تازہ ترین

منگل، 26 مئی، 2020

تذکرہ دسویں صدی ہجری کے ولی کامل اور موسس سرائے میر (مرتضی آباد)“میر علی عاشقان رحمہ اللہ”کا منقول از:-“تذکرہ علماء اعظم گڈھ”

مصنف:- حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی دامت برکاتہم استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند

ناقل:- عبداللہ اعظمی
حضرت میر سید علی بن قوام بن سعید بن محفوظ بن حسین بن عبدالمجید بن نعمان بن حمزہ بن ابی بکر بن عمر بن احمد حسینی سوانی سرائے میری اپنے مقام و مرتبہ کے اعتبار سے اولیاء کبار اور مشائخ عظام میں شمار کئے جاتے ہیں ملاحظہ ہند اور بیرون ہند کے بہت سارے تذکرہ نگاروں نے ان کا ذکر کیا ہے میر صاحب کے آباواجداد ترمذ اور لاہور ہوتے ہوئے پہلے سرہند کے قریب سوانہ میں آباد ہوئے حسب تصریح صاحب اخبار اصفیاء میر صاحب کی پیدائش سوانہ ہی میں ہوئی تاریخ پیدائش معلوم نہیں آپ کے والد شیخ امام الدین سوانح کے مشہور اصحاب علم و فضل میں سے تھے اپنے والد سعید بن محفوظ سے سولو مچی تحصیل کی تھی اور انہیں سے طریقت و سلوک کی تعلیم وتلقین پائی جو شیخ صدر الدین راجو قتال متوفی 427ھ اور شیخ بدیع الدین مدار مکن پوری کے خلیفہ تھے صاحبِ بحرِ ذخار میر علی عاشقان کے لڑکے شیخ نظر علی کے حوالے سے لکھتے ہیں میر صاحب کیوالد شیخ قوام الدین چکلہ مرادآباد ملازم تھے وہی کسی جنگ میں شہید ہو گئے موضع بھوانی پور میں کسی جنگ میں شہید ہوگئے مزار سنبھل سے تین کوس کے فاصلے پر ہے والد کی شہادت کے بعد میر صاحب اپنی اہلیہ کے وہاں سے منتقل ہوکر اپنے چچا وخسر سید محمد خاں سوانی کے پاس جونپور آگئے جو اس وقت وہاں کے حاکم تھے اور شہر کے باہر ایک چھوٹا سا مکان یا حجرہ بنا کر وہیں مقیم ہوگئے(بحرِ ذخار قلمی صفحہ 36 نسخہ دائرہ فخاہ محمدی الہ آباد)۔

دیار پورب میں آنے کی بعد میر صاحب سب سے پہلے شیخ شہاب الدین حسینی سجاوند پوری کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان کے پاس رہ کر طریقہ سہروردیہ حاصل کیا اور خرقہ خلافت پہنا(رسالہ عاشقیہ)اس کے بعد شیخ قاضن کی خدمت میں حاضرہوئے شیخ قاضن نے بڑھ کر استقبال کیا اور فرمایا کہ میں تمہارا منتظر تھا شیخ قاضن نے بیعت کرکے کچھ اوراد و اذکار کی تلقین کی جس سے میر صاحب کے اندر سوزدروں کی کیفیت پیدا ہوگئی یہ کیفیت دھیرے دھیرے تیز ہوتی گئی اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ آپ بیتابی میں ادھر ادھر چکر کاٹتے اور کہتے کہ ہے کوئی جو قاضن کی لگائی آگ بجھادے اس عالم اضطراب میں آپ کا گذر شیخ بہاؤ الدین چشتی جونپوری کے یہاں ہوا انہوں نے ایسی روحانی غذا دی جس سے یہ آگ دب گئی اور معرفت الہی کے مقامات آپ پر منکشف ہوگئے اپنے وقت کے ان مشائخ کبار سے تعلیم و تلقین کے ساتھ میر صاحب نے اس عہد کے سلسلہ شطاریہ کے معروف و مشہور شیخ و مرشد شیخ عبدالقدوس عرف قدن شاہ نظام آبادی سے بھی کسب فیض کیا صاحب بحر ذخار لکھتے ہیں کہ میر صاحب جب شیخ قدن کی خدمت میں پہنچے تو شیخ نے ان کی ارادت و عقیدت کا امتحان یوں لیا کہ انہیں حکم دیا کہ فلاں غار (گڈھے) کو مٹی سے بھر و میر صاحب نے حکم کی تعمیل کی اور شیخ کے فرمودہ کام کو مکمل کرکے حاضر ہوئے اور عرض کیا“فرمودہ بجا آوردم”شیخ ان سے بہت خوش ہوئے اور اس دن کی فجر کی نماز میں انہیں امام بنایا شیخ قدن قدس سرہ کے سات عالم فاضل بیٹے تھے اتفاق سے اس دن کوئی فجر کی نماز میں شریک نہیں ہوسکا شیخ نے اس پہ فرمایا“قدن کے سات پوت نپتا علی سب نعمت لٹا”بہر حال شیخ قدن قدس سرہ کی خدمت میں رہ کر ان سے بھی سلسلہ شطاریہ کے اذکار و وظائف کی تحصیل کرکے خلافت سے سرفراز ہوئے۔

 صاحب بحر ذخار میر صاحب کے صاحبزادے کے حوالہ سے یہ بھی لکھتے ہیں(ترجمہ) میر صاحب سلسلہ قادریہ میں اپنے والد سید قوام الدین سے بیعت تھے وہ اپنے والد سید سعید حاجی حرمین سے فیض یافتہ تھے اور وہ صدر الدین راجو قتال سے راجو قتال مخدوم جہانیاں سے اور وہ شیخ ابوالفتح رکن الدین ملتانی سے اور وہ اپنے والد شیخ صدر الدین عارف سے اور وہ اپنے والد شیخ بہائالدین زکریا ملتانی کے خلیفہ تھےاس تفصیل سے معلوم ہوا کہ میر صاحب پورب کے دسویں صدی کے تمام مروجہ طرق و سلاسل کے مشائخ سے فیضیاب ہوئے اسی لئے ان کے سوانح نگار ان کی سب نسبتیں شطاری چشتی نقشبندی اور سہروردی وغیرہ بیان کرتے ہیں البتہ ان جملہ نسبتوں میں آپ پر غلبہ طریقہ شطاریہ عشقیہ کا تھا تحصیل و تکمیل کے بعد میر صاحب اپنی روحانی سرگرمیوں کے لئے اس علاقہ کو منتخب کیا جو اس وقت آپ اعظم گڈھ کے قلب میں واقع ہے چنانچہ آپ جونپور سے منتقل ہوکر موضع کھریواں کو اپنی جائے سکونت بنایا پھر اس سے کچھ فاصلہ پہ جنوب مشرق کی جانب مرتضی آباد کے نام سے ایک موضع آباد کیا اور وہیں مع اہل و عیال کے سکونت پذیر ہو گئے یہی مرتضی آباد بعد میں آپ کی نسبت سے سرائے میر کے نام سے مشہور ہوگیا(اور اسی قدسی صفت بزرگ کی بدولت قصبہ سرائے میر رشد و ہدایت کے عظیم مرکز کی حیثیت سے نمایاں ہوا اور تقریبا ڈیڑھ سو سال تک اس کی مرکزیت قائم رہی. ماخوذ از مقدمہ)میر صاحب نے علوم ظاہر و باطن میں کمال حاصل کرلینے کے بعد علوم ظاہری کی تعلیم و تدریس کے بجائے روحانی علوم کی تلقین و ترویج اور رشد و ہدایت خلق کو اپنا مشغلہ حیات بنایا اور پوری زندگی اسی میں بسر کی اور اس کا معیار علوم شرعیہ کو بنایا اور عام حالات میں پیروی سنت و اتباع شریعت کی راہ سے باہر قدم نہیں نکالا میر صاحب کی زندگی دین و دنیا دونوں کے امتزاج کا نمونہ تھی آپ کا کاشانہ ایک طرف دنیاوی جاہ و جلال کا منظر پیش کرتا تھا۔

 حشم و خدم تھے حرم سرا میں چار بیویاں تھیں فتوحات اور نذرانہ کا سلسلہ جاری تھا جو خدام و متوسلین اور مستورات پہ خرچ ہوتا تھا دوسری طرف اہل عرفاں و یقین کے لئے زاویہ اور خانقاہ تھی جس میں طالبین اور مسترشدین غم روزگار اور فکر معاش سے یکسو ہوکر تزکیہ نفس اور یاد خدا میں منہمک رہا کرتے تھے خود میر صاحب کا یہ حال تھا کہ آپ کے صحو پہ سکر غالب تھا اکثر اوقات جذب و کیف اور سکر وحال کی کیفیت طاری رہتی تھی مگر اپنے متوسلین کی ہر ذمہ داری پوری فرماتے تھے اور وجد و حال سے اس میں خلل نہ پڑتا تھا میر صاحب نے کبھی ارباب دنیا کے آستانہ پہ نہ حاضری دی اور نہ دست سوال دراز کیا آپ نے اللہ تعالی سے عہد کیا تھا کہ وہ دنیا میں کسی سے سوال نہیں کریں گے چنانچہ چالیس سال سے زائد مدت تک اس پہ اس طرح قائم رہے کہ اپنے کسی ملازم کو بھی کسی کام کا حکم نہیں دیا حتی کہ پیاس کہ شدت میں ان سے پانی نہ مانگتے تھےلباس میں میر صاحب کسی خاص وضع کے پابند نہ تھے بلکہ جلال و جمال کی کیفیت کے مطابق مختلف قسم کے کپڑے زیب تن فرماتے تھے اگر فقر و درویشی کی کیفیت ہوتی تو جبہ و دستار کے جمال میں نظر آتے اور اگر استغناء و بے نیازی کی حالت ہوتی تو فوجی اور سپاہیانہ لباس کے جلال میں نظر آتےخدمت خلق مشائخ عظام کا خاص شعار ہے اور وہ افضل الاشتغال خدمت الناس کو اپنا نصب العین قرار دیتے ہیں میر صاحب کا عمل بھی اسی پہ تھا اپنے طالبین اور مسترشدین کا خاص طور پہ خیال رکھتے تھے فجر بعد سے اشراق تک اور عصر سے مغرب تک مخصوص کیفیت رہتی تھی ۔

اس لئے ان اوقات میں کسی سے نہ ملتے تھے اور اس کے علاوہ پورا دن خدمت خلق میں صرف کرتے تھے شیخ عارف علی نے رسالہ عاشقیہ میں میر صاحب کی وفات کے بارے میں تحریر کیا ہے کہ وفات سے چند روز قبل مرتضی آباد (سرائے میر) سے جون پور تشریف لے گئے اور وہاں کے تمام مشائخ سے آخری ملاقات کی اور فرمایا کہ کل آخری شب میری وفات ہونے والی ہے بعد ازاں جون پور سے سرائے میر تشریف لائے آپ کے ہمراہ جون پور سے بہت سے اکابر بھی آئے اور بقیہ لوگ دوسرے دن صبح سرائے میر پہنچے پنجم ماہ صفر کو تمام احباب و متوسلین کو بلا کر یہ شعر ان کے سامنے پڑھا

گر قدم رنجہ کند یار بپرسیدن ما
خوش طبیبے ست بیا تا ہمہ بیمار شویم

معتقدین میں سے بعض حضرات نے اس موقع پہ عرض کیا کہ آپ کی قبر کیسی بنائی جائے اس کے جواب میں یہ شعر پڑھا

صورت ز بعد مرگ ویراں خوشتر است
دردمندے ہم چو من باخاک یکساں خوشتراست

اس بیت کے پڑھنے کے بعد ذکر جہر میں مشغول ہے گئے اور جب دو گھڑی رات باقی رہ گئی تو عین حالت ذکر میں پیغام دوست آپہنچا اور رشد و ہدایت کا یہ درخشاں ہمیشہ کے لئے غروب ہوگیا (انا للہ وانا الیہ راجعون)یہ حادثہ 6 صفر 955 ھ میں پیش آیا”شاہ عاشقاں”سے تاریخ وفات نکلتی ہے آپ نے اپنی پوری زندگی ارشاد و تلقین میں بسر کی اور ہندوستان کے دیگر بڑے مشائخ کی طرح دیار پورب میں بڑا کام کیا اور بقول صاحب مشکوة النبوة:

“ازوے مردم بسیار ارشاد یافتند”

ان مردم بسیار میں شیخ مبارک محمدی ماہلی متوفی 938 ھ شیخ حبیب اللہ عثمانی گھوسوی شیخ عبدالصمد سرہندی شیخ مبارک جھنجھانوی قاضی منجھلہ جونپوری شیخ منجھن کمال پوری خاص طور سے قابل ذکر ہیں میر صاحب کو اللہ تعالی نے دیگر نعمتوں کے ساتھ اولاد صالح کی نعمت سے بھی نوازا تھا چنانچہ صاحب بحر ذخار نے ان کے ایک صاحبزادے شیخ نظر علی کا ذکر کیا ہے(اس کے علاوہ آپ کے صاحبزادیمیر مقیم سرائے میری علم ہیئت و فلکیات کے ماہر تھے اور انہوں نے اس موضوع پہ ایک کتاب بھی تصنیف کی ہے

اسی طرح چار اور حضرات
(1) میر سید غلام حسن حسینی ترمذی
(2)میر سید ظہیر الدین حسینی
(3) میر سید ابراھیم حسینی
(4) میر سید محمد مکی

کیاسماء تاریخ میں مذکور ہیں یہ چاروں حضرات“میر علی عاشقاں کی اولاد سے ہیں اور شیخ فتح علی قلندر کے خلفاء سے ہیں اور سبھی حضرات سرائے میر ہی کے متوطن تھے. ماخوذ از مقدمہ)بارہویں صدی ہجری تک میر صاحب کے خاندان میں علم اور دین کا چرچا رہا بعد میں یہ روحانی خاندان نوابان اودھ کے زیر اثر شیعہ ہوگیا اور بتدریج اس طرح مائل بہ زوال ہوا کہ ماضی کی عظمتوں کا اب کوئی نام نشان بھی موجود نہیں ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad