تازہ ترین

جمعرات، 14 مئی، 2020

اسلامی رواداری زمانہء ماضی اور حال میں


       اسلام ایک کامل ،مکمل اور ہمہ گیرنظام حیات ہے ۔یہ دین  مساوات ومؤاسات ، اخوت وہمدری،صلہ رح ومؤاخات،رواداری وغم خواری، ایک دوسرےکےدردکوسمجھنے اورغموں کوبانٹنےکی تعلیم دیتا ہے۔ کسی ایک انسان پرظلم وزیادتی اور ناحق قتل کرنےکوپوری انسانیت کوقتل کرنےکا مرادف قرار دیتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
  من قتل نفسابغیرنفس أوفسادفی الأرض فکأنماقتل الناس جمیعاومن أحیاھافکأنماأحیاالناس جمیعا⁦، اوراس شعرکامصداق ہونے پر ابھارتاہے!!
      
  خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
       سارے جہاں کا درد ہمارے جگرمیں ہے

اگردنیاکےکسی گوشےمیں کسی کو ظلم وبربریت کانشانہ بنایا جارہا ہوتواسےایک جسم کے مانند قراردےکرپوری قوم کو درد محسوس کرنے کی تلقین کرتا ہے۔اسی طرح جسطرح جسم کےکسی حصےمیں تکلیف ہوتی ہےتوپوراجسم درد محسوس کرتا ہے ۔
 شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نےکیاہی خوب کہا ہے کہ!!
قو م گو یا جسم ہے افراد ہے اعضاء  قوم
منزل صنعت کی رہپیماہےدست وپاہےقوم
            مبتلاۓ د ر د کو ئ عضو ہو ر و تی ہے آنکھ
            کسقدر ہمدرد سارےجسم کی ہوتی ہے آنکھ
چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔

يأيهاالناس إناخلقناكم من ذكروأنثي وحعلناكم شعوباوقبائل لتعارفوا إن أكرمكم عند الله أتقاكم.
     اور حجۃالوداع کےموقع پر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ "لافضل لعربی علی أعجمی ولالأبیض علی اسود الابالتقوی کلکم من آدم وآدم من تراب""💡

اسلام ہی وہ واحد، بےنظیراوربےمثیل مذہب ہےجوغیروں کےساتھ بھی رواداری عفوودرگزرکامعاملہ کرتاہے۔
عصرجاہلی کےتتبع سےیہ بات منکشف ہوتی ہےکہ کس طرح سے عربوں نے جنگوں کوذریعئہ معاش بناکر ایک دوسرے کی جان کو ارزاں سمجھنےپرفخرمحسوس کرتےتھے۔اور کس قدر بےرحمی اورسنگدلی سےایک دوسرے کو زندگی کی سانسوں سے محروم کرتےتھے۔ذراذراسی بات پرسالہاسال جنگیں چلتیں ۔اگر کسی قوم کا کوئ فرد قتل ہوجاتاتوجب تک ثأر(بدلہ)نہ لیتے جنگ سےبازنہیں آتےتھے۔

لیکن جیسےہی تاجدارِ مدینہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اس جہاں میں جلوہ گر ہوتے ہیں ان تمام مظالم کی بیخ کنی  استئصال اور جڑسےختم کرنےکافریضہ انجام دیتے ہیں۔ جنگ میں اقدام نہیں کرتے لیکن جب کوئ حملہ آور ہوتاتواسکی دفاع  کےلئے مجبوراجنگ کرتے ۔ قربان جائیے رحمۃ للعالمین پرکہ ایسی جانگسل جنگوں میں بھی بوڑھوں ،بچوں ،عورتوں ۔معذورں اور کمزوروں کو قتل کرنےسے منع فرماتےاورجوقیدکرلئےجاتےان کےساتھ حسن سلوک کرنےکاحکم دیتے ۔صحابہء کرام خود کھجوریں کھا کر صبرکرتے لیکن قیدیوں کو کھانا کھلاتے اور انکے ساتھ مہمانوں سابرتاؤکرتے حالانکہ اعداء اسلام مومنوں کو جنگ میں بہت ہی درندگی وبربریت کےساتھ قتل کرتے، لاشوں کومثلہ کیا کرتےتھے۔اورقیدیوں کوطرح طرح کی تکلیفیں اور ایذائیں پہونچایا کرتے تھے۔ 
  
   گویاآج وہی زمانہ لوٹ کر آگیا ہے ۔ہرطرف قتل وغارت گری اور ظلم و تعدی کابازار گرم ہے۔بےگناہوں اور معصوموں کوھجومی تشدد، مآب لینچنگ اور اجتماعی فسادات میں پیٹ پیٹ کر موت کے گھاٹ اتارا جارہا ہے۔
آج جہاں پوری دنیا کورونا جیسی وبا سےجوجھ رہی ہےوہیں ہندستان میں کورونا کےاحتیاطی تدابیر کےنام سے مسلمانوں کوبےرحمی سے ماراجارہاہے۔بنگلور میں دولڑکوں کو اسلئےبےدردی سے مارا گیا کیونکہ انکےسروں پر ٹوپیاں تھیں ۔گجرات کےاسپتال میں ایک حاملہ عورت جودرد زہ میں پریشان تھی اس کاایڈمٹ اسلئے نہیں ہوا کیونکہ وہ مسلمان تھی۔ دلی میں محمد عمران کو روزے کی حالت میں اسلئے تشدد کانشانہ بنایا گیا کیونکہ اسکے جسم پر کرتاپاجامہ تھا۔

تبلیغی جماعت کے امیر مولانا سعد صاحب پراسلئے ایف آئ آر درج ہوا کیونکہ وہ پیغام اسلام  کو عام کرتےہیں۔حالانکہ ایودھیااوردیگر جگہوں پر موجود جم غفیر اورایک  بڑی تعداد شوشل ڈسٹینس کی خلاف ورزی کررہی تھی۔
ان تمام مظالم کے باوجود اہل اسلام اپنی رواداری اور انسانیت نواز پیغام کو عام کررہے ہیں ۔آج جہاں جہاں بھی غریب وفقیر بھوک سے پریشان ہیں ان کوبلاتفریق مذہب کھلانےاور دکھ دردکوبانٹنےکاکام کر رہے ہیں۔ 

وہی تبلیغی جماعت جسکےسرکوروناپھیلانےکاالزام تھوپاجارہاہے وہی  اپنے خون سے سسکتے،کراہتےاور دم توڑتے ہوئے لوگوں کو کارگہ حیات میں دوبارہ سانس لینے کاموقع فراہم کررہی ہے ۔

وہی تبلیغی جماعت جواجتماعی فاصلے کی خلاف ورزی کےنام پرکوارنٹائن کی جارہی ہے وہی جماعت    اسلامی رواداری اور اسوہ رسول کو عام کرتےہوۓ اپنی جان پرغیروں کوترجیح دے رہی ہےاور دنیا کویہ ماننےپر مجبور کر رہی ہے کہ !!
اسلام  ہی کے دم سے ہے سرسبز گلستاں
دھنس جائیگاچمن جومسلماں نہ ہویہاں

 اور یہی اہل اسلام چودہ سوسال پہلے کی رواداری کے اسباق دوہرارہےہیں ۔ان پر ایک عربی شعر پوری طرح صادق آرہا ہے!!!لایجزون من حسن بسیئ    ولایجزون من غلظ بلین   آج جہاں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دیگراقلیت بھی ناگفتہ بہ مصائب آلام سےدوچارہورہےہیں۔ کبھی کسی دلت کوزندہ جلادیا جاتا ہے لیکن کسی کی زبان نہیں کھلتی۔بلاجرم بہت سارےشودروں کوپیٹ پیٹ کرقتل کردیا جاتا ہے لیکن کسی کی رگ حمیت نہیں بھڑکتی ۔دیگرمذاہب نےتانکو انسانی حقوق سےسرتاپامحروم کردیا ہے۔بلکہ ان کو دنیامیں رہنےکابھی مستحق نہیں سمجھتے۔
   
ظلم کے خلاف اگرآواز اٹھاتےہیں تو مسلمان ۔
ان پرکوئی آہ بھرتا ہے تومسلمان
انکو کوئ انسانیت کے ناطے انسان تصورکرتاہےتومسلمان ۔
اور دنیاکوتسلیم کرنےپر مجبور کرتےہیں کہ !!!
                تاریـخ  بتا تی ہے کہ ہر دور سـتم میں
              ہم زندہ تھےہم زندہ ہیں ہم زندہ رہینگے

پرویز عالم ندوی
دار العلوم ندوہ العلماء لکھنؤ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad