تازہ ترین

پیر، 18 مئی، 2020

ہاں میں مزدور ہوں۔۔۔!

نازش ہماقاسمی
جی مزدور، لیبر، آبلہ پا، محنت کش، خود دار، غریب انسان، پریشان حال، صاحب حیثیت افراد کے یہاں صنعتی و کاروباری ادارے میں، کھیت اور کھلیانوں میں، شہر و دیہات میں اپنے بال بچوں کی کفالت کی خاطر آبائی وطن سے ہزاروں میل دور کام کرنے والا، دوسروں کے آرام کی خاطر اپنے سکون کو تج کر انہیں آسائش فراہم کرنے والا، بلڈنگ کا گاڑا بنانے والا،اینٹ اٹھانے والا، سبزی ڈھونے والا، یومیہ اجرت پر کام کرنے والا، زری کا کام کرنے والا، مٹی میں لت پت، پسینے سے تر بتر، بچوں کو گود میں لیے ہوئے ٹیکسی چلانے والا، بسوں میں سامان چڑھانے والا، ریلوے اسٹیشنوں پر سامان ڈھونے والا، پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے کمزوری و لاغری کو خاطر میں نہ لانے والا، صنفی برتری سے آزاد مرد، عورت، بوڑھے، جوان، بچے اور بچیوں کی شکل میں آپ کے ارد گرد نظر آنے والا آپ کے روز مرہ کی ضرورتوں کو آپ تک پہنچانے والا مزدور ہوں۔

ہاں میں وہی مزدور ہوں جسے سہولت پہنچانے کے لیے لیڈران قسمیں کھاتے ہیں، وعدے کرتے ہیں، دوران الیکشن پاؤں دھوتے ہیں، فلاح و بہبود کے سپنے دکھاتے ہیں، خوش حالی کے گیت سناتے ہیں، لیکن الیکشن ختم ہوتے ہی ہمیں بھلا دیا جاتا ہے، دھتکار دیاجاتا ہے، ہماری ضرورتوں کو بالائے طاق رکھ دیاجاتا ہے، ہمیں ہماری غریبی میں رہنے پر مجبور کیا جاتاہے، اور پھر ہماری کسمپرسی و بے بسی کا حال وہی ہوجاتا ہے جو پہلے تھا۔ الیکشن کے بعد لیڈران کے حالات بدل جاتے ہیں، لیکن ہماری قسمت میں کوئی تبدیلی نہیں کی جاتی ہے۔ہاں میں وہی مزدور ہوں جو دنیا کے ہر خطے میں امیروں کے ذریعے ستایا جاتا ہوں، پریشان کیا جاتا ہوں، برباد کیا جاتا ہوں، ان کے واسطے اپنے عزت نفس کو کچل دیتا ہوں، لیکن پھر بھی ہمیں وہ مقام نہیں ملتا، ہمیں گری ہوئی نظروں سے ہر ملک اور دنیا کے ہر کونے میں دیکھا جاتا ہے۔ اس کے باوجود بھی ہم ہر جگہ سماجی ڈھانچے کے تانے بانے کو برقرار رکھتے ہیں۔

ہاں میں وہی مزدور ہوں جسے ہندوستان جیسے ملک میں بھی خاطر میں نہیں لایاجاتا، کہنے کو تو یہ ملک غریب پرور ہے؛ لیکن ہم غریب مزدوروں کی وجہ سے ہی امیر یہاں پلتے ہیں، ہم تو ان کے پاؤں کی جوتیوں کے برابر بھی نہیں، کم اجرت پر پورے دن پسینہ بہا کر، آفسوں میں ڈیوٹی کر کے، دکانوں پر کھڑے رہ کر، بازاروں میں گھوم گھوم کر، گھروں میں جاجاکر کام کرتے ہیں اگر کبھی اپنے سیٹھ سے، ساہوکار سے، صاحب سے اجرت بڑھانے کو کہتے ہیں تو وہ ہمیں اس نظر سے دیکھتے ہیں گویا ہم نے ان کی پوری جائیداد مانگ لی ہو۔ ہاں میں وہی مزدور ہوں جس کے بارے میں نبی پاک ﷺ نے سیٹھوں کو، ساہو کاروں کو، صاحب حیثیت لوگوں کو کہا تھا کہ ان کا پسینہ خشک ہونے سے قبل ہی ان کی مزدوری دے دو؛ لیکن دنیا میں اب یہ رواج نہیں رہا۔ اکثر مزدوروں کا پسینہ خشک ہونے کے مہینوں بعد بھی انہیں ان کی اجرت نہیں مل پاتی۔ ہاں میں وہی مزدور ہوں جو دوسروں کے لیے تو گھر بناتا ہے؛ لیکن ہمارا کوئی گھر نہیں ہوتا، بڑے بڑے شہروں میں آپ فٹ پاتھ پر جسے سوتا دیکھتے ہیں میں وہی مزدور ہوں، جسے بانس کی ڈلیوں میں سکڑا ہوا لیٹا دیکھتے ہیں میں وہی مزدور ہوں، جسے ٹھیلے گاڑی پر سخت دھوپ میں تھوڑا سستاتے ہوئے دیکھتے ہیں میں وہی مزدور ہوں۔

 ہاں میں وہی مزدور ہوں جو دھوپ کی تپش، ٹھنڈ کی برودت کی پرواہ کیے بغیر اپنے کام میں مسلسل لگا رہتا ہے۔ ہاں میں وہی مزدور ہوں جس کے تلخ اوقات کو علامہ اقبال نے بیان کیا، جس کی کالی دنیا کو جمیل مظہری نے اجاگر کیا، جس کی مسکراہٹ کو مجروح سلطان پوری نے بیان کیا، جس کے ماتھے سے پھوٹتی کرن کو علی سردار جعفری نے بیان کیا، جس کے معاوضے کو عاصم واسطی نے بیان کیا، جس کے پیلے چہرے کو تنویر سپرا نے بیان کیا، جس کی بنائی ہوئی راہ کو حفیظ جالندھری نے اپنے شعر میں پیش کیا۔ ہاں میں وہی مزدور ہوں جو فٹ پاتھ پر اخبار بچھا کر سوجاتا ہے، تھکاوٹ کی وجہ سے جلد نیند آجاتی ہے۔ ہم مزدوروں کو کبھی نیند کی گولی نہیں کھانی پڑتی۔ ہاں میں وہی مزدور ہوں جو اپنے پسینوں میں اپنے خواب کی خوشی لیے ہوئے پھرتا ہے، ہاں میں وہی مزدور ہوں اگر نہ ہوتا تو یہ بڑے بڑے محلات، بڑی بڑی فیکٹریاں، بڑی بڑی کوٹھریاں دنیا کی رونق نہ ہوتی۔

ہاں میں وہی مزدور ہوں جو کورونا وائرس کی وجہ سے پوری دنیا میں پریشان ہے، ہاں میں وہی مزدور ہوں جسے شہر میں بھوک لائی تھی اور اب بھوک لے جارہی ہے، ہندوستان میں تو ہماری ہجرت کی وجہ سے ۱۹۴۷ کا منظر نظر آرہا ہے، ایک ماہ تو ہم نے کسی طرح بھوک وپیاس کی شدت کو برداشت کرکے گزار کرلیا؛ لیکن جب ہمارے سیٹھوں نے، ساہوکاروں نے، حکمرانوں نے ہم سے ہاتھ اُٹھالیا، ہمارے مالکوں نے ہمیں کھانا پینا دینا چھوڑ دیا، ہم پر کوئی توجہ نہیں دی، ہمارے وطن جانے کے لیے گاڑیوں کا انتظام نہیں کیا تو ہم پریشانی کے عالم میں پیدل ہی طویل مسافت کے لیے نکل پڑے، کہیں ریل کی پٹریوں پر مال گاڑی سے کچلے گئے، کہیں بس ٹرک اور دیگر بڑی لاریوں کی زد میں آکر مارے گئے، کہیں مئی کے گرمی کی سخت تپش کی تاب نہ لاتے ہوئے جان جان آفریں کے سپرد کردیں۔ کہیں گڑھوں میں گر کر جان کی بازی ہار گئے، ہاں میں وہی مزدور ہوں جو ان دنوں ملک کی سڑکوں پر بے یار ومددگار اپنے آبائی وطن کی طرف ننگے پاؤں، چھوٹے ومعصوم بچوں کو کاندھوں پر لیے ہوئے، حاملہ بیویوں کو اس کے درد وکرب کے باوجود پیدل چلنے پر مجبور ہے۔ ہاں میں وہی مزدور ہوں جو بیل گاڑی میں ایک طرف بیل اور دوسری طرف خود کھڑا ہوکر اپنے اہل وعیال کو گاؤں لے جارہا ہے، ہاں میں وہی مزدور ہوں جو بھوک سے بلبلاتے بچوں کو اپنی گود میں مرتے ہوئے دیکھ رہا ہے، ہاں میں وہی مزدور ہوں جو اپنے ضعیف والدین کو اپنے کاندھوں پر لیے ہوئے محوسفر ہے۔

 ہاں میں اسی مزدور کی اہلیہ ہوں جو اپنے بچے کو سوٹ کیس پر لٹا کر گھسٹنے پر مجبور ہے، ہاں میں اسی مزدور کا بیٹا ہوں جو اپنی والدہ کی ٹانگوں سے چپکا ہوا ہے اور مزید چلنے کی طاقت نہ ہونے کی شکایت کر رہا ہے۔ ہاں میں وہی مزدور ہو جو تپتی سڑک پر اپنے بچوں کو پاؤں میں چھالے سے بچانے کے لیے پلاسٹک کی بوتل پہنانے پر مجبور ہوں۔ ہاں میں وہی مزدور ہوں جو ٹرک پرچڑھانے کے لیے اپنے شیر خوار بچے کو ہوا میں اچھالنے پر مجبور ہے، ہاں میں وہی ہوں جو چھوٹی گاڑیوں میں جانوروں کی طرح گھس کر جانے پر مجبور ہے۔ ہاں میں وہی مزدور ہوں جس کی لاشوں کی تعداد نہیں بتائی جارہی حالاں کہ  ٹرین کی زد میں آکر ٹرکوں اور دوسری گاڑیوں کے نیچے آکر، دھوپ کی تپش، گرمی کی شدت اور بھوک کی تاب نہ لاکر مرنے والوں مزدوروں کی تعداد کورونا وائرس سے مرنے والوں کی تعداد سے کہیں زیادہ ہے؛ لیکن ہماری لاشوں پر کوئی آنسو نہیں، کوئی غم نہیں، بس صرف اور صرف سیاست ہو رہی ہے۔

 پتہ نہیں ہم کب تک سیاست کی نذر ہوتے رہیں گے، ہماری حالت شاید کبھی سدھرے بھی نہیں، اکثر و بیشتر ہم اپنی اس حالت کے خود بھی ذمہ دار ہوتے ہیں۔ اور جہاں انسانوں کو انسانوں پر برتری حاصل ہو، جہاں اونچ نیچ کا رواج ہو، جہاں پیسہ بولتا ہو، جہاں جھوٹ کا راج ہو، جہاں ظالموں کا پہرہ ہو، جہاں قزاقوں کا قافلہ ہو، جہاں بشکل رہبر، رہزنوں کا جتھہ ہو وہاں اس طرح کے حالات سے کبیدہ خاطر نہیں ہواجاتا۔ وہاں آباد ہونے کی توقع نہیں کی جاتی ہے۔ وہاں صرف برباد ہوا جاتاہے۔ اور ہم برباد ہورہے ہیں۔ ہمیں برباد کیا جارہا ہے۔ اور ہمیں برباد ہوتا دیکھا جارہا ہے، ہماری بربادی پر میلہ سجا ہے، ہماری بربادی کا تہوار منایا جارہاہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad