تازہ ترین

بدھ، 20 مئی، 2020

ہندوستان میں مسلمان، مزدور اور معیشت خطرے میں

از قلم:محمد عارف رضا نعمانی مصباحی ایڈیٹر: پیام برکات، علی گڑھ 
ہندوستان ایسا ملک ہے جہاں مختلف رنگ و نسل کی بےشمار قومیں آباد ہیں سینکڑوں برس سے یہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے شیر و شکر ہو کر زندگی گزار رہے ہیں لیکن نہ جانے وطن عزیز کو کس کی نظر لگ گئی ہے اس کے امن کو، اس کے بھائی چارہ کو، اس کی یکجہتی کو، سالمیت کو، اور اس کی معیشت کو جو دن چڑھے رو بہ زوال ہے۔ ہندوستان، تن کے گورے من کے کالے فرنگیوں سے آزاد تو ہوا لیکن ان جیسی ذہنیت رکھنے والوں کے تسلط میں جا گھرا، اب ملک کےاقلیتی طبقے کو ایک اور آزادی چاہیے وہ ہے ہندوتوا سے آزادی، منوواد سے آزادی، جس کی مانگ شاہین باغ کی دلیر خواتین کر رہی تھیں،لیکن اب طاقت کے بل پر، پروپیگنڈہ کے ذریعے ان کی اس آواز کو بھی دبایا جارہا ہے۔ دراصل نیت کی خرابی طرز حکمرانی کی چغلی کرتی ہے،شیر کی کھال پہننے والا گیدڑ، گیدڑ ہی رہتا ہے۔

اس وقت ملک میں تینوں میم خطرے میںہے، یعنی مسلمان، مزدوراور معیشت۔ہر طرف مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے،مزدور جو ملک کے لیے ریڑ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں وہ اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں، راہ کے چھالے ان کے پیروں کی زنجیر بن گئے ہیں۔ بھوک سے نہ جانے کتنے کنبے موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں۔معیشت چالیس سال کی سب سے نچلی سطح پر پہنچ گئی ہے۔ 2020 ء میں ملک کی جی ڈی پی گروتھ 1.9 فیصد ہے جب کہ دو سال پہلے 6.1 فیصد ہے، آپ اندازہ لگائیں کہ معیشت کہاں کھڑی ہے، جب کہ 2021ء میں جی ڈی پی گروتھ 7.4 فیصد ہونے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔اب کس اچھے دن کا انتظار ہے۔ملک کی عوام کو کب تلک جھانسہ دے دے کر حکومت کی روٹی سینکی جائے گی۔آزادی کے بعد سے ہی مسلمان ہر محاذ پر فرقہ واریت کے شکار ہوئے ہیں، اس کی ایک مثال ملاحظہ کریں:آر ایس ایس کے مفکر سدانند دامودر لکھتے ہیں کہ ''آر ایس ایس کے ممبران نے دکھاوے کے لیے مسلمانوں کا مذہب اختیار کیا، تاکہ وہ مسلم لیگ کا بھروسہ حاصل کر کے ان کے منصوبوں کا پتہ لگا سکیں''۔

(ParamaVaibahv ke Path par, P. 86, Sadanand Damodar Sapre, 1997, Suruchi Prakashan, Delhi)

1947ء کے اس واقعے سے پتہ چلتا ہے کہ آر ایس آرایس کے ممبران صرف لباس، پوشاک اور نام مسلمانوں جیسا رکھ کر مسلم سماج میں رہتے ہیں تاکہ وہ مخبری یا جاسوسی کرسکیں، ایک دو نہیں ایسے متعدد واقعات رونما ہوئے ہیں مثلاً کسی کانفرنس یا مذہبی پروگرام میں مسلمانوں جیسا روپ دھار کر چلے آئے فرقہ واریت پھیلانے، جیسا کہ 1985ء میں سیوان کی مسلم پرسنل لاء کانفرنس میں ہوا اس میں یہ پروپگنڈا کیا گیا کہ یہ کانفرنس ہندو مسلم فسادکرانے کے لیے منعقد کی جارہی ہے۔آخر اس سازش کا پردہ فاش ہوا۔اس لیے حالات دیکھتے ہوئے میں مسلمانوں کو خبردار کر رہا ہوں کہ کوئی بھی مذہبی، سیاسی یا سماجی پروگرام ہو اس میں بہتر حفاظتی اقدامات کیے جائیں تاکہ کوئی بھی اسلام اور مسلمانوں کا لبادہ اوڑھ کر پوری قوم کو خطرے میں نہ ڈال دے۔

ایک دوسری مثال دیکھیں: بھارت کے پہلے صدر جمہوریہ ڈاکٹر راجندر پرساد، اس وقت کے وزیر داخلہ سردار پٹیل کو لکھتے ہیں کہ '' مجھے اس بات کی اطلاع دی گئی ہے کہ آر ایس ایس کے ممبران نے فتنہ اور شر پھیلانے کا منصوبہ بنایا ہے انہوں نے اپنے کئی ممبران کو مسلمانوں کی پوشاک پہنا کر ان کی شکل و صورت اور چہرہ مسلمانوں جیسا بنا کر مسلمانوں کے ہجوم میں بھیجنے کا منصوبہ بنایا ہے، تا کہ وہ وہاں جا کر ہندوؤں پر حملہ کرسکیں، اس حملے سے ہندو ورغلا جائیں گے اور مسلمانوں پر حملہ کریں گے اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہندو اور مسلم فسادات ہونگے''۔

(Dr. Rajendra Prasad to Sardar Patel (March 14, 1948) cited in Neerja Singh (ed.), Nehru-Patel: Agreement Within DifferenceظSelect Documents & Correspondences 1933-1950, NBT, Delhi, p. 43)
exposing those who spread hatred in the society, By syed fazlullah chishti) 

    آزادی کے وقت کے یہ دونوں واقعات آر ایس ایس کے مقاصد اور طریقہ کار کو واضح کرتے ہیں، آر ایس ایس اور اس سے منسلک دیگر تنظیموں نے آج بھی اپنے اس نفرت کے کاروبار کو جاری رکھا ہے، آزادی سے لے کر آج تک برابر ایسے واقعات رونما ہوتے رہے،اب نفرت کی آگ بالکل بھڑک چکی ہے اور ایک خاص طبقے کے لیے کھلے عام نفرت پھیلائی جا رہی ہے، جو ہندوستان میں مسلمانوں کے وجود کے لیے نقصان دہ ہے۔ملک کا ایک بڑا مسئلہ مزدوروں کے روزگار، اور معیشت کا ہے۔یہ ہر زمانے میں بےیار و مددگار پریشان پھرتے رہےکوئی ان کا دکھ سننے والا نہیں، آپ کو اندازہ ہوگا کہ caa اورnrc لاکر مزدوروں اور غریبوں کو پریشان کیا گیا۔ آج جب کہ لاک ڈاؤن ہوا تو غریب مزدور ہی مارے جا رہے ہیں، کاروبار بند ہے، کھانے کے لالے پڑے ہیں، چار وناچار پیدل گھر کے لیے نکل گئے کہ گھر پر چین کی دو روٹی ملے گی، ان میں بعض گھر پہنچنے سے پہلے ہی اس دنیا کو چھوڑ گئے۔ لاکھوں مزدور بھوک مری کے شکار ہیں۔

حکومت کو ان حالات میں غریب مزدوروں کی راحت رسانی کی بہتر فکر کرنی چاہیے۔لاک ڈاؤن کے 45 روز بعد یہ جو بیس لاکھ کروڑ کے اقتصادی پیکج کا اعلان کیا گیا،اس کے بارے میں ماہرینِ معاشیات کا کہنا ہے کہ یہ رقم بھی نقدی کی صورت میں سیدھے غریب کے ہاتھ میں جانا چاہیے تاکہ ان کی بنیادی ضروریات بروقت پوری ہو سکیں۔صرف ٹیکس میں راحت کافی نہیں ہے،جب کہ ٹیکس ادا کرنے والے اکثر بڑے صنعت کار اور کمپنی مالکان ہیں دن بھر کام کرنے والا پریشان حال مزدور کہاں سے ٹیکس ادا کرے گا، کس کواداکرے گا؟اکثردیکھا گیا ہے کہ حکومتی پیکج کا فائدہ براہ راست غریبوں کو نہیں ملتا بلکہ ٹکڑوں میں آدھا پونا ملتا ہے حکومت کو ایسا کوئی انتظام کرنا چاہیے جس سے براہ راست غریبوں کا فائدہ ہو، اور حکومت کی مدد ان تک بہ آسانی پہنچ سکے۔

    حکومت کو تو معیشت کے پٹری پر لانے کی فکر لگی ہے لیکن جن مزدوروں کے کام کی وجہ سے معیشت آگے بڑھتی ہے،ان کی کوئی فکر ہی نہیں۔اب جو مزدور مصیبت جھیل کراور فاقہ کشی کے بعد گھروں کو واپس ہوئے ہیں کیا اب وہ پھر کبھی بڑے شہرکا رخ کریں گے؟اب کس امید پر وہ شہروں کا رخ کریں گے؟ اس کی بھی فکر کرنے کی ضرورت ہے، تبھی معیشت میں سدھار ممکن ہے۔یہ یاد رہے کہ ملک کی معیشت میں غریبوں کا بھی اہم حصہ ہوتا ہے۔ اس لیے حکومت سب کے ساتھ مل کر کام کرے تبھی سب کے ساتھ سب کا وکاس بھی ہوگا۔سابق وزیر خزانہ پی چدمبرم نے کہا کہ جب تک ملک کا عام آدمی خود کفیل نہیں ہوگا اس وقت تک ملک خود کفیل نہیں ہوگا جب ملک خود کفیل نہیں ہوگا تو ترقی نہیں کر سکتا، اس لیے ملک کو ترقی دینے کے لیے ملک کے نچلے طبقے کی ترقی کے راستے کھولے جائیں تب ملک خود کفیل ہو کر ترقی کر سکے گا۔

    جب ملک تیسرے لاک ڈاؤن میں تھا تو شراب کی دکانیں کھولی گئیں تاکہ دم توڑتی معیشت کو کچھ سہارا دیا جا سکے،جب کہ وزیراعظم نے نوجوانوں کے لیے شراب نوشی کو خطرناک بتایا۔ اب یہی بھکت اگر پی ایم صاحب کی بات مان لیں،شراب سے باز آجائیں اورحکومت بھی اس کے خلاف کاروائی کرے، شراب بندی کرے، صرف زبانی جمع خرچ سے کچھ نہیں ہوگا۔ تو گھریلو تشدد اور بدعنوانی کا خاتمہ ہو سکے گا۔ ارباب اقتدار سے گزارش ہے کہ ملک و ملت کی بروقت صحیح رہنمائی کریں۔ نوجوانوں کو روزگار کے مواقع فراہم کریں۔ملک کی جمہوریت کی بقا کے لیے فرقہ پرست عناصر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں۔ ہاں کمپنی کے مالکان بھی اپنے مزدوروں کو بحال رکھیں ایسا نہ ہو کہ ان کو لاک ڈاؤن اور کورونا کا واسطہ دے کر باہر کا راستہ دکھائیں، ان کو کام پر لگائیں۔گروگرام سے ایک افسوس ناک خبر آئی تھی کہ ایک گارمینٹس کمپنی نے درجنوں مسلمانوں کو یہ کہہ کر واپس کر دیاکہ روزہ رکھنے اور نماز پڑھنے والوں کے لیے کوئی کام نہیں، لہٰذا مذہب اور رنگ و نسل کی بنیاد پر بھید بھاؤ ملک کے لیے خطرہ ہے ایسے واقعات دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں جن کی روک تھام ضروری ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad