تازہ ترین

اتوار، 17 مئی، 2020

جب عراق میں دو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی قبر مبارک کھولی گئی تو۔۔۔

اسلام کی حقانیت کی دلیل1932ء میں عراق کے قصبہ ”سلمان پاک“ میں ایک ایسا روح پرور واقعہ پیش آیا جو اسلام کی حقانیت اور ہمارے اسلاف کے ایمان کا منہ بولتا ثبوت ہے۔بغداد سے 30 میل دور قصبہ سلمان پاک کی ایک پُرشکوہ عمارت میں صحابی رسول سیّدنا سلمان فارسی )رضی اللہ تعالٰی عنہ( کا مزارِ مبارک ہے اور اب اِسی مزار کے گنبد سے مُتصل رحمۃ اللعالمین )صلّی اللہ علیہ وآلہِ و سلّم( کے دو جلیل القدر صحابہ )جن سے متعدد احادیث مروی ہیں( حضرت”حذیفہ بن الیمان“ اور حضرت ”جابر بن عبداللہ بن عمرو بن حرام الانصاري“ )رضوان اللہ علیہم اجمعین( کی قبورِ پُرنور موجود ہیں۔لیکن یہ قبور پہلے یہاں نہیں تھیں بلکہ سلمان پاک سے تقریباً تین یا چار فرلانگ کے فاصلے پر ایک غیر آباد جگہ پر موجود تھیں جہاں زیرِ زمین پانی کے سبب حضرت حذیفہ بن الیمان نے دو مرتبہ شاہِ عراق شاہ فیصل اوّل کے خواب میں آ کر اُس سے کہا کہ ”مجھے اور جابر کو یہاں سے منتقل کر دو کیونکہ دریائے دجلہ کا پانی قبر میں رِس رہا ہے۔ “شاہِ عراق نے مسلسل دو راتوں تک یہی خواب دیکھا مگرسمجھ نہیں پایا۔ تیسری رات حضرت حذیفہ نے مفتی اعظمِ عراق نوری السعید پاشا کے خواب میں آ کر یہی بات دہرائی اور جب مفتی صاحب نے شاہِ عراق سے اس کا ذکر کیا تو اُس نے فوراً ہی اُن سے عرض کی کہ ”آپ مزارات سے اجسادِ مبارکہ منتقل کرنے کا فتویٰ جاری کر دیجیے۔

 میں بلا کسی تردّد عمل کروں گا۔ “فتویٰ اور شاہی فرمان عراق کے تمام اخبارات میں شائع ہوا اور خبر رساں اداروں نے اس تاریخی خبر کو پوری دنیا میں پھیلا دیا۔ مقررہ دن یعنی 24 ذی الحجہ، 25 اپریل، پیر کے دن 1932 عیسوی میں ہزاروں )یا شاید لاکھوں( انسانوں کی موجودگی میں یہ مزارات کھولے گئے تو معلوم ہوا کہ حضرت حذیفہ بن الیمان کی قبر مبارک میں پانی آ چکا تھا اور حضرت جابر بن عبداللہ کے مزار میں نمی پیدا ہو چکی تھی۔ تمام ممالک کے سُفراء اور عراقکے اراکینِ حکومت، مذہبی رہنماؤں اور شاہِ عراق کی موجودگی میں پہلے حضرت حذیفہ کے جسدِ مبارک کو کرین کے ذریعے زمین سے اس طرح اوپر اٹھایا گیا کہ مقدس نعش کرین کے ساتھ رکھے ہوئے سٹریچر پر خود بخود آ گئی اور پھر کرین سے سٹریچر کو علیحدہ کر کے شاہ فیصل، مفتی اعظمِ عراق، وزیر مختارِ جمہوریہ تُرکی اور ولی عہدِ مصر شہزادہ فاروق نے کاندھا دیا اور یہ جسدِ مقدس بڑے احترام سے شیشے کے تابوت میںرکھ دیا گیا۔ پھر اسی طرح حضرت جابر بن عبداللہ کے جسدِ مبارک کو قبر سے نکالا گیا۔

 اس تمام کاروائی کو ویڈیو کیمروں کے ذریعے فلمایا گیا اور یہ روح پرور مناظر بعد ازاں عراق کے سینما گھروں میں دکھائے گئے۔ انواقعات کو براہِ راست دیکھنے والوں میں مُسلم اور غیرمُسلم ہر طرح کے افراد شامل تھے۔ ان مناظر کو دیکھ کر ہزاروں غیرمُسلموں نے اسلام قبول کر لیا۔حدیث لکھنے اور روایت کرنے والے اِن عظیم المرتبت صحابہِ کرام کے چہروں، کفن اور ریش مبارک دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ جیسے انہیں رحلت فرمائے 1400 برس نہیں بلکہ صرف چند گھنٹے ہی گزرے ہیں۔ سب سے حیرت انگیز بات یہ تھی کہ دونوں صحابہِ کرام کی آنکھیں کُھلی ہوئی تھیں اور اُن میں اتنی چمک تھی کہ بہتوں نے چاہا کہ اِن آنکھوں کو دیکھ لیں مگر دیکھنے والے کی آنکھیں ایسے چندھیا جاتیں کہ ہر شخص دُور ہٹ جاتا۔ اور یقیناً وہ دیکھ بھی کیسے سکتے تھے کہ اُن آنکھوں میں میرے سرکار )صلّی اللہ علیہ و آلہِ وسلم( کو دیکھ اور اُن کی شبیہ کو محفوظ کر رکھا تھا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad