تازہ ترین

جمعہ، 22 مئی، 2020

عید کا پیغام ..مسلمانوں کے نام

از: محمدطاسین ندوی 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہم پر اللہ تعالی کا بے پایہ احسان،انعام اور فضل وکرم ہوا کہ ماہ رمضان مبارک  زندہ و تابندہ، بہت ہی عمدگی و اہتمام کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچ رہاہے، اب انعام باری تعالی -جس کا انتظار ماہ مقدس کی ابتداء ہی سے رہتا ہےـ دو ایک دن کے بعد بشکل عید الفطر ہم مسلمانان عالم کو ملنے ہی والا ہے. عید اللہ کا انعام اور خوشیوں پیغام ہے عید کے دن عام طور پر ہر فرد و بشر کی یہ خواہش ہوتی ہیکہ ہم اپنے اہل و عیال اور افراد خانہ کو خوش کرنے کے لئے کوئی دقیقہ و لمحہ فروگذا شت نہ کریں حتی الوسع ان کے لئے نئے جوڑے، نئے کپڑے،نئے جوتے عمدہ اور دل کو بھانے والے برتنے  کے سامان اور اشیاء خوردو نوش کا انتظام کرے، لیکن کیا بس اتنا ہی کرلینا کافی و شافی ہے؟ یقینا نہیں اصل نکتہ اور پوئنٹ یہ کہ اپنوں ،پیاروں اعزہ واقارب کے ساتھ اگر ہمیں اپنے ہمسایوں ،پاس پڑوس میں رہنے بسنے والوں،قصبہ اور محلہ کے بیواؤں، یتیموں، غریبوں، ناداروں کی فکر دامنگیر رہے 

ہم ان کی باز پرسی  کریں ان سے معلومات کریں کہ انکی عید کا  عالم کیا ہونے والا ہے کیسے وہ اپنی عید منائیں گے آیا ان کے پاس کچھ ہے جس کے ذریعہ وہ اپنے اہل وعیال، اہل خانہ کے دلوں میں سرور داخل کرسکیں یا وہ مفلوک الحال، مفلس، غریب و نادار ہیں،  اگر اس شخص کا  درجہ ثانی الذکر زمرہ میں ہے تو ہمارے اوپر ہماری طاقت و قوت اور حیثیت کے مطابق یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہیکہ ہم اپنی محنت کی کمائی میں سے جو میسر ہو انکے نام کریں کیونکہ "خیرالناس بما ینفع الناس " لوگوں میں سےسب سے بہتر وہ ہیں جو دوسروں کے کام آئے  اور یہ تو انکا حق ہے جو چیزین  اللہ کے حضور گئی وہ  ہمیشہ ہمیش قائم رہنے والی ہوجاتی اور جو ہمارے پاس رہتی ہو اسکا ختم ہونا  ایک امر یقینی ہے "ماعندکم ینفد وماعنداللہ باق " .

قارئیں محترم!  ہم نے برکتوں، رحمتوں، فضل وکرم والا مہینہ تو بتوفیق الہی حتی المقدور صدقہ و خیرات کرکے ، افطارو سحر کی فضائل سے مستفید ہوکر، فقراء و مساکین کا بھر پور خیال رکھ کر گزارا.  لیکن کیا یہ سلسلہ صرف ماہ رمضان مقدس ہی تک محدود ہوکر رہ جائیگا یا اگے آئندہ بھی اس لائحہ عمل پر گامزن رہنے کی مساعئ جمیلہ کی جائیگی.آئیے اس بارے میں ہم فکر کرتے ہیں کہ ماہ رمضان میں ہم نے سنت،نفل،اور فرض کا غایت درجہ لحاظ و احترام کیا قیام اللیل کی بھی فکر رہی روزہ جو فرض تھا اسے بھی کماحقہ رکھنے کی جہد پیہم کیا، اب عید کے شادیانے بج چکے ہیں کیا ساری گذشتہ چیزیں شادیانے اپنے ساتھے لے گئے یا ہم نے اپنے ذی ہوش اور باشعور ہونے کا ثبوت دیکر اسکو زندہ و تابندہ رکھنے کی جہد ہیہم بھی کیا؟ اس کا فیصلہ آپ کو خود کرنا ہوگا کیونکہ ہم مسلمان ہیں  خیر امت ہمارا لقب ہے کنتم خیرامت  تم ہی سب سے بہتریں امت ہو اس روئے زمین پر  اللہ جل جلالہ نے ہم کو اس لقب سے ملقب فرمایا اور یہ لقب متقاضی ہے اس بات کا کہ ہم اپنا عمدہ اوربہتر ہونے کا ثبوت ضرور فراہم کریں تو کیا ہم اپنی عمدگی اور بہتری کا ثبوت  صرف ایک خاص  رحمت وبرکت اور فضل والا مہینہ تک  سمیٹ کر رکھ دیں گے؟

نہیں بالکل نہیں ہمیں تو اب اور زیادہ فکر کرنی ہوگی ابھی ہم سے ہمارا مہمان مکرم بہت عمدہ پیغام و ہدایات دیکر رخصت ہوا ہے ہمیں اس ہدایات کے مطابق اپنی زندگی کی چکی کو چلانے کی فکر کرنی ہوگی کیونکہ باری تعالی نے ہمیں سب سے عمدہ اور بہتر کہا ہے اپنے پاس پڑوس اور اعزہ واقارب کا ہمیشہ خیال رکھنا چاہئیے صلہ رحمی کو حرزجان بنانا چاہئیے کیونکہ فرمان نبوی ہے لیس الواصل بالمکافی انما الواصل اذانقطع رحمہ وصلہ .. یقینا صلہ رحمی تو یہ ہیکہ ایک فرد اپنے کو دور کرے علاحدہ کرے تو دوسرا اس سے جڑے  اور قریب ہو صلہ رحمی کرے ..ہم سے غمخواری، غمگساری کا مہینہ تو رخصت ہوا لیکن اس فعل حسن کو ہم اپنی ذات سے رخصت نہ کریں جیسے ہم نے اپنے پاؤں کو پھونک کر ماہ مقدس میں رکھا تھا اسی طرح اس کے علاوہ ایام و مہنیے میں رکھیں کیونکہ سارے مہینے اللہ تعالی ہی کے بنائے ہوئے ہیں، شیطان مردود تو ہمارے رگ و ریشے میں خون کے مانند ڈور لگاتا ہے اسے فکر ہوتی ہیکہ نیک بندہ نیکی نہ کر پائے بلکہ ہماری شیطانی مکر و فریب پر عمل پیرا ہوکراپنی عاقبت کو داؤ پر لگائے. ہم شیطان کے مکرو فریب اورچالبازی کو سمجھیں اور اس سے اجتناب کی ہر ممکن کوشش و اقدامات کریں ہم احکام خداوندی کے پابند ہوں اور نماز کے ایسے پابند ہوجائیں جیسےرمضان مقدس میں پابند تھے نماز تو ایک ایسی عبادت ہے جس کے بارےمیں فرمان باری تعالی ہے "بلاشبہ نماز فحش وغلط اور منکر باتوں سے روکتی ہے".

ہم حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کا بھی خیال رکھیں کیونکہ حقوق اللہ تو اللہ معاف فرمائیں گے لیکن حقوق العباد کی معافی اسوقت تک معلق ہو گی جب تک بندہ معاف نہ کرے، توہم حقوق العباد کا خیال کریں اپنے روز مرہ کی زندگی میں اور جہاں تک بن پڑے دوسرے کا کام آنے والا بھی بنیں، حلال وحرام کی پہچان ہو مشتبہ اشیاء سے اجتناب کریں، اپنے آل و اولاد کی تعلیم و تربیت کی فکر اوڑھیں وہی مستقبل کے قائد، راہبر،پیشوا ہیں ان کو اب محاذ سنبھالنا ہے  .کیونکہ لب بام آچکاہے آفتاب اپنا.ہم احکام الہی فرامین رسول خدا کا پاسدار ہو کر اپنی زندگی کے ایام گزاریں اپنے اوقات کی قدر کریں ان دنوں جس درد و کرب کے دور سے ہم گزر رہے ہیں وہ نہایت پر فتن، پرآشوب، دجالی دور ہے اپنے کو اور اہل و عیال کو اس کے فتنے اور  دجالی مکرو فریب سے بچا کر رکھنے کی کوشش کریں اور اللہ سے دعائیں کریں کہ اللہ اس فتنہ سے محفوظ رکھ ابھی پوری دنیا معطل اور فارغ ہے کیونکہ ایک آفت ناگہانی نے پوری دینا کو مبہوت کر رکھا ہے انسانیت خوف و ہراس کا شکار ہے  یہی موقع ہے رب سے لو لگانے اور اسکو راضی کرکے اپنے مستقبل و آخرت کو سنوارنے اور تابناک بنانے کا،  ہمیں چاہیئے ہم اپنے کو اللہ تعالی سے ایسے جوڑیں جیسے ماہ رمضان میں جوڑنے کی کوشش کی تھی . ہم اپنے دین سے اس قدر دور ہوجاتے ہیں کہ ہمیں اللہ تعالی کی عطاء کردہ انعامات اور خوشیاں  کی کوئی قدر نہیں ہوتی  او ر نہ ہی غضب الہی سے ڈر کر اپنے دامن بچانے کی فکر کرتے ہیں  .اللہ ہم سبہوں کو قدرداں بنائے اور جادۂ حق پر گامزن رہنے کی توفیق دے. آمین یارب العالمین انہ ھو الموفق الی الصراط المستقیم

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad