تازہ ترین

پیر، 25 مئی، 2020

لاک ڈاؤن میں عیدالفطر

محمد سالم سَرَیَّانوی
 بالآخر وہ دن آہی گیا جس کا انتظار تھا، ایک ایسا دن جو خوشیوں اور مسرتوں کا دن ہے، ایک ایسا دن جس کو ایک عظیم الشان اسلامی تہوار ہونے کا شرف حاصل ہے، ایک ایسا دن جو اپنے اندر محبتوں، عنایتوں اور رعنائیوں کو سمیٹے ہوتا ہے، ایک ایسا دن جو اجتماعیت اور شیرازہ بندی کا عظیم شاہکار ہوتا ہے، ایک ایسا دن جس میں ہر شخص مساوات وبرابری کا عملی نمونہ ہوتا ہے۔

 یہ عید الفطر محض ایک رسمی تہوار نہیں؛ بلکہ اسلام کا ایک واضح ترجمان ہے، جس میں حقوق اللہ اور حقوق العباد کو پِرُو دیا گیا ہے، اسلام میں اللہ کی اطاعت، اس کی وحدانیت اور اس کی عبادت بنیادی حصہ ہے، جو عید الفطر کے دن دو رکعت میں سما جاتی ہے، جو عام نمازوں سے قدرے ہٹ کر ہے، جس میں زائد تکبیرات اللہ تعالی کی بڑائی اور کبریائی کو بیان کرتی ہیں۔ اجتماعیت اور اتحاد کسی بھی قوم اور ملت کا قیمتی سرمایہ اور مضبوط عمارت ہوتی ہے، جس قوم اور ملت کے اندر اجتماعیت ہوتی ہے وہ ہمیشہ سرخرو، ترقی کی راہ پر چلنے والی اور منزلوں کو پہنچنے والی ہوتی ہے، عید الفطر کے دن اس اجتماعیت کو لازم کردیا گیا ہے، تاکہ ہر شخص ایک دوسرے سے مربوط رہے، معاشرہ اور سوسائٹی سے علاحدہ نہ رہے؛ اسی لیے عید الفطر کی نماز شان وشوکت کے اظہار کے ساتھ کسی کھلی جگہ میں ادا کرنے کا حکم ہے، تاکہ دوسروں کو بھی دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملے۔ ایسے ہی مساوات انسانی زندگی کی ترقی اور خوش حالی کے لیے لازم ہے، اس مساوات کو صدقۃ الفطر کی ادائیگی میں رکھ دیا گیا ہے، کہ اس خوشی کے موقع پر صرف مالدار اور اہل ثروت ہی خوشی اور مسرت نہ منائیں؛ بلکہ ان کے ساتھ معاشرے کا غریب، مزدور اور مسکین طبقہ بھی خوشی میں شریک رہے، جس کی بنیاد پر نماز عید کی ادائیگی سے قبل ہی اس صدقہ کی ادائیگی کا حکم دیا گیا ہے؛ تاکہ وہ اجتماعیت اور معاشرہ کے ساتھ چل سکیں۔

 اِس وقت ہندوستان میں ملکی لاک ڈاؤن کا چوتھا مرحلہ جاری ہے، وطن عزیز میں قریب دو مہینے سے لگاتار ’’کورونا وائرس‘‘ کے واقعات بڑھ رہے ہیں، اسی وباء ہی کے دوران رمضان کا بابرکت مہینہ شروع ہوا، جو اَب مکمل ہوگیا، رمضان المبارک ایک تربیتی مہینہ ہے، جس میں بندوں کے اخلاق وکردار، نفسیاتی تقاضوں اور شہوانی قوتوں کو اعتدال میں رکھنے کی ٹریننگ ہوتی ہے، اس مہینے میں عجیب سی چہل پہل پیدا ہوجاتی ہے، مساجد نمازیوں سے بھر جاتی ہیں، لوگوں کی قرآن کریم اور اللہ کے ذکر سے وابستگی قابل دید ہوتی ہے، افطار کا منظر پرکیف اور مسحور کن ہوتا ہے؛ لیکن اِس سال رمضان المبارک میں عام معمول اور نظام جو پہلے رائج تھا اس سے مسلمان محروم ہوگئے، وہ رونقیں نہیں تھیں، مساجد سونی اور خالی تھیں اور یہ تاریخ میں پہلا واقعہ ہے جس میں لگ بھگ پوری دنیا ’’کورونا‘‘ کی وجہ سے رمضان کی رونقوں اور چہل پہل سے محروم ہوگئی، لیکن اس کے بہت سے منافع حاصل ہوئے، یہ خدائی دستور اور نظام ہے کہ اللہ تعالی شر میں خیر کو چھپائے رکھتے ہیں، جس کو معمولی ذہن کا انسان سمجھ نہیں پاتا، چناں چہ اس سال نمازوں کا اہتمام زیادہ رہا، باجماعت نماز کی پابندی خوب رہی، گھر قرآنی نغموں اور ذکر ونماز سے معمور ہے، گھر گھر کو مسجد میں تبدیل کردیا گیا، عام افراد مقدس مہینے میں بازار سے پیدا ہونے والی خرابیوں اور کمیوں سے محفوظ رہے، تراویح کا اہتمام بھی خوب رہا، یہ اور اس کے علاوہ مختلف فوائد ومنافع حاصل ہوئے۔

 اب عید آگئی، نماز ادا کرلی گئی، خدا کے حضور شکرانہ کے لیے اپنی جبینوں کو جھکایا جاچکا ہے، لیکن وہ عظیم الشان اجتماعی مظاہرہ جو کہ نماز عید کی اصل روح ہے اس سے محروم رہ گئے، چند افراد کے ساتھ نماز کی ادائیگی کے اندر وہ لطف اور کیف نہیں ملا جو پہلے ملتا تھا، اجتماعی طور پر کھلے میدان میں اللہ رب العزت کی بارگاہ میں سر بسجود ہونے کا جو مزہ تھا اس سے تہی دامن رہے، شاید یہ شروع اسلام سے لے کر اب تک کی تاریخ میں پہلا واقعہ ہے جہاں اجتماعی طور سے ہم عیدگاہوں سے دور رہ گئے اور اپنے شاندار تہوار کو کما حقہ منانے سے محروم رہے، لیکن اس کے باوجود جس انداز سے مسلمانوں نے نماز عید کا اہتمام کرنے اور موقع کی مناسبت سے شکرانہ کی نماز پڑھنے کی کوشش کی اور حکومت یا میڈیا کو کسی منفی تبصرے یا رد عمل کا موقع نہیں دیا وہ قابل تعریف ہی نہیں بل کہ قابل تقلید ہے، عیدگاہوں س محرومی میں بھی خیر کا پہلو دِکھا، جو محسوس کرنے والوں کو محسوس ہورہا ہے۔

 کورونا وائرس اور ملکی لاک ڈاؤن کی تمام تر تفصیلات، حکومت کی کاروائیوں اور میڈیا کی نفرتوں کے بیچ اگر جائزہ لیاجائے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ مسلمان وہ قوم ہے جو ہمیشہ مثبت تاریخ رقم کرنے کا جذبہ رکھتی ہے، جو قوموں کا رخ بدل سکتی ہے، جو حالات سے بزدل اور ڈرتی نہیں ہے، اسے کوئی دشمن اور طاقت بآسانی زیر نہیں کرسکتی ہے، وہ مصائب میں الجھ کر اپنا راستہ خود نکالنے کا ہنر رکھتی ہے، موجودہ دو مہینوں کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ حکومت اور دوغلی میڈیا نے اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے اور ان کو ذلیل ورسوا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا؛ لیکن مسلمان ہیں کہ انھوں نے اپنے عمل سے ہندوستان میں جو نیا باب اور نئی تاریخ رقم کی ہے وہ انھی کا حصہ ہے، ہر موقع پر مسلمانوں کو ٹارگیٹ کرنے کی کوشش کی گئی ، لیکن انھوں نے اپنے مثبت عمل سے اس کا منہ توڑ جواب دیا، لاک ڈاؤن کے چلتے کروڑوں مزدروں کو جس طرح کے استحصال اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا وہ ہندوستان کی تاریخ کا نہایت تکلیف دہ اور کرب ناک حصہ ہے، لیکن اس موقع پر مسلمانوں نے ایثار وہمدردی، غمخواری اور غمگساری اور انسانیت نوازی جو مظاہرہ کیا ہے وہ تاریخ میں اَنمٹ طور پر درج ہوچکا ہے، روزہ رکھ کر معاشی ابتری کے باوجود راہگیروں اور راستہ چلنے والوں کے کھانے پینے کا جو نظام بنایا اس نے یہ ثابت کردیا یہ قوم کوئی معمولی قوم نہیں ہے؛ بل کہ نہایت مضبوط اور پختہ ارادہ کی حامل ہے، انھوں سے اپنے عمل اور کردار سے اسلام کی جو صاف ستھری شبیہ پیش کی ہے وہ آئندہ بہت کچھ کی غماز ہے، شاید وہ دن دور نہیں جس میں اسلام کا غلبہ ہو اور سورہ نصر کی خدائی پیشین گوئی ایک بار پھر پوری ہو، لیکن اس کے لیے منظم نظام عمل اور ٹھوس لائحۂ عمل کی ضرورت ہے ، اگر ہم نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور عملی طور پر مثبت پہلو سے کام کیا تو یہ اس گئے گزرے دور میں اسلام کی خدمت کا نہایت روشن اور شاندار باب ہوگا۔ واللہ الموفق

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad