تازہ ترین

اتوار، 10 مئی، 2020

جنت کی ٹکٹ ہے فلم کی نہیں، کہ ہر ایرا غیرا نتھو خیرا حاصل کرلے

تحریر: محمد شعیب رضا نظامی فیضی ایڈیٹر: ہماری آواز، گولابازار، گورکھپور
رواں سال رمضان المبارک کے آغاز میں عرفان خان نامی فلمی ادا کار کا اس دنیا سے کوچ ہوا۔ اس کے بعد ہر طرف سے تعزیتی پیغام کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اچھی بات ہے مرنے والے انسان کی خوبیوں اور برائیوں کو ایک طرف رکھ کر مذہب ودھرم کو درکنار کرتے ہوئے ہر ایک انسان کی موت پر تعزیت پیش کرنا بلاشبہ درست بلکہ حسن اخلاق کا تقاضہ ہے۔ مگر کچھ لوگوں نے دعاے مغفرت وغیرہ بھی کرنی شروع کردی!!! اور کچھ لوگوں نے اس کے جنتی ہونے کی بشارت تک دے ڈالی جیسے کہ جنت کی کنجی انھیں کے ہاتھوں میں ہو، جب ثبوت مانگا گیا تو آقاے کریمﷺ کی حدیث پاک کا ٹکڑا پیش کردیا کہ جو رمضان یا جمعہ کے دن مرا وہ جنت میں داخل ہوگا۔ بلا شبہ آقاے نامدارﷺ کا فرمان حق ہے۔ مگر جو مطلب ان لوگوں نے نکال کر مزکور اداکار کو ڈائریکٹ جنت میں ڈالنے کی کوشش کی وہ سراسر غلط ہے۔ آئیے ذیل میں تفصیلی گفتگو کرتے ہیں۔۔۔۔۔

۞اس حدیث کو محققین علما نے ضعیف قرار دیا ہے مگر احادیث ضعیفہ بھی باب فضائل میں معتبر ہیں۔
۞علماے کرام کا اس بات میں کافی اختلاف ہے کہ رمضان یا جمعہ کے دن رات میں مرنے والوں کو عذاب قبر سے چھٹکارا صرف جمعہ کے دن یا صرف رمضان کے پورے مہنیے ملتا ہے یا ہمیشہ ہمیش کے لیے۔ اگر چہ ہم اللہ کی بے پناہ رحمتوں سے یہی امید کرتے ہیں کہ وہ ہمیشہ ہمیش کے لیے جمعہ اور رمضان میں مرنے والوں کو عذاب قبر سے محفوظ رکھے۔
۞احادیث میں جہاں بھی کسی کے مرنے پر جنت کی بشارت دی گئی ہے وہاں علما ومحدثین کی جماعت نے واضح کیا ہے کہ حکم فقط مسلمانوں نے کے لیے ہے۔ لہذا ثبوت بشارت فقط مومن کے لیے ہے کافر ومشرک کے لیے نہیں۔
اب مذکور اداکار کی بات کرتے ہیں۔۔۔۔
۞ نام سے ایسا لگتا ہے کوئی بہت پرہیزگار مسلمان نے "عرفان خان" مگر کام کیا کیا کرتے ہیں صاحب؟؟؟؟
۞چند روپیوں کے لیے سرعام خوشی بخوشی بت پرستی کا جرم عظیم، مطلب شرک۔ جب کہ قرآن کا فرمان ہے "ان الشرک لظلمٌ عظیمٌ" بیشک شرک سب سے بڑا گناہ ہے۔ اور جرم بالاے جرم کہ اپنی مشرکانہ حرکتوں کی خوب خوب تشہیر بھی ؎ شرم تم کو مگر نہیں آتی۔

۞قربانی کے متعلق موصوف کا بیان کہ "قربانی کرنے کے مطلب جانور ذبح کرنا نہیں" حد ہے صاحب! خود شارع علیہ السلام فرماتے ہیں "ما عمل آدمی فی ھذا الیوم افضل من دم یھراق" قربانی کے دن کسی آدمی کا کوئی عمل (جانور کا) خون بہانے سے بہتر نہیں۔ اب آپ خود فیصلہ کریں کہ شارع کی بات معتبر ہے یا ان صاحب کی؟

موصوف کے کفریہ،شرکیہ اور گمراہ کن کاموں جملوں کی داستان یقینا طویل ہوگی مگر اپنی معلومات کے مطابق محض دو باتیں پیش کی تاکہ واضح ہو جائے کہ موصوف ایمان کے ساتھ دنیا سے اٹھے یا پھر کفر وشرک پر۔ ہاں کچھ لوگوں کو اعتراض کا حق حاصل ہے کہ وہ کہیں ایمان باطنی معاملہ ہے آپ حکم کیسے لگا سکتے ہیں یہ تو اللہ ہی کو معلوم ہوگا کہ اس کا ایمان سلامت تھا یا نہیں؟" تو پہلے ہی عرض کردوں کہ یقیناً حقیقی حال اللہ کو معلوم ہے مگر حکم ظاہر پہ لگتا ہے باطن پر نہیں۔ ہوش کے ناخن لیں کہ آپ بڑے ڈنکے بجا کر موصوف کو مسلمان اور ایمان والا بتا رہے ہیں اور کل بروز جزا حقیقت یہ  ثابت ہوا کہ وہ کافر ومشرک ہے تو کیا عذر پیش کریں گے؟ کہ اے اللہ! ہمیں معلوم نہیں تھا کہ بتوں کی پوجا کرنا شرک ہے، ہمیں معلوم نہ تھا کہ شعائر اسلام کی توہین کرنا کفر ہے؟ جب کہ علماے کرام نے حکم ظاہر کے مطابق ایسے شخص کو کافر ومشرک قرار دے رکھا ہے۔ ہاں ایک بات ضرور ہے کہ اگر اللہ نے موصوف یا ان جیسے کو مرنے سے پہلے صحیح توبہ کی توفیق بخش دی ہو اور ان کا ایمان سلامت رہا ہو مگر بظاہر ہم نہیں جانتے کہ وہ ایمان والے ہیں اور ہم نے حکم ظاہر پہ عمل کرتے ہوئے انھیں کافر ومشرک کہا تو بروز قیامت ہمارے پاس ضرور یہ عذر ہوگا کہ "مولی ہم نے تو شریعت کے قانون کہ حکم ظاہر پر لگتا ہے کے مطابق انھیں کافر کہا ہے" تو ضرور ہمارا عذر قابل قبول ہوگا۔ مگر بصورت دیگر آپ کے پاس کوئی جواب ہے؟

*ایک وضاحت اور* کچھ لوگوں کو اس اعتراض کا بھی حق حاصل ہے کہ "انھوں نے ایسا اپنی ریئل لائف یعنی حقیقی زندگی میں نہیں کیا بلکہ ریل لائف یعنی فلمی زندگی میں کیا ہے" مگر کہ چند سکوں کی خاطر ایمان کا سودا کرنا کب درست ہے؟ محض بے وقوف عوام کی جیب کھالی کرانے کے لیے بتوں کی پوجا؟ اب چاہے ناٹک ہو یا حقیقت شرک تو شرک ہے۔ اور خداے وحدہ لاشریک کو کبھی پسند نہیں کہ کوئی اس کا شریک بنائے۔ وہ چھوٹے بڑے ہر گناہ کو معاف کرسکتا ہے مگر شرک جیسی ظلم عظیم کو کبھی نہیں "ان اللہ لا یغفر ان یشرک بہ ویغفر من دون ذلک لمن یشاء"۔لہذا نہ تو (بظاہر) موصوف کا ایمان پر خاتمہ ہوا اور نہ ہی وہ عذاب قبر سے نجات پانے کے مستحق ہیں، جہنم سے بچنے اور جنت میں جانے کی بات ہی دیگر۔ اور نہ ہی موصوف کے لیے انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھنا درست ہےاور نہ ہی مغفرت کی دعا۔ بلکہ ایسا کرنے والے کی بھی مغفرت کی دعا کرنا خود اپنی مغفرت وبخشش سے ہاتھ دھو بیٹھنا ہے کیوں کہ ایمان ہی اصل ہے۔ اور جو لوگ ایڑی چوٹی کا زور لگا کر جنت کی ٹکٹ باٹنے پر تلے ہیں، وہ ذرا عقل ودماغ کا علاج کرائیں کہ جنت کا پروانہ کوئی فلم بینی کی ٹکٹ نہیں جو ہر ایرا غیرا نتھو خیرا حاصل کرلے۔۔۔۔۔۔۔۔اس طرح شریعت کا مذاق اڑانے والے فلمی ادا کار اس دنیا طلب لوگوں کے لیے ہیرو ہوسکتے ہیں، ان کی شرکیہ اداکاری غیروں کو گنگا، جمنی تہذیب کی دعوت لگ سکتی ہے مگر صاحب ایمان کے لیے نہ تو وہ ہیرو ہوسکتے ہیں اور نہ ہی ان کی شرکیہ ادا کاری غیرت مند کو اچھی لگے۔ ان کے اچھے اخلاق (اگر ہوں) کی تعریف اگر کوئی کرے یہ الگ بات ہے مگر انھیں جنت کی ٹکٹ باٹنا شریعت کے ساتھ بھدا مذاق ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad