلے میں زیادہ ہلاکت خیزی کی خبر دے رہا ہے ، مرض کی وسعت میں روز بروز اضافہ ہوتا جاتا ہے، اموات کی تعداد بڑھتی جاتی ہے،وقت کی اس سنگینی کا تقاضا تھا کہ اصحاب سیاست اور حکومت اس کی جانب پوری سنجیدگی اور انصاف کے ساتھ توجہ کرتے،لیکن حفاظت کے سارے جذبے،اور اس عالمی وبا سے نجات کی ساری تدبیریں تعصب اور اقلیت دشمنی کی قربان گاہ پر قربان ہوگئیں، ظاہری لحاظ سے ملک کے بڑے بڑے شہروں میں مریضوں کے لیے مخصوص مقامات خاص کئے گئے، ملک کو لاک ڈاؤن کے ذریعے قید خانے میں تبدیل کردیا گیا،کاروبار زندگی کو یکلخت موقوف کردیا گیا، دوکانیں اور تمام پبلک مقامات کو سیل کردیا گیا، آمد ورفت کے ذرائع پر پابندی لگا دی گئی،عبادتگاہوں ،کالجوں اور اسکولوں کو بند کردیا گیا، کرونا وائرس کی قہر سامانیوں کے پیشِ نظر یہ تدبیریں لازمی بھی تھیں اور وقت کا شدید تقاضا بھی تھا

  تاہم لاک ڈاؤن کے باعث بے شمار افراد جو تیزی سے افلاس کے چنگل میں جارہے تھے اور دوسرے اسٹیٹ میں جو بے یارومددگار تھے ان کی خبر گیری اور ان کی امداد وخور دونوش اور رہائش کے انتظام کے حوالے سے بڑے پیمانے اور حکومتی پیمانے پر توجہ کی ضرورت تھی جسے حکومتی سطح پر یکسر نظر انداز کر دیا گیا اور یہ روش اب تک قائم ہے' اس غیر ذمہ دارانہ فیصلے اور متوسط ومڈل کلاس کے لوگوں کو اگنور کرنے کے نتیجے میں سیکڑوں افراد لقمہ اجل بن گئے،اپنے گھروں سے دور دوسرے شہروں میں مزدوری کی غرض سے رہائش پذیر ملازمت پیشہ لوگوں نے جب دیکھا کہ موجودہ وائیرس کے خطرہ کے مقابلے میں بھوک وفاقہ کا عفریت بالکل سامنے منھ پھاڑے کھڑا ہے اور چند ساعتوں میں وہ موت کے بحر اٹلانٹک کی صورت میں بے شمار لوگوں کو نگلنا چاہتاہے تو انھوں نے بے سروسامانی کے عالم میں سواریوں کے انتظام کے بغیر پیدل شہروں سے اپنے گاؤں کی طرف ہزاروں کی تعداد میں چل پڑے، پندرہ سولہ سو کلومیٹر کی  طویل مسافت میں جانے کتنے افراد بھوک پیاس سے بے حال ہوکر موت کے منہ میں چلے گئے، کتنے راستہ بھول کر ہمیشہ کے لیے گمنام ہوگئے، اصحاب حکومت اور مشیران اقتدار کی اس وقت اہم ذمہ داری تھی کہ اس طرف پورے اہتمام سے توجہ کرتے اور حکومت کو بھی اس حوالے سے آمادہ کرتے، 

مگر اس قدر اہم ذمہ داری اس لیے ان کی توجہ سے محروم رہی کہ یہاں نصب العین دوسرا تھا اور وہ تھا فرقہ وارانہ اور نسل پرستانہ ماحول قائم کرکے دو قوموں کے درمیان نفرتوں کی خلیج قائم کرنا،ایک قوم کو ہر لحاظ سے بدنام کرکے ملک میں اسے اچھوت بنانا، سو ملک کے چوتھے ستون میڈیا نے بڑی محنت اور جد وجہد اور پورے اہتمام سے اس مقصد کو حاصل کیا، اس کے لئے اس نے تبلیغی جماعت کے عالمی مرکز دہلی کو نشانہ بنایا،اور وہاں موجود تمام لوگوں کو کرونا وائرس پھیلانے کا ذمہ دار قرار دیا،ان کے حوالے سے ہندوستان کے تمام مسلمانوں کو کرونا کا مجرم قرار دیا، عام رپورٹر سے لیکر اینکر تک اس مقصد کے حصول میں پوری طاقت جھونک دی، اس پورے فرقہ وارانہ کھیل کی تفصیل اب ہر شخص پر کھل چکی ہے، کہ کس طرح اجودھیا میں  وزیراعلی کی سرپرستی میں سنگ بنیاد کی سبھا، ایم پی میں حلف برداری کی تقریب، لکھنؤ میں اٹلی سے آنے والی اداکارہ کی تقریب، اور دسیوں اس طرح فنکشنز جو پورے دھڑلے سے منعقد ہوتے رہے انہیں نظر انداز کرکے سنگھی اور دجالی میڈیا نے دلی مرکز کو ٹارگیٹ کرکے انصاف وسچائی کا گلا گھونٹا اور کس طرح اس نے صداقت وجمہوریت اور صحافتی فرائض کو پامال کرکے ضمیر فروشی اور فرقہ پرستی کا ثبوت دیا ہے،میڈیا نے کرونا کو مسلمان کرکے جس طرح ملک میں مسلمانوں کو مجرم بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی تھی وہ تیزی سے کامیاب ہوئی اور مسلم قوم اپنے ہی ملک میں ایک اہم اور سچائی کی حفاظت کرنے والے نام نہاد ادارے اور سچائی ہی کی اشاعت کا دعویٰ کرنے والے ادارے کی کرم فرمائیوں کے نتیجے میں علیحدہ اور اچھوت بن کر رہ گیا، اس کی دکانیں الگ کردی گئیں ان پر مسلم کمیونٹی کے نشانات لگا کر بائیکاٹ کیا گیا، بے شمار افراد کو مساجد کے نام پر تشدد کیا گیا، متعدد دیہات میں مسلم نوجوانوں کو انتہا پسند ہندو ں نے ظلم وبربریت کے ذریعے موت کے گھاٹ اتار دیا، میڈیا کے ساتھ عوام کی انتہا پسندانہ مہم چند روز پہلے تک پوری قوت سے جاری تھی۔وہ تو بھلا ہو امارات اور خلیج کے کچھ افراد کا کہ ان کی نظریں شوشل میڈیا پر مسلمانوں اور اسلام کے خلاف انتہا پسندوں کی زہر افشانیوں پر پڑ گئیں اور انہوں نے اس پر ایکشن لیا جس کی وجہ سے ان کی سرگرمیاں مدھم پڑ گئیں اور یوں بھی مقاصد کے حصول کے بعد جد وجہد میں کمی آجاتی ہے،

 کرونا کی ہلاکت خیزیوں اور اس کے تباہ کن اثرات کی وجہ سے دنیا کے تمام ممالک نے اور تمام حکومتوں نے بلا تفریق مذہب وملت اور پوری وسعت وفراخی سے اپنے شہریوں کی حفاظت کا سامان کیا ہے'اس میں کسی قسم کی تفریق اب تک کسی خبر میں نہ آسکی ہے'،یہ خصوصیت اور امتیاز صرف ہندوستان کو حاصل ہے'کہ ایسے نازک وقت میں بھی یہاں کے افراد تعصب کے خول سے باہر نکل نہیں سکے،اور اصحاب سیاست سے لیکر ملکی ترجمان یعنی میڈیا کے ادارے تک نے اس موسم خوف وہراس میں ملک کو پستیوں کی طرف لے جانے والے انتہا پسندانہ اور فرقہ وارانہ نظریات کو فروغ دینے میں اہم کردارادا کیا،اور اس محاذ کو سر کرنے کے لئے اس وائرس کا پوری قوت سے استعمال کیا۔


وقت کی نیرنگی دیکھئے کہ آج وہی لوگ جنھیں محض مسلمان ہونے کے جرم میں کرونا کے نام پر طرح طرح سے زدوکوب کیا گیا تھا اور ان کے وائیرس پازیٹیو کی خبروں کو خوب اچھالا گیا تھا،انہیں کے خون سے دوسرے مریضوں کے علاج کے لیے مدد لی جارہی ہے'باعث مسرت یہ بات ہے کہ وہ مظلوم افراد لائن لگا کر صرف اس لیے کھڑے ہیں تاکہ انسانیت کی خدمت کی غرض سے اپنا بلڈ ڈونیٹ کرسکیں،قدرت کی طرف سے یہ کردار اہل تعصب کے چہرے پر طمانچے سے کم نہیں ہے'شرط یہ ہے کہ احساس کا سرمایہ اور انسانیت کی رمق وجود میں کچھ باقی ہو، میڈیا اس اعلی کردار اور انسانی ہمدردی کی تصویر کو اپنے چینل میں جگہ نہ دے سکی۔

صاف وجہ ہے کہ یہ اس کے مشن کے خلاف ہے
نیتوں میں جب نفرتوں کا زہر بھر جائے،مقاصد جب پست ہوجائیں، اور ذہن ودماغ عصبیت کے سمندر میں غرق ہوجائیں تو عالمی وبا اور بین الاقوامی مصائب بھی قلب وروح میں انصاف ومساوات کی روشنی پیدا نہیں کرپاتے ہیں،اس ملک میں مذکورہ رویوں اور عصبیت وانتہا پسندی کی عریاں تصویر بہت آسانی سے دیکھی جاسکتی ہے'، ایسے وقت میں جب ساری دنیا تحفظ انسانی کی تدبیریں تلاش کرنے میں سرگرداں ہے، عالمی قہر کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے میں سرگرم ہے'،یہاں انتہائی تیز رفتاری سے اپنے نسل پرستانہ خاکے میں رنگ بھرا جارہا ہے اس کی بدترین مثال دو روز قبل جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کی طالبہ صفورا کی گرفتاری ہے'۔

اس کا جرم صرف یہ تھا کہ اس نے دہلی میں مظاہرین کے ساتھ حکومت کے غیر منصفانہ اور آمرانہ اقدامات کے خلاف جمہوری طرز پر آواز بلند کی تھی،اور جمہوری آئین کی روشنی میں اپنے بنیادی حقوق سٹیزن شپ کا تحفظ مانگا تھا یہ عمل نہ ہی ملک کے خلاف تھا نہ قانون کے،مگر باوجود اس کے ایوان حکومت کی نگاہوں میں یہ جرم ٹھہرا اور وہیں دلی فسادات سے ایک روز پہلے کپل مشرا کا یہ قول کہ،،ہم قانون ہاتھ میں لیکر ہر طرح شعلوں کی برسات کریں گے اور اس عمل میں پولیس یا کسی اور کو اہمیت نہیں دیں گے،،اسی طرح انوراگ کا نعرہ،، ملک کے غداروں کو گولی مارو سالوں کو،،جیسے اشتعال انگیز اور نفرت انگیز نعرے عین انصاف۔۔۔۔۔ملک میں حکومت کی جانب موجود تمام تدبیریں اور حفاظت کی تمام سرگرمیاں مذکورہ گرفتاری کے گھناؤنے اور پست اقدام کے آگے چغلی کھارہی ہیں کہ ظاہری طورپر سجایا جانے والا جواسٹیج ہے وہ اصل کردار نہیں ہے بلکہ اصل اور حقیقی کردار پس پردہ ہے'جو انتہائی بے شرمی کے ساتھ انجام دیا جارہا ہے، این آر سی اور سی اے اے کے حوالے سے طلباء جامعہ کے مظاہرے ہر لحاظ سے آئینی تھے اور حکومت کی ایک آواز پر انہوں نے اس مظاہرے کو ختم بھی کردیا تھا باوجود اس کے وائیرس کی جنگی صورتحال میں ان کے خلاف گرفتاری ہزار تاویل کے بعد بھی ببانگ دہل  یہ کہہ رہی ہے کہ یہ اقدام، حکومت کی بدترین ،غیر آئینی،آمرانہ اور ظالمانہ انتقامی کارروائی ہے'۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad