تازہ ترین

جمعرات، 14 مئی، 2020

کیا بیوی کو قابو کیا جا سکتا ہے؟؟

ابوالحسن خرقانی رحمتہ اللہ علیہ ہمارے سلسلے کے ایک بزرگ تھے لیکن ان کی ایک آزمائش تھی کہ ان کے گھر میں بیوی بڑی تیز طراز تھی وہ اس پر صبر کرتے تھے اور صبر پر اللہ نے ان کو ولایت عطا فرما دی تھی چنانچہ ایک مرتبہ ایک مرید ان سے ملنے کیلئے آیا اس نے گھر جا کر پوچھا کہ حضرت کہاں ہیں بیوی نے کہا کہ کون حضرت کہاں کے حضرت اس نے کہا کہ جی میں ان سے ملنے کیلئے آیا ہوں جواب دیا کہ جاؤ وہاں کہیں جنگل میں بیٹھے ہوں گے وہیں مل لو مرید سمجھ گیا کہ معاملہ ذرا نازک سا ہے چنانچہ وہ حضرت کو ملنے جنگل میں آیا مگر کیا دیکھتا ہے کہ حضرت شیر کے اوپر سوارہو کر آرہے ہیں یہ ایک کرامت تھی جو اللہ نے ظاہر کردی اب جب اس نے یہ دیکھا کہ حضرت تو جنگل میں شیر کی سواری کررہے ہیں اور گھر میں بیوی ان پر سواری کررہی ہے سوچنے لگا کہ یہ کیا معاملہ ہے

 جب حضرت ان کو ملے تو حضرت نے بھی ان کو پہچان لیا اور فرمایا کہ دیکھو میں گھر میں بیوی کی اس تکلیف کا بوجھ اٹھاتا ہوں اللہ تعالی اس شیر کو میرابوجھ اٹھانے پر لگا دیتے ہیں تو جب یہ بات بتائی تو وہ مرید تو رخصت ہوا لیکن جب حضرت گھر کو آنے لگے تو دعا مانگی کہ اے اللہ یہ عورت بہت ہی زیادہ غصہ والی ہے اور تیز طراز ہے اے اللہ کوئی ایسا معاملہ ہو کہ یہ عقیدت والی بن جائے تاکہ دین کے کام میں رکاوٹ نہ رہے چنانچہ اللہ تعالی نے ان کو ایک کرامت بخشی کہ وہ ہوا میں اڑنے لگ گئے اور اڑتے اڑتے اپنے گھر کے اوپر سے گزرے جب واپس گھر آئے تو گھر میں داخل ہوتے ہیں بیوی نے استقبال کیا کہ بڑے بزرگ بنے پھرتے ہو اور بڑے ولی بنے پھرتے ہو ولی تو وہ تھا جسے میں نے آج ہوا میں اڑتے ہوئے دیکھا حضرت نے ان کی بات سن کر کہا کہ اللہ کی بندی وہ میں ہی تو تھا جو یہاں سے اڑ کر گزر رہا تھا میں نے اللہ سے دعا مانگی تھی جب بیوی نے یہ سنا تو تھوڑی دیر سوچ کر کہنے لگی اچھا آپ تھے انہوں نے کہا ہاں ہاں میں ہی تھا کہنے لگی میں بھی سوچ رہی تھی کہ ٹیڑھا ٹیڑھا کیوں اڑ رہا ہے اب سوچئے کہ گھر کیوں کر آباد ہو لہزا منفی سوچ سے بچنے کی کوشش کریں اور مثبت سوچ رکھیں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad