تازہ ترین

منگل، 5 مئی، 2020

افطار اور سحری یعنی اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے انمول ذرائع

محمدشفاء اللہ ندویؔ
افطار کی تعریف:
روزہ دار کا سورج غروب ہونے کے فوراً بعد بلا تاخیر کچھ کھانا روزہ کھولنا اور افطار کہلاتا ہے۔
افطار کا وقت:
 ثم اتموا الصیام الی ٰ اللیل (سورۃ البقرۃ) پھر صبح صادق سے رات تک روزہ کو پورا کرلیا کرو۔حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم افطار اور مغرب کی نماز کی ادائے گی میں وقت ہو جانے پر  جلدی فرمایا کرتے تھے ۔عن سہل بن سعد قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا یزال الناس بخیر ما عجلوا الفطر  (ترمذی) میری  امت کے لو گو ں کو بھلائی پر قائم رہنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ افطار میں جلد ی کریں۔ مگر دھیان رہے جلدی کامطلب یہ نہیں ہے کہ سورج غروب ہونے سے پہلے ہی افطار کرلیا جائے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ جب سورج کے غروب ہونے کا علم پختہ ہو جائے تو پھر محض شک وشبہ اور وہم کی بنیا دپر تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔

افطار میں جلدی کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگا یا جا سکتا ہے کہ اسے دیگر ادیان و مذاہب پر غلبہ حاصل کرنے کا  ایک ذریعہ کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ابو داؤد شریف میں ہے لا یزال الدین ظاہراً ماعجل الناس الفطر لأن الیہود والنصاریٰ یؤخرون۔”دین اسلام اس وقت تک غالب رہے گا جب تک لو گ افطار میں جلدی کرتے رہیں گے اس لئے کہ یہود ونصاریٰ افطار میں تاخیر کرتے ہیں“اور ہماری کامیابی فی الحقیقت یہود ونصاریٰ کی مخالفت میں ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے کہ اپنے بندوں میں مجھے وہ بندہ زیادہ محبوب ہے جو روزہ کے افطا رمیں جلدی کرے یعنی غروب آفتاب کے بعد بالکل دیر نہ کرے (معارف الحدیث /جامع ترمذی)افطا ر کس چیز سے کرے:کھجور سے افطار کرنا سنت ہے۔حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور ؐ مغرب کی نماز سے پہلے چند تر کھجوروں سے روزہ افطار فرماتے تھے اور اگر یہ تر کھجوریں بروقت موجود نہ ہوتیں تو خشک کھجوروں (چھوارے) سے افطار فرماتے تھے اور اگر خشک کھجوریں بھی نہ ہو تیں تو چند گھونٹ پانی پی لیتے تھے۔حدیث کے الفاظ یہ ہیں: عن أنس ابن مالک رضی اللہ عنہ قال:کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یفطر علیٰ رطبات قبل أن یصلی  فان لم تکن فعلیٰ تمرات فان لم تکن حسا حسواتٍ من ماءٍ (ابودا ؤد)۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت سے اپنے ایک خطاب میں ارشاد فرمایا تھا کہ اذا کان أحدکم صائماًفلیفطر علیٰ التمر فان لم یجد التمر فعلی الماء فان الماء طہوراً(ابوداؤد) ترجمہ: جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو وہ کھجور سے افطارکرے اور اگر کھجور نہ پائے تو پھر پانی ہی سے افطار کرے اس لئے کہ پانی کو اللہ نے طہور بنایا ہے۔

افطار کی دعاء: افطار شروع کرنے سے پہلے دعا پڑھنا مسنون ہے۔حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جب افطار کرتے تو یہ دعا پڑھتے ”اللہم لک صمت وعلیٰ رز قک افطرت“ (ابود اؤد)ترجمہ: اے اللہ میں نے تیرے لئے روزہ رکھا اور تیرے ہی رزق سے افطار کیا۔ افطار کرلینے کے بعد پڑھنے کی دعا ء:افطار سے فارغ ہونے کے بعد دعاء پڑھنا مسنون ہے۔آپ ؐ افطار کے بعد یہ دعا ء پڑھا کرتے تھے۔ ذہب الظمأ وابتلت العروق و ثبت الأجر انشاء اللہ (ابوداؤد) ترجمہ: پیاس بجھ گئی اور رگیں آسودہ ہو گئیں اور انشاء اللہ اجر ثابت ہوگا۔ کسی روزہ دارکو روزہ افطار کرانے کا اجر:کسی روزہ دار کو افطار کرانا ایک بہت بڑی نیکی ہے جسکی سعادت ہر کسی کو حاصل نہیں ہوتی۔بلکہ اس کے لئے توفیق الٰہی درکارہے۔ حضور ؐ نے فرمایا من فطر صائماً أ و جہز غازیا فلہ مثل أجرہ(ترمذی)جو شخص کسی روزہ دارکو روزہ افطار کروائے یا کسی غازی کے لئے سامان جہاد فراہم کرے تو اس کو ویساہی اجرملے گا جیساکہ اس روزہ دار کو اس روزہ کے عوض اور غازی کو جہاد کے بدلہ بارگاہ خداوندی سے عطا ہوا۔

کسی کے یہاں افطار کرنے کے بعد پڑھنے کی دعاء: صائم جب کسی کے یہاں افطار کرے تو افطار سے فارغ ہوکر اہل خانہ کے لئے یہ دعا ء اپنی زبان سے کہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کے یہاں روزہ افطا رفرماتے تو میزبان کو یہ دعاء دیتے افطر عند کم الصائمون وأکل طعامکم الأبرار ونزلت علیکم الملائکۃ(رواہ احمد)ترجمہ: روزہ دار تمہارے یہاں روزہ افطار کرتے رہیں، نیک لوگ تمہارا کھانا کھاتے رہیں اور فرشتے تمہارے یہاں رحمت کی سوغات لے کر نازل ہوتے رہیں۔
  افطاری دراصل روزہ کے مقاصد کی تکمیل ہے:افطار کے سلسلہ میں یہ بات ملحوظ رہے کہ وہ رگوں کو ترکرنے اورپیاس کو بجھانے کے لئے اہتمام کے ساتھ بجالایا جاتاہے۔بالفاظ دگر  افطار میں کم کھانا دراصل روزہ کے بعض فوائد کی تحصیل میں کامیابی حاصل کرنا ہے۔ روزہ کا مقصد تو خالی پیٹ رہنااور خواہشات نفس کو دبانا ہے۔تاکہ تقویٰ کی صلاحیت پیدا ہو۔اب اگر دن بھر کی کسر افطار میں نکال لی جائے اور معدے کو حلق تک بھر لیا جائے تو نفسانی خواہشات اور لذات میں کمی تو دور کی بات  اضافہ ہی ہوگا۔اوربہت ممکن ہے کہ وہ تمنائیں اور رغبتیں جو ابھی تک خوابیدہ تھیں  وہ بھی  بیدا رہو جائیں تو پھر روزہ کی روح سے روزہ دار محروم ہی رہا۔ افطار میں کم کھانے سے وہ تمام فوائد حاصل ہوتے ہیں جن کا تذکرہ روزہ کے مقاصد کے طور پر گذشتہ سطور میں آچکا ہے۔لیکن رات کا کھانا بطور کھا نا آسودہ ہو کر کھانا کوئی حرج کی بات نہیں۔

  سحری کی تعریف: 
ر وزہ رکھنے کی غرض سے تہائی رات کے بعد صبح صادق سے پہلے کھائی جانے والی غذا سحری کہلاتی ہے۔ 
 سحری کی فضیلت:
سحری کھانا سنت ہے۔اس میں اللہ نے بے پناہ برکت رکھی ہے۔ حضور ؐ کا ارشادہے تسحروا فان فی السحور برکۃ (ترمذی) سحری کی اہمیت و افادیت بتلاتے ہوئے فخر رسالت کا ارشاد ہے: ان فصل ما بین صیامنا و صیام أہل الکتاب أکلۃ السحر(ابوداؤد)ترجمہ: ہمارے اور اہل کتاب یہود ونصاریٰ کے روزوں کے درمیان فرق و امتیاز سحری کھانا ہے۔حضور ؐ کا ارشاد گرامی ہے کہ سحری میں برکت ہے اسے ہر گز نہ چھوڑو اگرکچھ نہیں تو اس وقت پانی کا ایک گھونٹ ہی پی لیا جائے،کیونکہ سحری میں کھانے پینے والوں پر اللہ تعالیٰ رحمت نازل فرما تاہے اور فرشتے ان کے لئے دعاء خیر کرتے رہتے
 ہیں  (مسند احمد/معارف الحدیث)یہی نہیں بلکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے سحری کے وقت لی جانے والی غذا کو مبارک غذا سے تعبیر فرمایا ہے: حضرت عرباض بن ساریہ کہتے ہیں دعانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الیٰ السحور فی رمضان فقال ہلم الیٰ الغدا ء المبارک (رواہ ابود اؤد)ترجمہ: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان شریف میں سحر ی کے وقت مجھے پکارا تو اس طرح فرمایا”آو مبارک غذالیں“۔
    
سحری کا وقت:
 خداوندقدوس کا ارشاد گرامی ہے  وکلوا واشربو ا حتیٰ یتبین لکم الخیط الأبیض من الخیط الأسود  من الفجر (سورہ بقرہ)ترجمہ: اس وقت تک کھاؤ پیو کہ سفید خط صبح صادق کا متمیز ہوجائے سیاہ خط سے یعنی صبح صادق کے طلوع ہو جائے ورنہ ابتدائے اسلام میں سحری کے حوالے سے یہ حکم تھا کہ رات کو ایک دفعہ نیند آجانے سے آنکھ کھلنے کے بعد کھانا پینا اور بیوی کے پاس جانا حرام ہوجاتا تھا،بعض صحابہؓ سے غلبہ میں حکم کی تعمیل میں کوتاہی ہو گئی  پھر ناد م ہو کر ح ضور ؐ سے  اطلاع کی،ان کی ندامت اور توبہ پر حق تعالیٰ شانہ نے اپنے سارے بندوں پر رحمت فرمائی اور اس حکم کو منسوخ کردیا۔  حض ورؐ کا ارشاد ہے کلوا واشربوا ولا یحیدنکم الساطع المصعد فکلوا وا اشربوا حتیٰ یعترض لکم الأحمر۔ سحری کا وقت صبح صادق رہتاہے۔لہذا کھاؤ پیو اور تیز اوپر کی طرف چڑھتی روشنی یعنی صبح کاذب کو کھانے پینے کے لئے مانع نہ سمجھو بلکہ جب تک سرخی نہ دیکھ لو یعنی صبح صادق جب تک نہ ہوجائے اس وقت تک کھاتے پیتے رہا کرو۔مسلم شریف میں ہے۔حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے نبی پاک ؑ کو فرماتے ہوئے سنا کہ ان بلالاً یؤذن بلیل فکلوا واشربوا حتیٰ تسمعوا تأذین ابن أم مکتوم  کہ حضرت بلا ل رات میں اذان دیتے ہیں لہذا ان کی اذان سنکر سحری کرنے سے نہ رکو حتیٰ کے عبد اللہ بن ام مکتوم کی اذان نہ سن لو۔ حضرت بلا لؓ کی اذان اور اس کے مقصد کی وضاحت کرتے ہوئے حضور ؐ نے ایک اور حدیث میں فرمایا ہے جسے امام ابو داؤد السجستانی ؒ نے اپنی سنن ابو داؤدمیں اس طرح نقل کیا ہے: لایمنعن احدکم أذان بلال ٍ من سحورہ فانہ یؤذن أو قال ینادی لیرجع قائم وینتبہ نائمکم کہ حضرت بلا لؓ کی اذان اس لئے ہوتی ہے کہ تہجد گزار اور شب زندہ دار اشخاص تازہ دم صبح کرنے کی غرض سے تھوڑی دیر لیٹ جائیں اور سونے والے نیند سے بیدا ر ہوکر نماز کی تیاری کرلیں۔
مستحبات سحری:سحری دیر سے کھانا مستحب ہے۔ حضور ؐ نے بھی تاخیر سے سحری فرمائی ہے۔ چنانچہ حضرت زید بن ثا بت ؓ فرماتے ہیں کہ ہم نے حضورؐ کے ہمراہ سحری کھائی  پھر نماز کے لئے مسجد حاضر ہوئے۔ نماز اور سحری کے درمیان اپنے منٹوں کا فاصلہ تھا جن میں پچاس آیتیں تلاوت کی جاسکیں۔(ترمذی) مگر اتنی تاخیر بھی نہ ہو کہ وقت میں شک پیدا ہوجائے۔(فتاویٰ ہندیہ)

سحری کے وقت پڑھنے کی دعاء:  رمضان کے مہینے میں ہر پل خدا کا فضل اور اسکی رحمتیں اس کے مطیع بندوں پر نازل ہوتی رہتی ہیں۔ہرآن مغفرت الٰہی عاصی بندوں کو اپنی چادر میں لپیٹنا چاہتی ہے۔ اور سحری کا وقت چونکہ آخری رات کا ہوتاہے اسی لئے اس وقت بارگاہ خداوندی میں اس کی خشیت اور گناہوں پر ندامت کے باعث ٹپکنے والے آنسو جہنم کے شعلوں کو سرد کرتے ہیں۔لہذا اس وقت میں خدا کا فضل اور اس کی مغفرت طلب کرنی چاہئے اور ممکن ہو تو بڑے آسان لفظوں میں اس دعا کا ورد کریں۔ یاواسع الفضل اغفرلی۔اے بے پایاں فضل فرمانے والی ذات واجب الوجود مجھے بخش دے۔
 سحری سے متعلق چند اہم مسائل:
(۱) سحری روزہ کے لئے شرط نہیں سنت ہے۔لہٰذ ا بغیر سحر ی کے کسی نے روزہ کی نیت کرلی تو اس کا روزہ ہوجائے گا۔یہ الگ بات کہ وہ روزہ دار سحری کی  برکت سے محروم رہ گیا۔
(۲) روزہ کی نیت کرچکنے کے بعد بھی صبح صادق تک کھانا پینا وغیرہ جائز ہے۔(فتاویٰ ہندیہ)
(۳)سحری کھانا چاہئے خواہ تھوڑا ہی ساہو یا ایک گھونٹ پانی ہی ہو یا محض ایک کھجور ہی(اگر میسر ہو) کیوں نہ ہو۔
  (۴) سحری اتنا زیادہ مقدار  میں نہ کھائے کہ سورج نکلنے کے بعد ڈکاریں اور انکے ساتھ پانی آجائے اور نہ اتنا کم کھائے کہ عبادت میں 
 کمزوری محسوس ہونے لگے۔
(۵) سحر کے وقت نیند سے بیدا رہونے کیلئے مختلف جدید وسائل کا استعمال اس طور پر کرنا کہ انسانیت کے کسی طبقے کو تکلیف نہ پہونچے۔آج کل گاؤں اور بعض شہروں میں سحری کے لئے لوگوں کو جگانے کی خاطر لاؤڈ اسپیکر اور مائک کا انتظام کیا جاتاہے جس سے نہ صرف دوسرے مذہب کے ماننے والوں کو تکلیف اور اذیت پہونچتی بلکہ اس دین حنیف کے ماننے والے اپنی انفرادی عبادت میں اس غیر اخلاق حرکت کی دخل اندازی بڑی مقدار میں محسوس کرتے ہیں۔ایک سچا روزہ دار روزہ شروع کرنے سے پہلے ہی کسی انسان کو تکلیف پہونچانے کا سبب بن جائے روزہ کی اخلاقیات کے خلاف اور بسا اوقات اس مبارک عمل کے لئے نقصان دہ بھی ثابت ہوجاتاہے۔اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بلا وجہ کسی کو ایذا پہونچا نا کبیرہ گناہ ہے۔(مضمون نگار درس تدریس سے وابستہ ہیں)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad