تازہ ترین

بدھ، 20 مئی، 2020

عید الفطر کا پیغام،غفلت شعاروں کے نام

از قلم:مفتی عبدالمبین نعمانی قادری دارالعلوم قادریہ،چریاکوٹ مؤ(یوپی)
    عید کیا ہے؟ عید کا ایک عام سا مفہوم ہے خوشی کا دن جو ہر سال لوٹ کر آئے، یہ دنیا کی ہر قوم میں پایا جاتا ہے لیکن اسلام نے عید کے دن کو محض خوشی و مسرت کا دن نہیں قرار دیا ہے بلکہ اس نے خوشی و مسرت کے دن کے ساتھ ساتھ اسے تسبیح و تہلیل، ذکر و عبادت اور اپنے مسلمان بھائیوں میں جو محتاج اور مفلوک الحال ہیں ان کی امداد وغم گساری کا دن بھی قرار دیا ہے۔ اور خوشی و مسرت کے نام پر دوسری قوموں میں جو ہر طرح کی آزادی پائی جاتی ہے کہ شریعت و اخلاق کے خلاف بھی جس کو جو سمجھ میں آتا، کر گزرتا ہے۔ ان کی عیدوں میں عورتوں کی بے پردگی، فحش ہنسی مذاق، اور طرح طرح کی برائیوں کے مظاہر عام ہوتے ہیں۔اسلام ایک پاکیزہ مذہب ہے اس کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ شادی بیاہ کا موقع ہو، یا عید کا، ہر موقعے پر اسلام اپنے ماننے والوں کو اخلاقی اور شرعی حدود کا پابند بناتا ہے اور انہیں بے لگام نہیں چھوڑ دیتا کہ جیسے چاہیں رنگ رلیاں منائیں، جیسے چاہیں گل چھرے اڑائیں، مسلم بندہ اپنے پیغمبر اسلام علیہ السلام کی ہدایات کا بہرحال پابند ہے۔اور جو پابندی نہیں کرتا وہ سچا مسلمان ہرگز نہیں ہو سکتا۔

    ماہ محرم کی یادگار منانے کا وقت ہو یا عید میلاد النبی کے جشن کا موقع،شبِ برات و شب معراج کا زمانہ ہو یا گیارہویں شریف کی تقریبات،کہیں بھی مسلمان کو شریعت کے دائرے سے باہر جانے کی اجازت نہیں، عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ تو مسلمانوں کی ایسی عیدیں ہیں کہ ان میں دینی وقومی تقاضوں کی تکمیل کے صدہا راز مضمر ہیں۔ عید الفطر ہو یا عیدالاضحیٰ (یعنی عید قرباں) ہر ایک میں بندگان خدا کو رب سے قریب کرنے اور رب العالمین کی عبادت بجا لانے والے اعمال کی تلقین کی گئی ہے ساتھ ہی حقوق العباد کی ادائیگی کا بھی ان میں بہت بڑا درس ہے۔

عید میں کیا کریں:
(١)عید الفطر کی دو رکعت نماز ادا کریں اورنماز کے بعد خطبہ سنیں۔
(٢)عید الفطر کی سنتوں اور مستحبات پر عمل کریں، مثلا نہا دھو کر، اچھے کپڑے پہن کر، مسواک کرکے خوشبو لگا کرعیدگاہ جائیں۔ 
(٣)ایک راستے سے جائیں،دوسرے راستے سے واپس آئیں تاکہ عید کی خوشیوں کا زیادہ سے زیادہ مظاہرہ ہو اور اسلام کی شان و شوکت کا زیادہ سے زیادہ اظہار ہو سکے۔
(٤)نماز عید الفطر سے پہلے صدقہ فطر کی رقم ادا کریں جو غریب مسلمانوں کی خوشیوں کا سبب بنے اور اس سے ان کی ضروریات بھی پوری ہوں۔
(٥)امیر غریب سب سے خوشی خوشی ملیں،مصافحہ، معانقہ کریں اور عید کی مبارکباد دیں۔
(٦)آپس میں میٹھی چیزوںکے کھانے کھلانے کا سلسلہ بھی اچھا ہے،اسے بھی قائم رکھیں اور عید گاہ جانے سے قبل تو طاق عدد میں کھجوریں کھا کر عید گاہ جانا سنت ہے۔کھجوریں نہ ملیں تو کوئی بھی میٹھی چیز اس کی جگہ کھا سکتے ہیں۔ غالباً اسی وجہ سے اس کو میٹھی عید بھی کہتے ہیں۔
(٧)اس مبارک و پُرمسرت دن میں ماہ رمضان کے روزوں کی تکمیل اور خوشیوں کی سوغات ملنے پر حضرت رب العزت کا خوب خوب شکر ادا کریں اور اس کی نعمتوں کو یاد کریں۔کہ نعمتوں کا شکر ادا کرنے سے نعمتیں دوبالا ہوتی ہیں اور رب کی رضا بھی حاصل ہوتی ہے۔
(٨)عید کے دن فرصت ملے تو قرآن پاک کی تلاوت، دینی کتابوں کے مطالعے اور ذکراذکار میں مصروف رہیں۔بلاوجہ وقت گنوانا بڑی محرومی کی بات ہے۔
(٩)گناہ کے کاموں سے ہردن بچنا لازم ہے۔عید کے مبارک دن میں خاص طور سے گناہ کے کام مثلاً، لوڈو، شطرنج،تاش، گانے باجے، اور فحش تصاویر دیکھنے سے ضرور پرہیز کریں۔
(١٠)پاس پڑوس والوں اور رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کریں، تحفے تحائف کی تقسیم بھی ایک طرح کا حسن سلوک ہے۔یہ ہر دن کے لیے اچھی چیز ہےکہ اس سے محبت بڑھتی ہے، عید کے دن خاص طور سے اس کا خیال رکھیں۔
(١١)پاس پڑوس یا رشتہ داروں میں کوئی بیمار ہو تو اس کی عیادت بھی کریں۔ 
(١٢)کسی سے لڑائی جھگڑا ہوگیا ہو یا بات چیت بند ہو تو بلا تاخیر عید کے دن ان سے ملیں، ہو سکے تو دعوت دے کر کوئی پسندیدہ چیز کھلائیں تاکہ میل محبت پیدا ہو اور خصومت(جھگڑے)کا اثر دور ہو۔
(١٣)ایک خاص بات عید کے دن یہ بھی دیکھنے میں آتی ہے کہ نوجوان لوگ بے تحاشہ بائک پربیٹھ کر اور وہ بھی کئی کئی سواریوں کے ساتھ خوب فرّاٹے لے کر اندھا دھندھ گاڑیاں چلاتے ہیں، اس سے پرہیز کرنا بھی ضروری ہے۔عید کے علاوہ دنوں میں بھی ایسی حرکتوں سے باز رہنا چاہیے کہ اس سے بڑے بڑے نقصانات ہوتے ہیں اپنے بھی اور راہ چلتے دوسرے لوگوں کے بھی۔اسلام ایسی چیز کی سختی سے ممانعت کرتا ہے۔جس سے اپنا نقصان ہو اور دوسروں کا بھی۔خاص طور سے حدیث پاک میں اس کی ممانعت آئی ہے۔ سرکار دوعالم علیہ السلام نے فرمایا؛ لا ضَرَرَ ولا ضِرَارَ (جامع صغیر)۔

عید کا دن ہے گلے آج تو مل لے ظالم
رسم دنیا بھی ہے موقع بھی ہے دستور بھی ہے

افسوس کہ ہم اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ عید کا دن کون سا دن! جس دن اللہ عزوجل فرشتوں کو گواہ کرکے کہتا ہے! اے میرے ملائکہ گواہ رہنا میں نے آج اپنے بندوں کو بخش دیا۔۔ سوچنے کا موقع ہے کہ جس دن رب تبارک و تعالیٰ بخشش کا اعلان فرماتا ہے اسی دن سے ہم گناہوں کے اڈوں کو آباد کرنا شروع کر دیتے ہیں، کتنے وہ ہیں جو پورے ماہ رمضان کو پاکیزگی کے ساتھ گزارتے ہیں لیکن عید کی نماز پڑنے کے بعد ہی سے وہ اپنے منہ سے چھوٹی ہوئی دخت رز (شراب ِخانہ خراب) کو دوبارہ منہ سے لگا لیتے ہیں اور اس مبارک دن کی کچھ پرواہ نہیں کرتے۔کیا ایسے لوگ رب کائنات کا کچھ بھی خوف نہیں کرتے؟حساب آخرت کی ذرا بھی پرواہ نہیں کرتے؟ خدا کے عذاب سے کچھ بھی لرزتے کانپتے نہیں؟آج کا دن غفلتوں میں گزارنے کا دن نہیں ہے ماہ رمضان مبارک میں ہمیں روزوں کی جو برکتیں ملیں، تراویح اور تلاوت قرآن پاک سے جو نعمتیں حاصل ہوئیں،نمازوں کی جو پابندیاں کیں ان سب اخروی سوغاتوں کو سمیٹ کر رکھنے اور اپنے نامہ اعمال کو ان کے انوار سے روشن کرنے،گناہوں کے اڈوں سے دور رہنے کی ضرورت ہے۔

    کیا شب قدر کی شب بیداری کو بھول گئے؟اس کی نورانیت اور برکت کو نظر انداز کردیا؟ کیا شب قدر اور رمضان المبارک کے وسیلے سے ہمارے گناہوں کی جو بخشش ہوئی،اعمال نامے گناہ کی سیاہیوں سے دھلے گئے،انہیں یکسر ذہن و دماغ سے نکال کر پھینک دیا؟دنیا میں اگر کوئی ہمارے ساتھ ذرا سا بھی احسان کرتا ہے تو اسے زندگی بھر نہیں بھولتے، اور رب العالمین کے احسانات کو جلد ہی بھلا بیٹھے، دنیا والا کوئی نقصان پہنچانا چاہے توکوئی ہمارا ہمدرد روک بھی سکتا ہے؟کیا اللہ کے عذاب سے بھی کوئی بچانے والا ہے؟اگر وہ عذاب دیناچاہے،تو غور کریں ہم کیا کچھ کرسکتے ہیں؟یہاں کی دنیا کا سارا جاہ و جلال اور متاع ومال حتیٰ کہ اولاد سب فنا ہوجائیںگے،کام آنے والے نہیں،اِلَّا مَن اَتی اللّٰہَ بِقَلْبٍ سلیمٍ(شعرائ:26،آیت 89)ہاں مگر جو مسلمان سلامتی والا دل لے کر اس کے حضور حاضر ہوا۔ جس کا قلب سلیم ہوگا، وہ راہ راست سے دور نہیں ہوگا۔اپنا مال گناہوں میں برباد نہیں کرے گا۔ روزہ ماہ رمضان کی قدر دل میں ضروررکھے گا۔تو عید کے دن ہی سے رب کو کیوں بھول جاتے ہیں؟گناہوں میں کیوںمشغول و منہمک ہو جاتے ہیں؟وہ سوچیں غور کریں،عید کے دن کی قدر و عزت پہچانیں، اور روزوں کی برکتوں سے سال بھر اپنے کوتقویٰ شعاری کا عادی بنائیں اور شیطان کے مکر و فریب سے اپنے کو دور رکھیں۔

    ذرا اس پر بھی غور کریں کہ کتنے لوگ وہ ہیں جو مسلمان ہیں عیدالفطر کی پوری تیاری کرتے ہیں۔ کیسی تیاری، کپڑوں کی تیاری، سوئیوں اور کھانے پینے کے سامانوں کی تیاری، گھر دوار سجانے کی تیاری، لیکن اصل تیاری نماز عید کی تیاری ہے۔اس کی بہت سے لوگ کوئی تیاری نہیں کرتے، یعنی نماز کے مسائل نہیں جانتے اوراس کے لیے کوشش بھی نہیں کرتے ہیں، یہاں تک یاد نہیں کرتے کہ عید کی نماز میں کتنی زائد تکبیریں ہیں۔ کس رکعت میں پہلے اور کس میں قرائت کے بعد؟اس لیے اب آخر میں نماز عید الفطر کا طریقہ لکھا جاتا ہےتاکہ سب لوگ غور سے پڑھ کر پہلے ہی سے تیاری کر لیں۔

نماز عید کا طریقہ:
    نماز عید کا طریقہ یہ ہے کہ دو رکعت واجب عیدالفطر (یا عیدالاضحیٰ)کی نیت کر کے کانوں تک ہاتھ اٹھائے اور ا? اکبر کہہ کر ہاتھ باندھ لے پھر ثنا پڑھے پھر کانوں تک ہاتھ اٹھائے اوراللہ اکبر کہتا ہوا ہاتھ چھوڑ دے پھر ہاتھ اٹھائے اور اللہ اکبر کہہ کر ہاتھ چھوڑ دے پھر ہاتھ اٹھائے اور اللہ اکبر کہہ کر ہاتھ باندھ لے یعنی پہلی تکبیر میں ہاتھ باندھے، اس کے بعددوتکبیروں میں ہاتھ لٹکائے پھر چوتھی تکبیر میں باندھ لے۔ اس کو یوں یاد رکھے کہ جہاںتکبیر کے بعد کچھ پڑھنا ہے وہاں ہاتھ باندھ لیے جائیں اورجہاں پڑھنا نہیں وہاں ہاتھ چھوڑ دیے جائیں، پھر امام اعوذ اور بسم اللہ آہستہ پڑھ کر جہر کے ساتھ الحمد اور سورت پڑھے پھر رکوع و سجدہ کرے۔اور دوسری رکعت میں پہلے الحمد و سورت پڑھے پھر تین بار کان تک ہاتھ لے جا کر اللہ اکبر کہے اور ہاتھ نہ باندھے اور چوتھی بار بغیر ہاتھ اٹھائے اللہ اکبر کہتا ہوا رکوع میں جائے، اس سے معلوم ہوگیا کہ عیدین میں زائد تکبیریں چھ ہوئیں، تین پہلی میںقراء ت سے پہلے اور تکبیر تحریمہ کے بعد اور تین دوسری میں قراء ت کے بعد، اور تکبیر رکوع سے پہلے اور ان چھووں تکبیروں میں ہاتھ اٹھائے جائیں گے۔(درمختار وغیرہ بحوالہ بہارشریعت)عید کی نماز پڑھنے والوں سے گزارش ہے کہ ہمیشہ عید یا بقرعیدکی نماز کے لیے وقت سے پہلے ہی عیدگاہ آنے کی کوشش کریں۔فجر کے بعد کا وقت صرف نماز کی تیاری میں لگائیں۔کچھ لوگ فجر کے بعد ہی سے دوسرے کاموں میں مصروف ہو جاتے ہیں اور جب نماز کا وقت بالکل ہو جاتا ہے تب وہ اپنے گھروں سے نکلتے ہیں۔اور دوڑتے ہوئے عیدگاہ پہنچتے ہیں۔ایسے میں کئی لوگوں کی نماز ہی چھوٹ جاتی ہے یا ایک رکعت چھوٹ جاتی ہے پھر انھیں یہ بھی نہیں معلوم کہ اب کیا کریں۔

ایسے لوگ توجہ دیں مسئلہ یہ ہے کہ پہلی رکعت میں امام کے تکبیر کہنے کے بعد مقتدی شامل ہوا تو اسی وقت تین تکبیر کہہ لے اگر چہ امام نے قراء ت شروع کر دی ہو اور اگر اس نے تکبیریں نہ کہیں کہ امام رکوع میں چلا گیا توکھڑے کھڑے تکبیریں نہ کہے۔بلکہ امام کے ساتھ رکوع میں جائے اور رکوع میں تکبیریں کہہ لے۔اور اگر امام کو رکوع میں پایا اور غالب گمان ہے کہ کھڑے تکبیریں کہہ کر امام کو رکوع میں پا لے گا تو کھڑے کھڑے تکبیریں کہے پھر رکوع میں جائے اور اگر امام کو نہ پانے کا خوف ہو تو اللہ اکبر رکوع میں جائے اور رکوع میں باقی تکبیریں کہے۔پھر اگر اس نے رکوع میں تکبیریں پوری نہ کیں کہ امام نے سر اٹھا لیا تو باقی تکبیریں ساقط (معاف)ہو گئیں۔اور اگر امام کے رکوع سے اٹھنے کے بعد شامل ہوا یا دوسری رکعت میں جب امام کھڑا تھا شامل ہواتو اب تکبیریں نہ کہے بلکہ جب اپنی فوت شدہ پڑھنے کھڑا ہو اس وقت کہے۔(ملخص از بہار شریعت)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad