تازہ ترین

جمعہ، 8 مئی، 2020

کہیں ہم مدارسِ اسلامیہ کو بھول نہ جائیں!

از قلم:مولانا محمد رضوان حسامی و کاشفی (ناظم اعلیٰ مرکز تحفظ اسلام ہند)
محترم قارئین کرام! ساری دنیا پر یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ آج پوری دنیا میں جو مساجد و مکاتب کا جال بچھا ہوا ہے، خانقاہوں اور دعوت و تبلیغ کا جو ماحول نظر آرہا ہے، جگہ جگہ امت کے رہبروں و رہنماؤں کی شکل میں جو حضراتِ علماء و مفتیان کرام نظر آرہے ہیں، اور دنیا کے چپے چپے میں حفاظ قرآن کلام اللہ کے محافظین جو نظر آرہے ہیں، اسی طرح اسلامی شعائر ڈاڑھی، ٹوپی، جبّہ، پگڑی، اسلامی لباس برقعہ وغیرہ جو کچھ نظر آرہے ہیں، یہ سب کچھ مدارس دینیہ ہی کی وجہ سے ہے۔اسی لیے حضرت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا تھا: کہ مدارسِ دینیہ ''دین کی حفاظت کے قلعے ہیں، انکی بقاء سے دین کی بقاء ہے۔''(بخاری کی باتیں)۔اور حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا: کہ مدارس علوم دینیہ کا وجود مسلمانوں کے لیے ایسی بڑی نعمت ہے کہ اسکا تصور نہیں کرسکتے، دنیا میں اگر اسلام کے بقاء کی کوئی صورت ہے تو یہ مدارس ہیں۔(حقوق العلم)۔اسی لیے مدارسِ اسلامیہ معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کا مقام رکھتے ہیں، یہ پوری سوسائٹی و سماج کا مکھن ہیں، یہ اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے آشنا کرنے کا ذریعہ ہے، جو ہمارا حقیقی مقصد ہے۔اور ان مدارسِ دینیہ کا سلسلہئ نسب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے مدرسے جامعہ صفہ سے جاکر ملتا ہے، جس پر آسمان کے فرشتے بھی رشک کرتے ہیں، جہاں سے عبداللہ بن عباس جیسے مفسر قرآن، ابو ہریرہ جیسے حافظ حدیث، عبد اللہ بن مسعود جیسے مایہ ناز مفتی، سلمان فارسی جیسے متقی و پرہیزگار، بلال حبشی جیسے مؤذن رسول، ابو عبیدہ بن جراح جیسے امین الامت، ابو درداء جیسے حکیم الامت، عمار بن یاسر جیسے محبّ رسول، ابوذر غفاری جیسے واعظ، خباب بن ارت جیسے مجاہد، رضی اللہ عنہم اجمعین تیار ہوئے۔اور الحمدللہ آج تک مدرسہ صفہ کا فیض موجودہ مدارسِ اسلامیہ کے ذریعے جاری و ساری ہے، اور ان شاء اللہ تعالیٰ قیامت تک برابر جاری رہے گا۔

    محترم قارئین! مدرسہ ایک بہت بڑی نعمت ہے، آج کے اس نازک اور پُرفتن دور میں مدرسہ بہت ہی قیمتی سرمایہ ہے، یہ مدرسہ ماں کی گود کی طرح ہے، جس طرح بچہ ماں کی گود میں پرورش پاتا ہے، اسی طرح انسان یہاں بھی پرورش پاتا ہے، اور مدرسہ انسان کو حقیقی انسان بناتا ہے، یہ مدرسہ چند افراد مل کر بناتے ہیں اور مدرسہ کئی افراد کو بناتا ہے، در حقیقت مدارسِ اسلامیہ جنت کے راستے ہیں۔یہاں معرفت الہی کی کرنیں پھوٹتی ہیں۔یہاں علم نبوت کی شعاؤں کو جگمگایا جاتا ہے، یہاں امت کے رہبر و رہنما تیار ہوتے ہیں، یہاں کفر و شرک کی تاریکی کا قلع قمع کیا جاتا ہے، یہاں باطل کی تیز و تند آندھیوں کا مقابلہ کیا جاتا ہے، یہاں مصلحین امت کو پیدا کیا جاتا ہے، یہاں بدعات و خرافات کے امنڈتے ہوئے سیلاب کو روکا جاتا ہے۔مدارس اسلامیہ نے دنیائے انسانیت کو اتنا کچھ دیا ہے کہ ہم تصور نہیں کر سکتے؛

واقف تو ہیں اس راز سے، یہ دار و رسن بھی
ہر دور میں تکمیلِ وفا ہم سے ہوئی ہے

    غور تو کریں اس دنیائے انسانیت کو شیخ عبد القادر جیلانی جیسا مصدق، امامِ غزالی جیسا معرف، امام اعظم ابو حنیفہ جیسا فقیہ، مجدد الف ثانی جیسا بے باک و نڈر، مولانا قاسم نانوتوی جیسا قاسم العلوم، مولانا اشرف علی تھانوی جیسا مفکر، شیخ الہند جیسا مجاہد، علامہ انور شاہ کشمیری جیسا محدث، مولانا حسین احمد مدنی جیسا اولوالعزم، مولانا ابو الکلام آزاد جیسا سیاسی سوچ کا مالک، مفتی شفیع عثمانی جیسا مفسر، قاری طیب جیسا مدبر، ابوالحسن جیسا دور اندیش، مولانا الیاس کاندھلوی جیسا مبلغ، قاری صدیق احمد جیسا مربی، شاہ ابرارالحق جیسا مصلح انہی مدارس نے دیا۔اسی پر بس نہیں ہندوستان کی جنگ آزادی و تحریک آزادی میں بنیادی کردار انہی مدارس کے تیار شدہ جیالوں نے ادا کیا۔مدارس اسلامیہ نے اپنے مذہب اور ملک سے محبت و وفاداری کا سبق پڑھایا ہے، مدارس اسلامیہ نے ماں کی گود سے لیکر قبر کی گود میں جانے تک زندگی گزارنے کا صحیح طریقہ بتایا ہے۔ ان مدارس نے وہ کارنامہ انجام دیا جو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، انہی مدارس نے بر وقت مسلمانوں کو سنبھالا دیا، انہیں اپنی تاریخ، اپنے کلچر اور دینی اہمیت کا احساس دلایا، مسلمانوں کے ملی تشخص اور انکی انفرادیت کو برقرار رکھا۔

مدارس سے ہوتے ہیں علم کے کوہِ گراں پیدا
مدارس سے ہوئے ہیں ملک و دیں کے پاسباں پیدا
مدارس ہیں سلام و امن و صلح کل کے گہوارے 
مدارس سے ہوئے ہیں ملت کے سچے باغباں پیدا

    معزز قارئین! آج مغربی تہذیب کی گھنگھور گھٹائیں دنیا پر چھا رہی ہیں۔آج اسلامی شعائر و خصوصیات کو مٹایا جارہا ہے۔ آج فرقہ پرست اور تعصب پرست لوگ مدارس دینیہ کو دہشت گردی کا لیبل لگا کر بدنام کرنے میں لگے ہوئے ہیں، بدنام زمانہ گودی میڈیا کے ذریعے مدارس پر ہلّہ بولنے کی ناپاک و مذموم کوشش کی جارہی ہے، اور آج چاروں طرف سے دشمنانِ اسلام کی باطل طاقتیں مدارس دینیہ کو ختم کرنے پر تُلی ہوئی ہیں کیونکہ ان کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اگر آج دنیا بھر میں اسلام اور مسلمان موجود ہیں تو انہی مدارس کی وجہ سے ہیں۔آج مدارس سے دوری کی وجہ سے قادیانیت و عیسائیت کے مکر و فریب میں آکر کئی نادان مسلمان مرتد ہورہے ہیں۔اس لیے ایسے نازک وقت میں مدارس اسلامیہ کو بچانے کی ہمیں ہر ممکن کوشش کرنی ہے اور مدارس کو مضبوط و مستحکم کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ مدارس ہی کے ذریعہ چہاردانگِ عالم میں اعلاء کلمۃ اللہ اور اطاعت رسول اللہ کا پرچم لہرایا جا سکتا ہے، مدارس ہی کے ذریعہ باطل طاقتوں کو توڑا جا سکتا ہے، مدارس ہی کے ذریعہ بٹھکتی انسانیت کو راہ راست پر لایاجا سکتا ہے، مدارس ہی کے ذریعہ تعصبیت کو اخوت و محبت میں بدلا جا سکتا ہے۔

    لہٰذا ملک میں مہلک مرض کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کی پابندیوں کی وجہ سے سارے اہل مدارس بہت پریشان ہیں۔ہر سال رمضان کے مبارک مہینے میں مدارس کے سفراء حضرات ملک کے گوشے گوشے اور چپے چپے میں گھوم پھر کر معاونین سے زکوٰۃ، صدقات و عطیات وصول کر کے مدارس کے لیے چندہ اکٹھا کرتے ہیں، کیونکہ مدارس کے ظاہری نظام کا سارا دار و مدار اسی چندے پر ہوتا ہے، لیکن افسوس کہ اس سال رمضان المبارک بھی لاک ڈاؤن کے دوران ہی آیا، جسکی وجہ سے مدارس کے سفراء کہیں بھی آجا نہیں سکتے۔لہٰذا جو حضرات پابندی کے ساتھ ہر سال مدارس کا تعاون کرتے ہیں وہ اس سال بھی ضرور بالضرور تعاون کریں، اسمیں کسی قسم کی کوئی کوتاہی نہ کریں، مدرسے کی رقم اٹھا کر الگ رکھ دیں، بعد میں جب حالات قابو میں آجائیں مدرسے کو پہنچا دیں یا بینک اکاؤنٹ کی تفصیلات معلوم کرکے اس میں ٹرانسفر کردیں۔اور امسال ہمارے اکابر نے موجودہ حالات کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں عید کی شاپنگ وغیرہ سے بچنے کے لیے کہا ہے، بغیر کپڑوں کے بھی عید ہو سکتی ہے، اس سال انہی پیسوں کے ذریعہ دل کھول کر مدارس کا تعاون کریں۔ان شاء اللہ تعالیٰ دونوں جہاں میں اللہ تعالیٰ اسکا بہترین بدلہ عطاء فرمائے گا۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم تمام کو مذکورہ بالا چیزوں پر عمل کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad