تازہ ترین

منگل، 19 مئی، 2020

فہیم اختر کے افسانوں میں ناسٹلجیا

ڈاکٹر ولاء جمال سعد احمد العسیلی ایسو سئیٹ پروفیسر-اردو ڈپارٹمنٹ  فیکلٹی آف آرٹس عین شمس یونیورسٹی  قاہرہ -مصر
ہر عہد كا  اپنا ايک مزاج ہوتا ہے اوراپنى ترجيحات بھى ہوتى ہيں - ويسے تو  ہر نسل كا اديب اپنى ذات اور اپنے عہد كى عكاسى كرتا ہے- اپنے مخصوص انداز ميں اس كا تخليقى اظہار بھى كرتا ہے- آج كى نسلِ نو  دل جمعى كے ساتھ اردو زبان وادب كى  خدمت ميں مصروف ہے- اس نے معاصر دنيا كو اپنى ادبى تخليقات ميں پيش كيا ہے- جس ميں سياسى، سماجى، معاشى، اخلاقى، تہذيبى اور اقتصادى معاملات كو ادبى شكل ميں پيش كيا ہے-

بے شك ہر اديب جس سماج ميں زندگى گزارتا ہے- اس سماج كى روايات،  اقدار اور تہذيب كو وه شعورى اور لاشعورى طور پر قبول كرتا ہے- اور اپنى تخليقات  فنكارانہ طور پر پيش  كى ہے- دوسرى طرف زندگى كے بدلتے ہوئے حالات وواقعات اور حادثات كى ايسى منظر كشى كرتا ہے- جو  اس كے داخلى جذبوں كى ترجمان بن جاتى ہيں- اس سلسلے ميں بيرون ممالک ميں مقيم اردو اديبوں كے ادبى كام كو اردو زبان وادب كے فروغ ميں ادبى اور تحقيقى كاوشيں منظر عام پر آتى ہيں- وطن سے دور تخليقى سرگرميوں سے وابستہ افراد كى انفراديت ادبى طور پر سامنے آتى ہے-

ہمارے عہد كى نسلِ نو اردو  اديبوں ميں لندن ميں مقيم اديب  فہيم اختر كا شمار ہوتا ہے- اس لئے كہ ان كے افسانوں ميں ناسٹلجيا كى جھلک بخوبى محسوس ہوتى ہے- ديارِ غير ميں جب مٹى كى خوشبو، تہذيب وثقافت اور اقدار، اپنوں سے دورى كا رنج، بچپن اور وطن كى ياديں، وطن ميں نئے مسائل، نئى تكاليف، نئى آزمائشيں، ادبى پيكر ميں ڈھل جاتى ہيں تو  اس كا مطلب ناسٹلجيا ہے-

فہیم اختر کے افسانوں ميں ناسٹلجيا   بنيادى سطح پر ابھر كر آتى ہے-  مثلا (آخرى سفر، ديوداسى، ركشہ والا، رشتوں كا درد، كتے كى موت، وغيره اہميت كى حامل ہيں-

فہيم اختر  اپنے وطن سے بے پناه محبت ركھتے ہيں اور اپنے ملک كى زندگى اور حال كى كربناكى پيش كرتے ہيں- ہندوستان ميں پسمانده طبقے  كى سماجى نابرابرى ،  معاشى مجبورياں، تہذيبى كشمكش، رشتوں كى پامالى،   كسانوں اور مزدوروں كے مسائل كى عكاسى ان كے افسانوں سے  ہوتى ہے- مثال كے طور پر فہيم اختر  اپنے افسانے "آخرى سفر" ميں  گاؤں كے  غريبوں كى مجبورى اور بے بسى  كا اظہار كرتے ہيں- جو پيسے كى كمى اور غربت كى وجہ سے بڑے  ہسپتال ميں علاج حاصل نہيں كر سكتے ہيں-  ان كے افسانہ "آخرى سفر" كےخاتمے كو  دیکھیں:

(ڈاكٹر پارتھوبوس اخبار پڑھنے ميں مصروف تھے كہ ان كى نظر اس جلى حرفوں سے لكھى ہوئى خبر پر پڑى كہ حاجى پور اسٹيشن پر ايك غريب مفلوك الحال كسان كے لڑكے كى لاش پڑى ملى، جو اپنى علاج كى خاطر كلكتہ آنے والا تھا، مگر ٹرين پر سوار نہ ہو سكنے كى وجہ سے اس كى موت پليٹ فارم پر ہى واقع ہو گئى-)

يہ غربت كبھى كبھار  انسان كو كچھ كرنے پر مجبور كرتى ہے-  ہم  ان كے افسانہ (ديوداسى) ميں  يہ بات اچھى طرح ديكھ سكتے ہيں  جو لندن كے پس منظر پر لكھا گيا تھا- اس كے علاوه آج  كا  انسان جس ذہنى كرب واذيت ميں مبتلا ہے اس كا اظہار فہيم اختر كے يہاں بھى پايا جاتا ہے- وه زندگى كے حقائق كى تلاش ميں سرگرداں رہتے ہيں- افسانہ كا  مركزى كردار "كرم" جاننا چاہتا تھا  دوسرا مركزى كردار "كاما" كيوں ديوداسى بن گئى- اس كا جذبہ جستجو تشنہ تھا- بالآخر  وه سارى حقيقت سے روشناس ہو چكا ہے - ايک اقتباس  "كاما" كى زبانى ہے:

(ميں بھى ايك عام بچى كى طرح جنمى تھى- مگر حالات اور غريبى نے مجھے ديوداسى بنا ديا- ميرى ماں بچپن ہى ميں پرلوک سدھار گئى تھى- بہت دنوں تك پتا نے مزدورى كر كے گھر كا خرچ چلايا- مگر بھائى بہنوں كا خرچا اور باپ كى خراب صحت نے ہمارى غريبى كو اوربھى سنگين كرديا- كچھ حد تک پڑھائى مكمل كرنے كے بعد مجھے لندن آنے كا موقع ملا- يہاں آنے كے بعد بہت دنوں تك كام كى تلاش ميں بھٹكتى رہى- جب ميں اور زياده برداشت نہ كر سكى تو ميں نے فيصلہ كيا كہ اب ديوداسى بن كر جيوں گى-)

فہيم اختر كے يہاں مشرق اور مغرب كى تہذيب كے اثرات كا شعور  ہے- ايک خاص تہذيبى اقدار كا نظام اپنے ساتھ لے كر چلتا ہے- اگر ہم بغور ديكھيں تو ہميں پتہ چلے گا كہ ان كے افسانوں  كا بنيادى خمير ہندوستانى ثقافت سے والہانہ لگاؤ ہے- بعض افسانوں ميں يوروپى ممالک ميں بھى زياده تر انہيں فكرى رويوں كا عكس ملتا ہے- مغرب  كى مخصوص تمدنى، تہذيبى اور معاشى زندگى  كے مركزى ذہن كى عكاسى كى گئى ہے-  اور اس كے مقابل ہندوستان سے ان كى ارضى وابستگى كو خصوصى طور پر نماياں  كيا گيا ہے-

مثال كے طور پر ان كا افسانہ "كتے كى موت" جس ميں انسان اور جانور كا موازنہ مغربى ذہنيت كى عكاسى كرتا ہے- جہاں ماں كى موت سے زياده كتے كى موت كا اثر فرد پر زياده گہرا اثر ہوتا ہے –  دو اقتباسات پيش كرتى ہوں  جن سے  مغربى ذہنيت اور تہذيبى تصادم ظاہر ہوتى ہيں:


 پہلا اقتباس:
(آفس كے مين دروازے  كے پاس كچھ لوگوں كى بھيڑ جمع ہے- جيسے ہى ميں اس بھيڑ ميں تذبذب شامل ہونا چاہا، ڈيوڈ كو وہاں تصويرِ غم بنا كھڑا پايا- گويا اس كے كسى عزيز كى اچانک رحلت ہو ، ميں نے گھبرا كر دور سے آواز  لگاتے ہوئے احوال معلوم كيا-


-"ڈيوڈ! آريو آل رائٹ؟"-
ليكن وه كچھ نہيں كہہ سكا جيسے اس كى قوتِ گويائى چلى گئى ہو- وہاں كھڑے ایک شناسا تماش بين نے انكشاف كيا كہ ڈيوڈ نہايت غمگين ہے كہ اس كا   كتّا دنيا سے  چل بسا ہے- ميں نے تيزى سے نزديك آ كر ڈيوڈ سے مخاطب ہونے كى كوشش، ليكن وه اپنے اطراف كے ذى روح ماحول سے بے نياز ہو كر ايک مرده جانور كے سانحہء مرگ پر بے بس كھڑا خاموش آنسو بہا رہا تھا-)


دوسرا  اقتباس:
  (- "ڈيوڈ ، آئى ايم سورى، مجھے كل ہى تمہارى ماں كى موت كى خبر معلوم ہوئى-"

- "اوه ہاں، مائى مدر ..."

- "تم، تم ٹھيك تو ہو؟"

- "اوه، يس وه بوڑھى تھى يار، donot worry "

ڈيوڈ يہ كہه كر ہنستے ہوئے گاڑى ميں بيٹھ گيا-)

اور ان كا افسانہ "رشتوں كا درد" جس ميں  مركزى كردار "منوج"  ايک ماں اور اس كى بيٹى  دونوں سے ايک پيار كا رشتہ قائم كرتا ہے- كيونكہ مغرب ميں اكثر  خاندان ایک ہى گھر ميں نہيں رہتے- اس ليئے بيٹى كو نہ پہچانتا ہوا ، وه بيٹى سے شادى كرنا چاہتا تھا- وہاں سب سے بڑا نقصان بلاشبہ رشتہ ٹوٹ جانا ہے- وہاں بھى جيسا كہ ہم جانتے  ہيں  كاروبارى سوچ اور كاروبارى اقدار غالب ہونا  ہے-

جس خطے كو اپنا وطن بنايا وہاں كى تہذيب وتمدن اور سماج ومعاشره ان كے اپنے معاشرے سے يكسر مختلف ہے-  انہوں نے برطانيہ كو اپنا وطن ثانى بنا ليا ہے ليكن ان كے يہاں ان كےسماج اردو تہذيب وثقافت كا معاشرے  پر زور اچھا خاصہ ہے- بقول فہيم اختر:

(ميں مشرقى اقدارِ تہذيب كا معمولى آدمى مغرب كے انسانى حقوق كے علمبرداروں كے شاندار تہذيبى اور اخلاقى اقدار كو سمجھنے اور اپنانے ميں شايد ہميشہ قاصر رہوں-"

ان كا داخلى احساسات اور خارجى عوامل جب ايک دوسرے سے متصادم ہوتے ہيں تو اس كا لا شعور اس كے شعور پر غالب ہوتا نظر آتا ہے جس ميں وطن كى محبت، مٹى كى خوشبو اور تہذيب وثقافت اور اس كى ياديں  اس كے شعور كاحصہ بن جاتى ہيں- فكر وشعور اور جذبہ ايک ساتھ ہم آہنگ كرتے ہيں اور ايك تخليق ميں ابھر كر آتے ہيں-

بالآخر ہم كہہ سكتے ہيں كہ فہيم اختر كے افسانوں ميں ناسٹلجيا  كا شعور ملتا ہے- وه  اپنے علاقے سے نكل كر دوسرے علاقے ميں گئے تو وه اپنى مٹى كى خوشبو  اور اپنى تہذيبى وراثت بھى اپنے ساتھ لے كر گئے - وه اپنے  اقدار اور ثقافت سے دور ايک اكيلا شخص ہوتا ہے تو ان كو تہذيبى كشمكش، تنہائى ، افسردگى، ذہنى الجھن كا شكار بنا ديتى ہے- وه وطن كى يادوں كو اپنے حافظے ميں محفوظ كر ليتا ہے- اپنى يادوں كو اپنا  رہبر بنا ليتا  ہے- وه ان علاقے ميں ره رہے ہيں جہاں ان كا اپنا  بچپن گزارا تھا اور وه جوان ہوئے تھے، ماضى كى انہيں يادوں كو وه عصرى حقائق سے مربوط كر كے زبان وادب ميں ايك بيش قيمت اضافہ كرتے نظر آتے ہيں- اپنے سماجى اور تہذيبى رشتوں كا د رد بھى ركھتا ہے- وه سماج، معاشره اور تہذيب وثقافت سے دور ہيں مگر اس كا ر نج وغم مشتركہ ہوتا ہے- وه لندن كى زندگى گزارتےہيں ليكن اپنوں كے درميان سانس ليتے ہيں- وطن سے دور رہنا اور بيرونى دنيا كے مخصوص ثقافتى ماحول ميں وطن  كا  سايہ ہى ان كا رفيقِ كار ہے-

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad