تازہ ترین

پیر، 25 مئی، 2020

ہاں میں (مفتی) سعید احمد پالنپوریؒ ہوں۔۔۔!

نازش ہما قاسمی
جی احمد بن یوسفؒ بن علیؒ بن جیواؒ المعروف مفتی سعید احمد پالنپوریؒ، محدث و صدرالمدرسین دارالعلوم دیوبند، شارح قرآن و حدیث، عاشق رسولﷺ، صحابہؓ کا شیدا، محدثین، مجہتدین، ائمہ اربعہ سے محبت کرنے والا، کئی کتابوں کا مصنف، زاہد، عابد، عالم با عمل، متقی، پرہیزگار، ریاضت کش، عبادت گزار، پارسا، فقیہ، مفکر، مدبر، غواص، فلسفی، ذہین، فطین، محنت کش، کتابوں کا رسیا، ہزاروں علما کا استاذ، قاطع بدعت، جھوٹے قادیانی کی کذب بیانی کو آشکار کرنے والا، لاکھوں دلوں کی دھڑکن گجرات کے ایک کسان خانوادے میں پیدا ہوکر پوری دنیا کو علم کی روشنی سے منور کرنے والا، پوری زندگی قال اللہ و قال الرسول کی صدا بلند کرنے والا، ہرکسی سے خندہ پیشانی سے ملنے والا، بااخلاق، باہمت، باکردار، شان علمائے دیوبند، فکر ولی اللہی کا ترجمان، ملک و بیرون ممالک کا اسفار کرکے علم دین کی لوجلانے والا، حکیم الاسلام  قاری محمد طیب صاحب کے علم و حکمت کا فیض یافتہ، مولانا سید اختر حسین صاحب دیوبندی کا ماہ کامل، علامہ ابراہیم بلیاوی کے زہد و تقویٰ کا پرتو، فخرالمحدثین حضرت مولانا فخر الدین صاحب مراد آبادی سے علم حدیث کی مراد پانے والا، شیخ عبدالوہاب مصری سے علمی تشنگی بجھانے والا، مولانا جلیل احمد کیرانوی کی علمی جلالت کا گواہ، مولانا اسلام الحق اعظمی سے عظمت یافتہ، مولانا بشیر احمد خاں سے خوشخبری پانے والا، مولانا محمد ظہور صاحب دیوبندیؒ کے علوم ظاہری وباطنی کا امین، مفتی اعظم سید مہدی حسن صاحب کو راہ رو بنانے والا، علامہ نصیر احمد خاں کا معاون، سلف کی یادگار، خلف کا رہبر، نہ زیادہ فربہ، نہ زیادہ نحیف، درمیانہ جسم، نہ زیادہ طویل نہ پستہ قد، میانہ قد کا حامل، کشادہ پیشانی، غزال آنکھوں والا، گندمی شکل، متانت و سنجیدگی کا پیکر، باادب، چھوٹوں پر شفقت اور بڑوں سے محبت کرنے والا، عظیم محدث مفتی سعید احمد پالپنوریؒ ہوں۔

آزادئ ہند سے تقریباً سات سال قبل برٹش دور حکومت میں والد محترم جناب یوسف صاحبؒ کے ہاں شمالی گجرات کے کالیڑہ پالنپور میں طلوع ہوا اور اس جہاں فانی کا عارضی باشندہ قرار پایا۔ ابتدائی تعلیم مولانا داؤد چودھری، مولانا حبیب اللہ چودھری، مولانا ابراہیم جونکیہ علیہم الرحمہ سے پالنپور کے مکتب میں حاصل کی۔ ثانوی تعلیم کے لیے مدرسہ سلم العلوم گجرات، مظاہرعلوم سہارنپور کا رخت سفر باندھا، ۱۹۶۲ میں ازہر ہند دارالعلوم دیوبند سے کبار علما کے سامنے ۲۲ سال کی عمر میں فراغت حاصل کی۔ دورہ حدیث سے فراغت کے بعد افتاء میں داخلہ لیا جہاں سے مفتی کے لقب سے ملقب ہوا اور یہ لقب میرے نام کا جزء لاینفک بن گیا۔ دارالعلوم دیوبند میں علمی تشنگی کی تکمیل کے بعد سورت گجرات کے دارالعلوم اشرفیہ میں درجہ علیا کے استاذ کی حیثیت سے تقرر ہوا وہاں تقریباً نو سال تک طالبان علوم نبویہ کو قرآن واحادیث کے درس کے ساتھ دیگر درس نظامی کی کتابوں کا سبق دیا۔ ۱۳۳۹ ہجری مادر علمی دارالعلوم دیوبند میں پڑھانے کی سعادت نصیب ہوئی جہاں تقریباً پچاس سالوں تک پورے ہندوستان سے منتخب باصلاحیت طلبا کو اپنے علم سے بہرہ ور کرتا رہا۔ علامہ نصیر احمد خان کے وصال کے بعد دارالعلوم دیوبند کا شیخ الحدیث بنا اور ۱۲ سال تک بخاری شریف کا درس دیا، الحمد اللہ درس انتہائی مقبول تھا، انداز پراثر، سحر انگیز اور خطیبانہ تھا جس کی وجہ سے طلبہ مکمل ذہنی و دماغی یکسوئی کے ساتھ حاضر درس ہوتے تھے، درس نظامی کی تدریس کے ساتھ ساتھ خاندان کا بڑا ذمہ دار ہونے کے ناطے اپنے اہل وعیال پر بھی توجہ دی، اپنے بھائی مفتی امین صاحب کی مکمل تعلیمی واقتصادی کفالت کی ان کے ساتھ اپنی اولاد کو بھی قابل بنایا، انہیں بھی علم دین سے روشناس کرایا آج سبھی الحمدللہ برسر روزگار اور اپنے فن میں ماہر ہیں۔ دو تو میری زندگی میں ہی اس فانی دنیا کو چھوڑ کر مجھے صدمہ دے چکے تھے ان کی اولادوں کو بھی حق وراثت دیا اور ان کی کفالت کی۔  دارالعلوم میں تدریس کے ساتھ تصنیف پر توجہ دی، مولانا محمد عثمان کاشف الہاشمی کی تفسیر ہدایت القرآن کو مکمل کیا، حجۃ اللہ البالغہ کی شرح رحمۃ اللہ الواسعہ لکھ کر دیوبندیت کی شان میں اضافہ کیا اور فخر دیوبند بنا۔ اس کے علاوہ بخاری شریف کی شرح تحفۃ القاری، ترمذی شریف کی شرح تحفۃ الالمعی لکھی جو مقبول عام و خاص ہے، اور سرحد کی بندشوں سے آزاد پوری دنیا میں پڑھی جارہی ہے۔ مبتدی طالب علموں کے لیے کئی ایسی کتابیں لکھیں جو مادر علمی دیوبند کے ساتھ ساتھ دیگر مدارس اسلامیہ میں داخل نصاب ہیں۔ اس کے علاوہ بھی میرے ہاتھوں لکھی ہوئی کتابوں کی ایک فہرست ہے جس سے علمی دنیا استفادہ کر رہی ہے۔ ہاں میں وہی مفتی سعید احمد پالنپوری ہوں جنہوں نے بہت سارے مسئلوں پر اساتذہ دارالعلوم دیوبند سے اور دیگر علما سے علمی بحث کی، اپنی رائے رکھی کبھی رائے خلاف ہوئی اور کبھی موافق، موافق ہونے کی صورت میں سجدہ شکریہ بجالایا اور مخالف ہونے کی صورت میں اپنی رائے سے رجوع کرنے میں بھی کبھی گریز نہ کیا۔ ہاں میں وہی سعید احمد پالنپوری ہوں جس  نے تنگدستی کے زمانے میں تو دارالعلوم سے معاوضہ لیا؛ لیکن کشادگی رزق کے بعد تمام اجرت لوٹادی، ہاں میں وہی مفتی سعید ہوں جو ۲۰۲۰ کے درس ختم بخاری کے موقع پر طلبہ سے کچھ بیان نہ کرسکا اور صرف آہوں اور سسکیوں میں انہیں اور خود کو اللہ کی پناہ میں دیتے ہوئے رخصت ہوگیا، اسی وقت  سے طلبا اور محبین ومتوسلین کو میری فکر تھی وہ میرے وقت آخر کو سوچ کر رنجیدہ ہو رہے تھے۔ اکثر و بیشتر کو اندازہ ہورہا تھا کہ میرا وقت وصال نزدیک ہے- ہاں میں وہی شیخ الحدیث ہوں جس نے مزار قاسمی میں قبر پر موجود کتبوں پر اعتراض کیا، وہاں جاکر کیے جانے والے مراقبے کو برا سمجھا، اکابرین کی میت پر ہونے والی تعزیتی نشستوں کا مخالف رہا، حتی الامکان تصویر کشی کی بھی شدت سے مخالفت کی، اور اپنی ان مخالفت پر اخیر دم تک قائم رہا۔ اللہ نے میری اس مخالفت کی یہ لاج رکھی کہ جب وصال کا وقت آیا تو دنیا میں کورونا کی مہاماری کی وجہ سے لاک ڈاؤن تھا، نہ کہیں کوئی اجلاس کا تصور، نہ ہی کہیں بھیڑ و اژدہام اور نہ ہی تصویر کشی کی لعنت کا خوف تھا۔ کئی ماہ سے علیل رہا اور طبیعت میں سدھار نہ آیا تو دیوبند سے ممبئی چلا آیا۔ یہیں علاج ومعالجہ ہوتا رہا کبھی طبیعت میں کچھ افاقہ ہوتا کبھی زیادہ بگڑ جاتی اسی طرح کے احوال سے دوچار ہوتا رہا؛ لیکن ۱۸؍ مئی ۲۰۲۰ کو ایسی طبیعت بگڑی کہ افاقہ نہ ہوسکا اور ۱۹؍ مئی ۲۰۲۰ کو عالم فانی سے ہمیشہ باقی رہنے والی ذات کے بلاوے پر ہزاروں دلوں پر غموں کا پہاڑ گراتے ہوئے رحمۃ اللہ علیہ الواسعۃ ہوگیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ مغفرت فرمائے اور درجات بلند کرے۔(آمین)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad