تازہ ترین

جمعہ، 8 مئی، 2020

حضرت بہلول دانا اور خلیفہ ہارون الرشید کا مکالمہ!

حضرت بہلول دانا رحمۃ اللہ علیہ
خلیفہ ہارون الرشید کے دور میں بغداد میں ایک درویش رہتے تھے۔ان درویش کا نام بہلول دانا تھا ۔بہلول دانا بیک وقت ایک فلاسفر اور ایک تارک الدنیا درویش تھے ۔ان کا کوئی گھر ،کوئی ٹھکانہ نہیں تھا ۔وہ عموما شہر میں ننگے پاؤں پھرتے تھے اور جس جگہ تھک جاتے وہیں ڈیرہ ڈال لیتے۔ بعض لوگوں نے انہیں مجذوب لکھا ہے۔ کہ یہ اللہ کی تجلیات اور عشق میں مستغرق اور گم رہتے تھے۔اور اپنے اردگرد کے ماحول سے بے خبر ہوتے تھے۔ بہت کم لوگوں کی طرف التفات کرتے تھے۔ اور جب کبھی عوام الناس کی طرف منہ کرتے تو حکمت و دانائی کی بہت ہی عجیب و غریب باتیں کرتے۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ اللہ کے بہت بڑے ولی کامل تھے ۔ ان کا ا صل نام وہب بن عمرو تھا۔

مجذوب کی تعریف دارلافتا ءاہلسنت میں یوں تحریر ہے۔”مجذوب اللہ کے عشق میں مستغرق لوگ ہوتے ہیں، ان لوگوں کا اللہ کے ساتھ کیا راز وابستہ ہے جس کا پتہ لگانا انتہائی مشکل کام ہے، نیز یہ لوگ اللہ کے عشق میں پاگل ہوتے ہیں، چنانچہ کبھی کبھار بظاہر خلاف شرع قول یا فعل ان سے سرزد ہوجاتا ہے۔، لیکن کسی دوسرے کو اس بات کی طرف کان نہیں دھرنا چاہیے، اور نہ ہی اس کی ترویج و اشاعت کرنی چاہیے، یہ لوگ اللہ کے ایسے محبوب ہوتے ہیں کہ اللہ تعالٰیٰ ان کی ٹیڑھی سیدھی ہربات کو پسند کرتا ہے، ہمیں ان کے پوشیدہ حالات کا علم نہیں ہے، اس لیے اس سلسلہ میں کوئی لب کشائی نہ کرنی چاہیے۔ واللہ تعالی اعلم”
مشہور واقعہ
ایک دن بہلول دریا کے کنارے بیٹھے ساحل کی گیلی ریت کو اپنے سامنے جمع کر کے اس کی ڈھیریاں بنا رہےتھے۔ اور ملکہ زبیدہ اپنے محل کے جھروکے سے بڑے انہماک سے ان کو یہ کام کرتے دیکھ رہی تھی وہ مٹّی کی ڈھیری بناتے اور پھر اپنے ہاتھ سے ہی اس کو مسمار کر دیتے ملکہ جھروکے سے اتر کر اپنی سہیلیوں کے ہمراہ دریا کے کنارے آ گئ اور بہلول سے پوچھا کیا کر رہے ہو بہلول ؟
بہلول نے ادائے بے نیازی سے کہا جنّت کے محل بنا رہا ہوں ،،
ملکہ نے سوال کیا اگر کوئی تم سے یہ محل خریدنا چاہے تو کیا تم کو اس کو فروخت کرو گے ،
بہلول نے کہا ہاں ہاں ! کیوں نہیں۔ میں بناتا بھی ہوں اور فروخت بھی کرتا ہوں
تو بتاؤ ایک محل کی قیمت کیا ہے ملکہ کے سوال کرتے ہی بہلول نے بے ساختہ کہا تین درہم ،
ملکہ زبیدہ نے اسی وقت اپنی کنیزوں کو حکم دیا کہ بہلول کو تین درہم ادا کئے جائیں ۔ اور ادا کردئیے گئے۔
یہ تمام واقعہ ملکہ نے اپنے شوہر خلیفہ ہارون الرشید کو بتایا۔خلیفہ نے اس واقعہ کو مذاق میں ٹال دیا۔
رات کو جب ہارون الرشیدسوئے تو انہوں نے خواب میں جنت کے مناظر دیکھے ، آبشاریں، مرغزاریں اور پھل پھول وغیرہ دیکھنے کے علاوہ بڑے اونچے اونچے خوبصورت محلات بھی دیکھے، ایک سرخ یاقوت کے بنے ہوئے محل پر انہوں نے زبیدہ کا نام لکھا ہوا دیکھا۔ ہارون الرشیدنے سوچا کہ میں دیکھوں تو سہی کیوں کہ یہ میری بیوی کا گھر ہے۔ وہ محل میں داخل ہونے کے لیئے جیسے ہی دروازے پر پہنچے تو ایک دربان نے انہیں روک لیا۔ ہارون الرشیدکہنے لگے ، اس پر تو میری بیوی کا نام لکھا ہوا ہے، اس لیئے مجھے اندرجانا ہے، دربان نے کہا نہیں، یہاں کا دستور الگ ہے، جس کا نام ہوتا ہے اسی کو اندر جانے کی اجازت ہوتی ہے، کسی اور کو اجازت نہیں ہوتی، لہذا آپ کو داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ جب دربان نے ہارون الرشید کو پیچھے ہٹایا تو ان کی آنکھ کھل گئی۔
بیدار ہونے پر فوراً خیال آیا کہ مجھے تو لگتا ہےکہ بہلول کی دعا زبیدہ کے حق میں اللہ رب العزت کے ہاں قبول ہوگئی، وہ ساری رات اسی افسوس میں کروٹیں بدلتے رہے۔
چنانچہ وہ شام کو بہلول کو تلاش کرتے ہوئے اِدھر اُدھر دیکھ رہے تھے کہ اچانک انہوں نے دیکھا کہ بہلول ایک جگہ بیٹھے اسی طرح مکان بنا رہے ہیں، ہارون الرشید نے اسلام وعلیکم کہا، بہلول نے جواب دیا وعلیکم سلام، ہارون الرشیدنے پوچھا، کیا کررہے ہیں؟ بہلول نے کہا، جنّت کے محل بنا رہا ہوں۔ ہارون الرشیدنے پوچھا ۔ بیچو گے ۔تو بہلول نے کہا ہاں ہاں ! کیوں نہیں۔ میں بناتا بھی ہوں اور فروخت بھی کرتا ہوں۔
تو بتاؤ ایک محل کی قیمت کیا ہے۔بہلول نے بے ساختہ کہا تیری پوری سلطنت۔
ہارون الرشیدنے کہا ، اتنی قیمت تو میں نہیں دے سکتا، کل تو آپ تین درہم کے بدلے دے رہے تھے، اور آج پوری سلطنت مانگ رہے ہیں؟ بہلول دانا نے کہا، خلیفہ! کل بن دیکھےمعاملہ تھا اور آج تم محل دیکھ کر آئے ہو۔ خلیفہ یہ سن کر گھٹنوں کے بل بہلول دانا کے سامنے مایوس ہوکر بیٹھ گئے۔ اور کہا حضرت آپ مجھ سے میری ساری سلطنت لے لیں۔ اور مجھے ایک محل دے دیں۔ جب بہلول دانا نے خلیفہ کی عاجزی دیکھی تو کہا ۔ کہ میں تمہاری اس سلطنت کا کیا کروں گا۔ اس دنیا کی محبت تو بہت سے گناہوں کی جڑ ہے۔جاؤ اپنی سلطنت اپنے پاس رکھو ۔اس محل کو بھی تمہارے لئے تین درہم میں فروخت کرتا ہوں۔
—————————–
حضرت سیِّدُناسری سقطی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:”ایک بار مجھے قبرستان جانا ہوا۔ وہاں میں نے حضرت سیِّدُنا بہلول دانا رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو دیکھا کہ ایک قبر کے قریب بیٹھے مِٹی میں لوٹ پوٹ ہو رہے ہیں۔میں نے پوچھا:”آپ یہاں کیوں بیٹھے ہیں؟” جواب دیا:”میں ایسی قوم کے پاس ہوں جو مجھے اذیت نہیں دیتی اور اگر میں غائب ہوجاؤں تو میری غیبت نہیں کرتی۔” میں نے عرض کی:”روٹی مہنگی ہو گئی ہے ؟” تو فرمانے لگے:”اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم !مجھے کوئی پرواہ نہیں،اگرچہ ایک دانہ دینار کا ملے۔ ہم پر اس کی عبادت فرض ہے جیسا کہ اس نے ہمیں حکم دیا ہے اور ہمارا رزق اس کے ذمۂ کرم پر ہے جیسا کہ اس نے ہم سے وعدہ کر رکھا ہے۔”
ایک مرتبہ کسی نے کہا : ’’ بہلول ! بادشاہ نے تمہیں پاگلوں کی مردم شماری کا حکم دیا ہے۔‘‘ فرمایا : ’’ اس کے لئے تو ایک دفتر درکار ہوگا۔ ہاں دانا گننے کا حکم ہو تو انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں –
ایک دن بہلول بازار میں بیٹھے ہوئے تھے کہ کسی شخص نے پوچھا بہلول کیا کر رہے ہو تو بہلول نے کہا کہ بندوں کی اللہ سے صلح کروا رہا ہوں۔
اس شخص نے کہا کہ پھر کیا بنا؟
بہلول نے کہا کہ اللہ تو مان رہا ہے لیکن بندے نہیں مان رہے۔
کچھ عرصہ بعد اسی شخص کا ایک قبرستان کے پاس سے گزر ہوا تو دیکھا بہلول قبرستان میں بیٹھے ہیں۔
قریب جا کر پوچھا بہلول کیا کر رہے ہو۔
بہلول نے کہا بندوں کی اللہ سے صلح کروا رہا ہوں۔
اس شخص نے کہا کہ بھر کیا بنا؟
بہلول نے کہا بندے تو مان رہے ہیں مگر آج اللہ نہیں مان رہا ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad