تازہ ترین

جمعرات، 21 مئی، 2020

عیدالفطر مغفرت عام اور انعامات خداوندی کا دن ہے!!

 مولانا انوار الحق قاسمی،نیپالی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
 بصد شوق و احترام مدت مدید اور عرصہ دراز سے، کلمہ گو حضرات جس حسین و سعید یوم کے مشتاق ومنتظر تھے، اس مبارک دن کی آمدمیں اب فقط   گنتی کے چند ایام رہ گئے ہیں ،وہ اب جلد ہی نمودار اور طلوع ہواچاہتا ہے، جسے مسلمان "عیدالفطر "کے نام سے جانتے ہیں، فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:قال النبي صلى الله عليه وسلم ان لكل قوم عيدا وهذا عيدنا. ہرقوم کے لئے عید کا دن ہوتا ہے، اور آج کے دن ہماری عید ہے ! یہ بابرکت اور قابل عظمت دن مسلمانوں کے لئے "یوم المغفرۃ والانعام" ہے ،اس دن میں فرشتے حکم خداوندی پانے کے بعد ،گلی کوچوں اور عام گذررگاہوں پر"روزہ داروں" کے استقبال میں کھڑے اور بیٹھے، یہ ندالگاتے رہتے ہیں ،کہ اے مسلمانو رب کریم و مغفور کے دروازے پر آؤ، وہ تمہارے لیے خیر و بھلائی سے معمور خزانے لیے ہوئے ہیں، اور تمہیں بہت سا اجر جزیل عطا فرمائیں گے، اور اس دن رب کریم وغفور بھی اپنے نیک بندوں ،بندیوں کی طرف بقلب وجگر متوجہ رہتے ہیں، اور ہر روزہ دار شخص کو اس کے بارسئیات ومعاصی سے خلاصی کا پروانہ عطا کر دیتے ہیں ،یہ ہیں ،اس روز کی چند عظیم خصوصیات۔

     یہ عفو درگزر اور معافی والا دن اس دنیائےآب وگل میں، اپنی حیات مستعار گزارنے والے مومنین کو "رمضان المبارک" کے انتیس یا تیس ایام کے حسین لمحات کے صدقے طفیل معطی  اکبر نے عطا کیا ہے، جن ایام میں مسلمان بطیب خاطر سحری تناول فرماتے ہیں،اور صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک ہرطبعی  ضرور یات مثلاکھانے ،پینے اور بیوی کےساتھ دل لگی کرنے سے قطعی گریز کرتے ہیں،  آفتاب کی تمازت اور گرمی کی شدت کی وجہ سے ان کے چہروں کی رونقیں بھی ختم ہوجاتی ہیں، ہونٹ پر سفیدی آشکارا ہوجاتی ہے، اور حلق خشک ہو جاتا ہے ؛مگر پھر بھی حکم خداوندی سے ذرہ بھی اغماض وروگردانی نہیں کرتے ہیں، بل کہ حقیقت تو یہ ہے کہ روزہ کی مشقتیں جس قدر بڑھتی ہیں ،ان سے کئی درجہ زائد امر ربانی کی محبت ومودت ان  کے قلوب میں مضاف ہو جاتی ہے ،افطاری کے بعد صائمین کا بدن(دن بھر بھوک پیاس کی شدت برداشت کرنے کی وجہ سے)بالکل چور ہو جاتا ہے، پھر بھی بسروچشم عشاء کی نماز، بیس رکعات صلاۃ تراویح اور تین رکعت وتر پڑھتے ہیں، ان عبادات کے علاوہ کثرت سے نوافل پڑھنے، قرآن کریم کی تلاوت کرنے اور ذکر الہی میں اوقات صرفی اور گزاری کا رمضان المبارک کے مہینے میں" روزہ داروں" کاعام معمول رھتا ہے ،جن سے خداوندقدوس مسرور ومفروح ہوکر،اس کرہ ارضی پر رہنے والے تمام مسلمانوں کے لیے، یہ جشن  کا دن منتخب فرمایا ہے،  یہ بڑا ہی مقدس  اور مبارک دن ہے، اس میں جتنی بھی خوشی اور فرحت و شادمانی کا اظہار کیا جائے کم ہی ہے؛ بل کے مسلمانوں کو چاہیے ،کہ وہ اپنے چال ڈھال،لباس فاخرہ اور اپنی شیرینی گفتگو اور نرم کلام کے ذریعے فرحت وبہجت کا اظہار کرے ،آج کے دن میں روزہ  نہ رکھنا فرض اور ضروری ہے، اور روزہ رکھناحرام اور سنت نبوی کے خلاف ہے؛ اس لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ اس  مقدس دن میں خوشیاں منانے میں کوئی کسر نہ چھوڑے۔

   روزہ اپنے حاملین  کے لئے اور قرآن اپنی تالیین کے لیے ،کل قیامت کے روز اپنے رب ذوالجلال اور رحمان و رحیم کے روبرو  سفارشی ہوں گے، روزہ کہے گا:کہ  اے عالمین کے خالق و مالک اس نے محض میری خاطر دن بھر  بھوک پیاس کی شدت اور نفسانی خواہشات کو برداشت کیا ہے، بس میری لاج رکھتے ہوئے، ہر روزہ دار کی بخشش فرما ؛چناں چہ باری تعالٰی  روزہ کی سفارش قبول فرمائیں گے،  اور ہرروزہ دار کو گناہوں سے نجات و خلاصی اور جنت کا پروانہ عطا کر دیں گے، اسی طرح قرآن کریم بھی  خالق الارض والسموات  کے حضور سفارش کرے گا: کہ ائے شہنشاہوں کے شہنشاہ  روزہ داروں نے محض میری خاطر دن بھر ،روزہ رکھنے کی وجہ سے تھکے ماندہ ہونے کے باوجود بھی، فقط تیری رضاوخوشنودی کی خاطر بلاناغہ رمضان المبارک کے ہرروز بعدنمازعشاء صلاۃ تراویح میں مجھے بصد شوق و احترام پڑھتے، سنتے اور اپنی محبوب وعزیز نیند کو قربان کرتے رہے ہیں؛ اس لیے ہر روزہ دار کو ان کے گناہوں سے دستبردار کر کے، انہیں جنت الفردوس میں جگہ دے دیا جائے ،چناں چہ باری تعالی ہر صائم  کے حق میں، اس کی بھی سفارش قبول فرما کر، انہیں ان کے گناہوں سے نجات اور جنت کی خوشخبری دیں گے ،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد عالی ہے:الصيام والقرآن يشفعان للعبديقول الصائم أي رب إني منعته الطعام والشهوات بالنهار فشفعني فيه ويقول القرآن منعته النوم فشفعني فيه فيشفعان.مشكوة شريف:۱۷۳/۱)ترجمہ: روزہ اور قرآن بندہ کے لیے(اللہ کےدربارمیں)سفارش کریں گے، روزہ کہے گاکہ ائےپروردگار!میں نے اس کو دن میں کھانے،پینے اور خواہشات سے روکے رکھا،لہٰذا اس کے بارے میں میری سفارش قبول فرما،اور قرآن کہے گا کہ ائے خالق کائنات! میں نے اسے رات کوسونےسے روکے رکھا، لہٰذااس کےبارے میں، میری سفارش قبول فرما؛چناں چہ ان دونوں کی سفارشیں قبول کی جائیں گی ۔ 

      خداوندعالم نے روزہ داروں کو روزہ کی حالت میں سرزد ہوئے لغویات فضولیات سےمجلی ومصفی کرنے کے لیے ،اور غرباء مساکین کو اپنی غریبی اور مسکینی پر شکوہ نہ کرنے اور اس خوشی میں صاحب ثروت حضرات کے مساوی شریک کرنے کے لیے، ہر اس شخص پر جو ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے سات تولہ سونا،یا اس کے بقدرضروریات  زندگی سے زائد روپےکا مالک ہو "صدقہ فطر "واجب قراردیا ہے، حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں: کہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے صدقۃ الفطر کو ضروری قرار دیا ہے، جو روزہ دار کے لئے لغو اور بےحیائی کی باتوں سے پاکیزگی کا ذریعہ ہے، اور مسکینوں کے لئے کھانے کا انتظام وانصرام ہے، جو شخص اسے عید کی نماز سے پہلے ادا کردے ،تو یہ مقبول زکوۃ ہوگی، اور جو اسے نماز کے بعد ادا کرے ،تو یہ عام صدقات میں سے ایک صدقہ ہے(ابوداؤد شریف :۱۶۰۹)، عید کا دوگانہ ادا کرنے کے لیے عیدگاہ کا رخ کرنے سے قبل صدقہ فطر ادا کرنا ضروری ہے ،اور بہتر تو یہ ہے کہ "یوم العید " سے چند روز قبل ہی" صدقۃ الفطر" غرباء و مساکین کے حوالے اور سپرد کردے؛ تاکہ وہ بھی عید کے لئے لباس اور کھانے پینے کامعقول  انتظام کرسکے۔

    عید کے دن سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم پہلے  غسل فرماتے ،مسواک کرتے،پھر نئے  یا موجود کپڑوں میں سےعمدہ کپڑے زیب تن کرتےاور خوشبولگانے کااہتمام کرتے ؛ چناں چہ سنت نبوی کے مطابق مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ عید کے دن غسل فرمائیں،  مسواک کریں اور نئےیا دھولے ہوئے کپڑوں میں، جو عمدہ کپڑے ہواسے  زیب تن کریں، اور خوشبو لگانے کابھی خوب  اہتمام کریں،  اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم عیدگاہ تشریف لے جانے سے قبل،  کچھ تناول فرما لیا کرتے اور جس راستے سے جاتے، تو واپسی میں دوسرے راستے سے گھر تشریف لاتے، حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا كان يوم عيد خالف الطريق.  چنان چہ ہر مسلمان کو چاہیے کہ اسوہ  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپناتے ہوئے ذکر کردہ چیزیں انجام دیں،  عیدین کی دوگانہ ادائیگی کے لئےخاتم النبیین  محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا، عید گاہ جانے کاعام معمول تھا ؛مگر ایک دفعہ عیدہی کے دن بارش ہوگئی ،تو بدرجہ مجبوری، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کی نماز مسجد میں ادا کی، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ناقل حدیث ہیں :أصاب الناس مطر في يوم عيد علي عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلي بهم في المسجد.(سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث :۱۳۱۳)۔

     عید کے اس پرمسرت دن میں احکم الحاکمین بطورفخر  فرشتوں سے عرض کرتے ہیں :کہ کیا بدلہ اور مزدوری ہے، میرے ان مطیع و فرمانبردار بندوں،  بندیوں کا ،جنہوں نے میرےا حکام واوامر  کو بجا لایا ہے ،فرشتے عرض گزار ہوتے ہیں، کہ ان کی پوری پوری مزدوری عطا کر دی جائے، تو رب العالمین فرماتے ہیں: کہ قسم ہے میری عزت وجلال، عظمت شان اور علو مرتبت کی ،کہ  ضروربالضرور ، ان کی دعاؤں کوشرف قبولیت  سے نوازوں گا ،اور پھر اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، اور فرماتے ہیں: کہ لوٹ جاؤ اپنے گھروں کو اس حال میں کہ، میں  نے تمہیں بخش دیا ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :کہ تمام مسلمان "نماز عید "کے بعد  بخشے بخشائے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں،  یہ ہےروزہ کی شان عظیمی کہ  باری تعالیٰ روزہ داروں سے خوش ہوکر، انہیں مغفرت اور جنت کی بشارت اور خوشخبری دے دیتے ہیں۔
  
 اب مسلمانوں کو چاہیے کہ جس طرح انہوں نے رمضان المبارک کے بابرکت لمحات میں رضائے الہی اور خوشنودی ربانی  کی خاطر باری تعالی کےہر ہر حکم کو اس کے منشاومرضیات  کے موافق و مطابق بروئے کار لائے تھے،بعینہ  اسی طرح رمضان المبارک کے بعد بھی خالق مطلق  کےہر ہر حکم کو بجا لائیں،اسی میں  من جانب اللہ صد فیصد کامیابی ہے ؛ورنہ اگر احکام ایزدی میں تساہل وغفلت سے کام لیں گے، اورپھررمضان المبارک کے انتظار میں، گیارہ مہینے فرمان خالق سےچشم پوشی اورروگردانی کریں گے، توپھر کسے معلوم کہ آئندہ رمضان المبارک کابابرکت مہینہ ،اسے نصیب ہوگا؛اس لیےزندگی کے اس مختصر لمحات کو منشائے خداوندی کےمطابق گزارنےکی حتی المقدور سعی و کوشش کریں،اللہ تبارک و تعالٰی تمام مسلمانوں کو اپنے ہر ہر حکم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad