تازہ ترین

بدھ، 20 مئی، 2020

حسد سماج کا ناسور

محمد طاسين ندوي  نیپال 
ـسم اللہ الـــرحمــن  الــرحیــم
دنيا بھی عجیب چیز ہے اس کے بارے میں امیر المؤمنین  حضرت علی بن ایو طالب  رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا "غري غيري يادنيا"اگر انسان ایمان کامل اور عزم محکم سے خالی ہوتا ہے تو یہ دنیا اور اس کا لطف انسان کو قعر مذلت تک جا پہنچاتا ہے ممکن ہیکہ ذہن میں سوال پیدا ہو دل میں یہ کھٹک کہ وہ کیسے؟  تو لیجئے آپ کے سامنے ہے. ایک شخص کسی بھی سماج میں رہتا بستا ہے وہ جاہ و منصب اور حسب و نسب میں عالی مقام رکھتا ہے یا اس کا  عکس ہے تو سماج کے افراد اول الذکرسے اس وجہ سے دور ہوتا ہیکہ ارے ان کے تو طوطی بولتی وہ صاحب حسب و نسب اور صاحب ثروت ہے اور جن کے آنگن میں امیری کا شجر لگتا ہے انکی ساری باتیں لوگوں کو گائید لائن سمجھ میں آتی ہے،

 اگر اس کو ایک مسلمہ حقیقت کہیں تو بجا ہوگا لیکن راقم ایسا نہیں کہ رہا البتہ یہیں سے ایک مہلک جان لیوا ناسور سر اٹھاتا ہے سماج، معاشرہ، قبیلہ، خاندان،اور اپنی قوم الغرض ایک حقیقی رشتہ دار کو دوسرے سے دور اور ایک کو دوسرے کی نگاہ میں کمتر اور گھٹیا بناکر پیش کرتا اس سے میری مراد بغض،کینہ،حسد،جلن،کڑھن، ٹیس ہے یہ ایسی بیماریاں ہیں جسکا نتیجہ نہایت ہی بھیانک اور شرم کن ہوتا ہے چنانچہ ارشاد ربانی ہے  "وَمِن شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ"سورالفلق٥ترجمہ: اور حسد والے کے شر سے جب وہ حسد کرے۔یعنی پناہ کا مطالبہ جہاں بہت ساری چیزوں سے کی گئی ہے ان میں ایک نہایت ہی شرمناک اور بھیانک حسد ہے اور آنحضرت کی تعلیمات میں سے یہ بھی ہے کہ حسد ایک ایسا ناسور ہیکہ کہ سارے اعمال کو جلا کر خاکسترکئے بغیر نہیں رہتا. 

حسد کہتے کسے ہیں اس کی علماء کرام نے متعدد تعریفیں کی ہیں .
سب سے پہلے علماء لغت کی تعریف تحریر ہے 
"حسد کا لفظ حَسَدَ سے بنا ہے جس کے معنی چیچڑی "جوں کے مشابہ قدرے لمبا کیڑا"ہے جس طرح چیچڑی انسان کے جسم سے لپٹ کر اس کا خون پیتی رہتی ہے،اسی طرح حسد بھی انسان کے دل سے لپٹ کر گویا اس کا خون چوستا رہتا ہے اس لیے اسے حسد کہتے ہیں۔‘‘ لسان العرب، باب الحاء، ج۱ص۸۲ْ٦

حسد کی اصطلاحی تعریف:
قال الراغب الأصفهاني :" الحسد تمني زوال نعمة من مستحق لها ، وربما كان مع ذلك سعي في إزالتها "امام راغب اصفہانی علیہ الرحمہ حسد کی تعریف بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں ’’جس شخص کے پاس نعمت ہو اس سے نعمت کے زوال کی تمنا کو حسد کہتے ہیں"المفردات في غریب القرن  ص۱۱۸ 

قارئین کرام! یہی حسد ہے جس کی ہولناکی اور تباہ کاری  کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف
انداز میں بیان کیا ہے فرمان نبوی ہے.إِيَّاكُمْ وَالْحَسَدَ ؛ فَإِنَّ الْحَسَدَ يَأْكُلُ الْحَسَنَاتِ كَمَا تَأْكُلُ النَّارُ الْحَطَبَ ". أَوْ قَالَ : " الْعُشْبَ " رواه ابو داؤد٤٩٠٣" باب في الحسد"ترجمہ:حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’تم حسد سے بچو، کیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑیوں کو کھا جاتی ہے۔کہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  یوں  بیان فرماتے  ہیں.عَنْ أَنَسٍ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " لَا تَحَاسَدُوا، وَلَا تَبَاغَضُوا، وَلَا تَقَاطَعُوا، وَكُونُوا عِبَادَ اللَّهِ إِخْوَانًا "رواه مسلم ٢٥٥٩ كِتَابٌ : الْبِرُّ وَالصِّلَةُ وَالْآدَابُ  بَابٌ : تَحْرِيمُ التَّحَاسُدِ وَالتَّبَاغُضِ وَالتَّدَابُرِ ’’حضرت أنس سے روایت ہیکہ رسول اللہ نے فرمایا ایک دوسرے سے بغض نہ کرو، ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، ایک دوسرے سے دشمنی نہ کرو، اور اللہ کے بندے بھائی بھائی ہو جاؤ.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزيد فرمايا: عن ضمرة بن ثعلبة قال: قال رسول صلى الله عليه وسلم "لا يزال الناس بخير ما لم يتحاسدوا"  الطبراني فی الکبیر ۷۱۵۷ضمرہ بن ثعلبہ  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ  لوگ ہمیشہ  بھلائی  سے رہیں گے جب تک وہ حسد سے  بچتے رہیں گے.المختصر یہ آنجناب حضرت  محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امتی کے اعمال صالحہ کیسے باقی رہے جل کر راکھ نہ ہو اور اس مہلک بیمار سے کیسے نجات پائے جابجا مخلتف پیرایۂ میں ارشاد فرمایا ہے . کہ یہ ایک مہلک مرض ہے اجتناب کى ہر ممکن سعی کی جائے.البتہ اس طرح کا حسد جس کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے "لا حسد إلا في اثنتين... الحديث "متفق عليه جائز و درست ہے اس کے بارے میں علماء نے فرمایا کہ وہ حسد اپنے حقیقی معنی میں نہیں بلکہ مجازی غبطہ و رشک کہ معنی میں ہے 

غبطہ و رشک کہتے کس کو ہیں 
الغبطة: ان تتمنى ان يكون لك مثل ما لأخيك المسلم من الخير والنعمة ولا يزول عنه خيره. وقد يجوز ان يسمى هذه منافسة ومنه قوله تعالى:" خِتَامُهُ مِسْكٌ وَفِي ذَلِكَ فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُونَ" المطففين ٢٦یہ تمنی ہوکہ کسی بھائی کہ پاس اگر کوئی نعمت یا خیر کی چیز ہے تو تمنی کرنے والے پاس ہوجائے اور اس کے بھائی کہ پاس بھی باقی رہے علماء نے لکھا ہیکہ اسی رشک و غبطہ کو تنافس کا نام دیا جائے یہ جائز ہے شریعت میں حسد حرام اور ناجائز عمل ہے جبکہ رشک ایک حسد محمود اور جائز عمل ہے 

حسد کے نقصانات 
حسد و جلن کے بے شمار و انگنت نقصانات ہیں 
حاسد اللہ کی ذات سے بدگمان ہوجاتا ہے اسکی سوچ وفکر منفی ہوتی ہے 
حاسد کی نیکیاں خاکستر ہوتی ہیں اور اسکی محنت اکارت چلی جاتی ہے 
حاسد تعمیری ذہانت سے یکسر دور ہوکر رہ جاتا ہے  اپنی دنیا آباد کرنے بسانے کی بجائے دوسروں کی نعمتوں پر اضطراب میں رہتا ہے
  حسد کئی  نفسیاتی امراض کا ضامن ہے جیسے غصہ، ڈپریشن، احساس کمتری وغیرہ.
حسد سے کئی گناہ اور جنم لیتے ہیں جیسے  غیبت ، بہتان ، الزام ، ٹوہ تجسس،جھوٹ.
حسد سے اللہ تعالی کی ناراضگی ہوتی ہے 
ہمیں چاہئیے کہ ہم اپنے معاشرے میں حسد کی تباہ کاریاں سے لوگوں کو باخبر کریں اور خود بھی اس نیکیاں بھسم کرنے والا عمل سے اجتناب کریں تب جاکر ہم ایک خوشگوار زندگی گزار سکتے ہیں 
قمر رعینی  نے کیا ہی عمدہ دلپذیر  بات کہی ہے
بغض اور حسد سے دل خالی رکھئے 
اپنے   کردار   کو  مثالی رکھئے
جو داد کے قابل ہو اسے دیجئے داد
دشمن ہی سہی ظرف توعالی رکھئے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad