تازہ ترین

پیر، 18 مئی، 2020

کیوں زیاں کار بنوں

 محمد طاسين ندوي
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
باری تعالی نے امت محمديہ کو  برپافرمایا اور یونہی نہیں چھوڑدیا بلکہ دستور حیات سے نواز کر اپنی اجتماعی معاشرتی و خانگی زندگی گزارنے کا ایسا سیلقہ وطریقہ  دیا جس کی نظیر کسی ادیان قدیمہ میں موجود نہیں پہلا قران مجید جو مکمل گائڈ لائن ہے  اور دوسرا احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کہ قران مجید کی توضیح و تشریح ہے  اسی حدیث رسول میں ان بنیادوں کا ذکر بھی فرمایا جو دین اسلام کے اصل و جڑ ہے، چنانچہ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے " بني الإسلام على خمس شهادة لاإله إلاالله وأن محمد رسول الله  وإقام الصلاة وإيتاء الزكاة ..."الحديث. متفق عليه اسلام کی بنیاد پانچ عمودو ستون پر ہے ..جن میں سے سب سے پہلا اور عظیم الشان کلمہ شھادت کی گواہی ہے دوسرا عظیم شیئ نماز پنج گانہ کا قیام  اور تیسرا زکاۃ کی ادائیگی ہے اس کے علاوہ اور بھی ہیں جس کاحدیث رسول میں ذکر ہے چونکہ یہ تحریر زکاۃ ہی پر ہے اس لئے آئیے اس سے روشناس ہوتے ہیں 

علماء لغت زکاۃ کے معنی اضافہ،پاکی،بڑھوتری اور نما کے بتائےہیں 
شریعت اسلام میں زکاۃ کی تعریف ہے: مال مخصوص کا مخصوص شرائط کے ساتھ  کسی مستحقِ زکوۃ کومالک بنانا،
زکاۃکو صدقہ بھی کہتے ہیں امام راغب اصفہانی نے مفردات القرآن میں تحریر فرمایا ہے 
صدقہ کو صدقہ اسلیئے کہتے ہیں کے اسکا دینے والاگویایہ دعوی کرتا ہے کہ وہ اپنے قول و فعل میں صادق ہے.معارف القرآن ۳۹۵
زکاة کی فرضیت سن ۲ ہجری میں ہوئی 
جس معاشرے میں ہم سانس لیتے ہیں اس میں دو طرح کے افراد ہیں ایک صاحب ثروت اور مال و منال والا جسے شریعت کی اصطلاح میں صاحب نصاب کہتے ہیں  اور دوسرا ایسے افراد جو صاحب ثروت کے زمرہ سے خارج ہوں جسے شریعت کی اصطلاح میں۔غیر صاحب نصاب کہتے ہیں 
 البتہ ہر صاحب نصاب مردو زن پر زکاۃکی ادائیگی اپنے حدود قیود کے ساتھ واجب ہوگی 
زکاۃ کو زکاۃ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ جب انسان مال کے ساتھ مشغول ہوتا ہے تو اس کا دل میں  مال کی محبت جاگزیں ہوجاتی ہے دل کے اس جھکاؤ اور میلان  کی وجہ سے مال کو مال کہا جاتا ہے اورمال کے ساتھ اس درجہ مشغولیت و محبت  کی وجہ سے انسان کئی روحانی و اخلاقی بیماریوں اور گناہوں میں مبتلاہو جاتا ہے مثلامال کی بے جا محبت، حرص اور بخل و غیرہ ان گناہوں سے حفاظت اور نفس و مال کی پاکی کے لیے زکاۃ و صدقات کو مقرر کیا گیا ہےاس کے علاوہ زکاۃ سے مال میں ظاہری یا معنوی بڑھوتری اور برکت بھی ہوتی ہے، اس وجہ سے بھی زکاۃ  کا نام زکاۃ رکھا گیا آیا کیا زکاۃ ہر کس و ناکس پر فرض ہے یا مخصوص افراد پر شریعت نے اس کی بھی حد بندی کی ہے ادائیگی زکاۃکے فرض ہونے کی کچھ شرائط بتائے ہیں.جو مندرجہ ذیل ہیں
1 مسلمان ہوناکافر پر زکاۃ واجب نہیں
۲۔ بالغ ہونا نابالغ پر زکاۃ فرض نہیں
۳۔ عاقل ہونامجنون و دیوانہ پر زکاۃ فرض نہیں جبکہ اسی حال میں سال گذر جائے اور کبھی کبھی اسے افاقہ ہو جاتا ہے تو فرض ہے
٤۔ آزاد ہوناغلام پر زکاۃ نہیں اگرچہ اس کے مالک نے تجارت کی اجازت دے دی ہو
٥۔ مال بقدرِ نصاب اس کی ملکیت میں ہونا اگر نصاب سے کم ہے تو زکاة نہیں
٦۔ پورے طور پر اس کا مالک ہونا یعنی اس پرمکمل قابض ہونا " تملیک کا پایا جانا"
۷۔ نصاب کا  قرض سے زیادہ ہونا
۸۔ نصاب کا حاجتِ اصلیہ سے زیادہ ہونا
۹۔ مال کا نامی ہونا یعنی بڑھنے والا خواہ حقیقتہً ہو یاحکماً. 
۱۰۔ نصاب پر ایک پورے  سال "حولان حول " کا گذر جانا  
اگر سماج میں ایسے افراد ہوں جو ان شرائط پر اتر رہے ہوں تو ان کے اوپر واجب ہیکہ اپنے  مال میں سے اموال زکاۃ"سونا چاندی نقد پیسہ مال تجارت جانور کاایک متعیں مقدار زکاۃ نکال کر مصارف زکوٰۃ تک پہنچائیں 
       اور جو لوگ اس رکن کے منکر ہیں وہ اپنے ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھے جس نے  دینے میں سستی وکاہلی اور بخل سے کام لیا اور اس فریضہ کی ادائیگی میں ٹال مٹول سے کام لیا  اس کے سلسلے میں بڑی سخت وعید ہیں اللہ رب العزت کا فرمان ہے" یَوۡمَ یُحۡمَىٰ عَلَیۡهَا فِی نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكۡوَىٰ بِهَا جِبَاهُهُمۡ وَجُنُوبُهُمۡ وَظُهُورُهُمۡ هَـٰذَا مَا كَنَزۡتُمۡ لِأَنفُسِكُمۡ فَذُوقُوا۟ مَا كُنتُمۡ تَكۡنِزُون َالقرآن"التوبة ۳۵
جس دن اس خزانے کو آتش دوزخ میں تپایا جائے گا پھر اس دن ان کی پیشانیاں اور پہلو اور پیٹھیں داغے جائیں گی اوران سے کہا جائے گا یہ ہے جسے تم نے اپنے لئے خزانہ بنا رکھا تھا، پس اپنے خزانوں کا مزہ چکھو.
مزید یہ کہ زکاۃ ادا نہ کرنے اور اس کی فرضیت کا انکار کرنے والوں کے لئےسب سے سنگین وعید یہ ہے کہ ایسے انسان کے اموال کو طوق کی شکل دی جائے گی اورپھر قیامت کے دن وہ طوق اس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا.چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:’’ وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ هُوَ خَيْرًا لَهُمْ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَهُمْ سَيُطَوَّقُونَ مَا بَخِلُوا بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلِلَّهِ مِيرَاثُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ‘‘ آل عمران ۱۸۰
یعنی جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے کچھ نواز رکھا ہےوہ اس میں کنجوسی کو اپنے لئے بہتر نہ سمجھیں بلکہ وہ ان کے لئے حددرجہ بدتر ہے، عنقریب قیامت کے دن جس میں کنجوسی سے کام لیا ہے اسکاطوق پہنائے جائیں گے.
زکاۃ تو ایک ایسا امر ہے جو اپنے تمام تر شرائط و ضوابط کے ساتھ سماج کا صاحب ثروت طبقہ ہی پر واجب ہے جس پر عمل کرنا ہر کس و ناکس پر ضروری نہیں.
لیکن جہاں شریعت نے بہت چیزوں کو فرض  واجب،  سنت کے درجہ میں رکھا ہے وہیں اس پر بھی امت مسلمہ کو برانگیختہ کیا اور ابھارا "لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ" آل عمران ٩٢
تم ہر گز بھلائی کو نہ پہنچو گے جب تک راہِ خدا میں اپنی پیاری چیز نہ خرچ کرو.
مفسرین نے لکھا ہیکہ اس آیت میں بھلائی سے مراد تقوی اور فرمانبرداری ہے اور خرچ کرنے کے بارے میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما نے فرمایا کہ’’ یہاں خرچ کرنے میں واجب اور نفلی تمام صدقات داخل ہیں.
امام حسن بصری رحمۃاللہ علیہ نے فرمایا: جو مال مسلمانوں کو محبوب ہو اسے رضائے الہی کے لیے خرچ کرنے والا اس آیت کی فضیلت میں داخل ہےخواہ وہ ایک کھجورہی ہو. تفسیرخازن
کیونکہ ہمارے اموال میں شریعت نے صرف زکاۃ واجبہ ہی نہیں بلکہ اور بھی حقوق وابستہ کیا ہے جسکو صدقہ یاخیرات کہا جاتاہے 
چنانچہ اللہ تعالی کا فرمان ہے وأما السائل فلاتنهر ..سوالی دست سوال اسلئے دراز کیا ہیکہ ان کا بھی ہمارے اس اموال ـ چاہے ہم صاحب ثروت ہوں یا نہ ہوں ـ میں ان کا حق اللہ نے دے رکھا ہے اسلئے ہمیں سوچنا، سمجھنا،اورغور کرناچاہئیے کہ اگر کوئی بھی سائل حاجت مند آئے مانگے تو انکی حاجت روائی ہو ان کے قلوب کو اپنے مال سے ٹھنڈا کرنے کی سعی پہیم کریں کل جب  مالک ارض و سماء کے دربا میں پیشی ہو اور ہم سے کہا جائیگا
"یہ گھڑی محـشر کی ہے تو عرصۂ محشر میں ہے 
پیش کا غافل عمل گر کوئی دفتر میں "
 تو اگر کوئی ایسا عمل ہمارے کشکول گدائی میں ہوگا جو عنداللہ قابل عنایت و توجہ و مقبول ہو تو ان شاء اللہ ہماری کشتی گرداب سے محفوظ رہیگی .
 کیوں زیاں کار بنوں سود فراموش رہوں
 فکر فردا نہ کروں محو غم دوش رہوں
اللہ ہمیں اور ہمارے معاشرے کے افراد کو دین کا ذوق ومذاق عنایت فرما تاکہ کار خیر و فلاح میں لذت و ذائقہ محسوس کریں اور اس کےثواب سے لطف اندوزہوسکیں.
      وماذلك على الله بعزیز..

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad