تازہ ترین

منگل، 19 مئی، 2020

گیا وقت، پھر ہاتھ آتا نہیں!!

مولانا انوار قاسمی نیپالی 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
   اس کائنات ہستی کے اندر جتنےبھی انبیائے کرام ،احکام الہی کی تبلیغ و ترویج کیلئے مبعوث ہوئے ہیں ،ہر ایک کی امت کو مشترک طور پر "روزہ 'کا حکم ضرور دیا گیا ہے، نوعیت و کیفیت میں اختلاف ممکن ہے ،  اور ہو بھی سکتا ہے؛ مگر نفس صوم کی فرضیت میں، سابقہ تمام ہی امم یکساں طور پر نظر آتی ہیں، اس حکم خداوندی کےعام  ہونے کی سب سے بڑی حکمت یہ ہے کہ فاطرالسموات والارض کی چنداں  یہ خواہش نہیں ہوتی ہے ،کہ ان کے بندوں کے اذہان و قلوب میں اس ہستی دو روزہ کی محبت  اتنی پیوست ہو جائے، کہ ان کے ذکر سے بھی بالکل غافل ہوجائے؛ اسی لئے یعنی دنیا کی محبت کم کرنے اور اپنی محبت ،اپنا ذکر زیادہ کرنے کے لئے، ہر نبی کی امت کو" روزہ" کا حکم دیا گیا، روزہ کے ذریعے خواہشات نفسانی کم سے کم تر ہوجاتی ہے، اور باری تعالی کا استحضار بھی حد درجہ بڑھ جاتا ہے، نتیجتاً دنیا کی محبت و رغبت صفر ہوجاتی ہے، اور یہی مقصود  ربانی بھی ہے،  جس کا حصول "روزہ" کے ذریعے بدرجہ غایت ہو جاتا ہے۔

   اس کرہ ارضی کے آخری نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری امت کو بھی سال کے بارہ مہینوں میں سے فقط ایک ماہ: یعنی "ماہ رمضان المبارک "کا روزہ رکھنے کا وجوبی اور تاکیدی حکم دیا گیا ہے، ہر مسلمان، بالغ شخص، جو رمضان المبارک کا مہینہ پائے، اس کےلیے"رمضان المبارک"کا روزہ رکھنا واجب اور فرض ہو جاتا ہے، اس حکم کی عدولی وسرتابی،اغماض و روگردانی   کرنے والا شخص دونوں جہاں میں ناکام و نامراد ہو جاتا ہے، شریعت کی نظر میں بڑا گنہگار، اور لوگوں کی نظروں میں بھی حقیر وبد نام ہو جاتا ہے، ہاں اگر کوئی مریض، یا مسافر ہو ،تو اس کے لیے رخصت ہے ،کہ اگر اس کی خواہش و آرزو "روزہ "ہی رکھنے کی ہو، تو یہ اس کے لئے بہتر اور اچھی بات ہے؛ ورنہ پھر دوسرے ایام میں، اس کی قضا کر لے ،اسی طرح اگر کوئی عورت حالت حیض ،یاحالت نفاس میں ہو،تو اس کے لیے ،دیگر ایام میں قضا کرنے کاحکم ہے، اور اگر کوئی شخص اتنا نحیف و لاغر اور ضعیف ہو کہ رمضان المبارک کا "روزہ" رکھنا اس کے بس اور طاقت و قدرت سے باہر ہو، اور دیگر ایام میں بھی اس کی قضا پر ، وہ  قدرت نہ رکھتاہو، تو پھر ایسے شخص کے لئے ضروری ہے کہ ہر "روزہ "کے عوض ایک مسکین کو کھانا کھلانے کے ذریعے فدیہ ادا کرے، اس کی دو شکلیں ہیں، پہلی شکل یہ ہے کہ ایک ہی مسکین کو ہر ایک روزہ کی طرف سے صبح وشام شکم سیری کے ساتھ کھانا کھلائے ،دوسری صورت یہ ہے کہ ہر روزہ کے بدلے الگ الگ مسکینوں کو لیل ونہار بھرپیٹ کھانا کھلائے، ان دونوں صورتوں میں سے، جس صورت کو بھی اختیار کرے ،بہرحال فدیہ ادا ہوجائے گا، روزہ کا وجوبی اور قطعی حکم دیتے ہوئے قرآن کریم ناطق ہے: کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم الأخ. وفی مقام اخر :فمن شھد منکم الشھر فلیصمه ومن کان مریضاأوعلي سفر فعدة من ايام أخر۔

   ہر مسلمان مردوعورت کو چاہئے کہ" ماہ رمضان المبارک" کا روزہ رکھنے کی حالت میں تمام طرح کی برائیوں، اور اخلاقی خامیوں مثلا: جھوٹ، غیبت ،بہتان و الزام تراشی اور نظر بد سے کلی اجتناب کرے ؛کیوں کہ یہ سب ایسی خامیاں ہیں،جن کےارتکاب سے "روزہ "میں فساد پیدا ہو جاتا ہے ،اور پھر روزہ رکھنے کا کماحقہ فائدہ حاصل نہیں ہوپاتا ہے، ارشاد نبوی ہے :رب  صائم لیس له من صیامه الاالجوع ورب قائم لیس له من قیامه الاالسھر.(  بہت سے روزہ دار ایسے ہیں، جن کو روزہ  کے نام پر صرف بھوک، پیاس ملتی ہے اور بہت سے رات کو نماز پڑھنے والے ایسے ہیں، جن کو قیام اللیل کے نام پر، رات کا جاگنا ہی ملتا ہے) اس لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ اپنے" روزوں "کو فساد سے بچانے کے لیے، ہر طرح کی، ہر ایک برائی سے، پوری طرح اجتناب کی کوشش کریں؛ کیوں کے خدائے وحدہ لاشریک لہ  کے نزدیک، وہی "روزہ" مقبول ہوتا ہے ،جواخلاص  کے ساتھ رکھا گیا ہو ،اور "روزہ "کی حالت میں تمام ہی چھوٹے بڑے گناہوں سے پرہیز کیا گیا ہو۔
   روزہ کا وقت صبح صادق سے لے کر ،غروب آفتاب تک ہے ،ہر روزہ دار کو چاہیے، کہ صبح صادق سے قبل، سحری کر لیا کرے؛ اگرچہ ایک دو خرماہی یا ایک گلاس دودھ ہی کیوں نہ ہو؛ مگر کچھ نہ کچھ ضرور خورد نوش کر لیا جائے، تاکہ سنت نبوی :تسحروافان السحور برکة.( سحری کھاؤ؛ کیوں کہ سحری میں برکت ہے )پر بھی عمل ہو جائے، اور غروب آفتاب کے بعد فورا ہی افطار کرلیا جائے؛ کیوں کہ جب تک لوگ افطار میں سرعت وجلدی کریں گے، تو فائدے میں رہیں گے؛ اس لئے کہ یہود افطار میں تاخیر کرتے ہیں ،حدیث نبوی ہے:لایزال الناس بخیر ماعملواالفطرةوان الیھود یؤخرون۔

   " رمضان المبارک" کا مہینہ آتے ہی  باری تعالی رحمت کے دروازے کھول دیتے ہیں ،جہنم کے دروازے بند کر دیتے ہیں، اور شیاطین کو زنجیروں میں جکڑ دیتے ہیں، اس مہینے میں قادر مطلق کی طرف سے، بےپناہ خیرات و برکات کا نزول ہوتا ہے اور نیکیوں، ثوابوں  کومضاعف کر دیا جاتا ہے؛ اس لیے ہر روزہ دار کو چاہیے کہ نیکیوں کے اس موسم بہار میں خوب سے خوب نیکیاں بٹورے؛ کیوں کہ" گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں" اور رمضان المبارک کے اس بابرکت مہینے میں کثرت سے قرآن کریم کی تلاوت کریں؛ کیوں کہ "رمضان المبارک" کو من  جملہ جن چیزوں کی وجہ سے، دیگر مہینوں پر فضیلت حاصل ہوئی ہے، ان میں سے، ایک اس مہینے میں قرآن کریم کا نزول بھی ہے،کماقال اللہ تبارک و تعالی:شھررمضان الذی انزل فیه القرآن.( رمضان ،وہ مہینہ ہے، جس میں ،قرآن کریم نازل کیا گیا ہے)اورکوشش یہ ہوکہ   زیادہ سے زیادہ اوقات ذکرواوراد  ہی میں گزارا کریں، نیز آویزش، چپقلش،کشت خون اوررزم  سے کلی اجتناب کریں، اگر کوئی بدبخت اپنے دریدہ دہنی کا ثبوت بھی دے، تو اس سے کہہ دیں کہ بھائی میں روزہ دار ہوں اس سے بیجا الجھنے کی کوشش نہ کریں۔
   اللہ رب العزت نے رمضان المبارک کے آخری عشرہ کو مقدم دوعشروں پر ایک نمایاں خصوصی اور عظیم فضیلت عطا کی ہے، اور وہ ہےآخری عشرہ میں" لیلۃ القدر "کی آمد، اور لیلۃ القدر خیر من الف شھر، یعنی  لیلۃ القدر  ہزار مہینوں کی راتوں سے افضل ہے ،اسی آخری عشرہ میں  حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اہم سنت اعتکاف کا اہتمام بھی ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم "مسجد نبوی" میں خود اعتکاف فرماتے اور اپنے جاں نثار صحابہ کرام  رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اس کی خوب ترغیب بھی دیتے۔

   اس کائنات ہستی میں ،جتنی بھی مساجد ہیں ،سبھوں میں "ماہ رمضان المبارک" کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرنا سنت مؤکدہ ہے،معتکف کے لئے روزہ دار ہونا ضروری ہے، غیر روزہ دار شخص معتکف نہیں ہو سکتاہے، اور معتکف کے لیے حالت اعتکاف میں فقط طعام وشراب ہی کی اجازت ہے ،بیوی سے مباشرت جائزاوردرست نہیں ہے ؛ کیوں کہ اس سے اعتکاف ہی  ختم ہوجاتا ہے ،نیز بلاضرورت شرعی و طبعی خارج از مسجد ہونا اعتکاف کے سراسر منافی ہے۔
   باری تعالی تمام امت مسلمہ کو اس "ماہ رمضان المبارک "کا روزہ رکھنے، تراویح پڑھنے کے ساتھ ساتھ ،کثرت سے  نوافل کا اہتمام کرنے، اور خوب خوب ذکر وتلاوت میں اپنےاوقات صرف کرنے،نیز تمام ہی منہیات سے احتراز کلی کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad