تازہ ترین

پیر، 11 مئی، 2020

معتکف کے لیے چند بڑی بشارتیں ہیں!

مولانا انوارالحق قاسمی،نیپالی
 بسم اللہ الرحمن الرحیم 
اس کارگاہ ہستی اور کارخانہ عالم کو عدیم النظیر ،بدیع المثال، اور منظم پیرائے میں ،سجانے کا جہاں آفریں کو اپنے بندگان سے ،خالص اپنی عبادت مطلوب ہے ؛مگر بندہ بشر ہے ،کہ وہ اپنے پروردگار کی عبادت سے بیگانگی اختیار کرتا رہتا ہے، اور مسئلہ شکم کوایک بڑامسئلہ بنا کر ، دنیا بھر کی مصیبتوں کو خواہ مخواہ اپنے سر لے لیتا ہے، اور لایعنی فضول امور میں بھی غایت درجہ مستغرق ہوجاتاہے، نتیجتاً وہ اپنے مقصد تخلیق سے بھی غافل ہوجاتا ہے، یہ ہے ان کی صورتحال، کہ جہاں ایک طرف خالق مطلق کا شاہانہ جاہ و جلال اوررعب ودبدبہ اس کے آستانے کو دستک دینے، اور اس کے دربار میں حاضری سے مانع ہوتا ہے ،تو وہیں دوسری طرف ارحم راحمین کی بے شمار الطاف وعنایات  اور رحمت بیکراں فکرمندیوں کی  طرف متوجہ ہوتی ہیں،  اور ان کے لیے امید کے دیے اورشمعے  جلاتی ہے ،اور بیم و رجا کےعالم میں غفلت کی تاریک وادیوں میں بھٹکنے والا انسان، اپنے پروردگار کے دربار میں قدم رنجہ ہوجاتا ہے، اسی عقیدت اور جذبے کے ساتھ دربار الہی میں دخول  کا نام "اعتکاف " ہے ،اعتکاف کے لفظی معنی ٹھہرنے اورکسی جگہ قیدوبند ہونےکےہیں ،اور اصطلاح شریعت میں رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں دنیاوی کاروبار، معاشی  مصروفیتوں اور اہل و عیال سے کنارہ کش اور برطرفی ہوکر، مرد حضرات کے لیے" مسجد"میں اور بنت حوا کے لیے "گھر کے کسی ایک گوشے میں" قیام کرنے کو اعتکاف کہتے ہیں۔

    قرآن و احادیث میں اعتکاف سے متعلق بے شمار فضائل آئے ہیں ،خودآقائےنا مدار، تاجدارمدینہ، احمد  مجتبی،ٰ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم حکم خداوندی ملنےکے بعد سے مسلسل تا دم زیست اور تاحین حیات اپنے جاں ثار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ رمضان المبارک کے آخری دس ایام میں،  بڑے ہی اہتمام کے ساتھ" مسجد" میں "اعتکاف" فرماتے تھے ،اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  اعتکاف کو بہت اہمیت بھی دیتے تھے ،اعتکاف سے متعلق فضائل بیان کرتے ہوئے فخر العالمین  صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں :ومن اعتکف یوماابتغاء وجه الله جعل الله بينه وبين النار ثلث خنادق ابعد مابين الخافقين. ترجمہ: جو شخص اللہ رب العزت کی خوشنودی کی  تلاش میں ایک دن کا اعتکاف کرتا ہے، تو اللہ تعالی اس کے اور جہنم کے درمیان تین ایسی بڑی خندقیں حائل  فرما دیتے ہیں ،جو دنیا جہاں سے زیادہ چوڑی اور وسیع ہے، ایک دوسری حدیث میں ارشاد فرماتے ہیں:عن ابن عباس رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال في المعتكف هو يعتكف الذنوب ويجري له من الحسنات كعامل الحسنات كلها.  ترجمہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے، کہ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف کرنے والا شخص معاصی وسئیات سے مامون و محفوظ رہتا ہے ،اور اس کے لیے نیکیاں اتنی ہی لکھی جاتی ہیں،  جتنی کہ نیکیاں کرنے والے کےلیے۔

    آخرالذکر "حدیث پاک "میں اعتکاف کے دو مخصوص نفع بیان کیے گئے ہیں، نمبرایک یہ کہ رضائے الہٰی کی خاطر دربار ربانی میں اعتکاف کرنے والا شخص دنیا کی خرافات اور ہر طرح کی برائیوں اور گناہوں سے محفوظ رہتا ہے ،ورنہ بعض دفعہ معمولی لغزش اور ادنی کوتاہی کی وجہ سے، ایسے اسباب معرض  وجود ہو جاتے ہیں،  کہ انسان رمضان المبارک کے ایسے متبرک و مسعود  وقت میں معصیت کا مرتکب ہوجاتا ہے، اور رمضان المبارک کے مہینے میں ایک مسلمان سے گناہ کا سرزد ہو جانا ،کس قدرظلم عظیم ہے ،جب کہ اعتکاف کی وجہ سے "معتکف " ہر طرح سے بےفکر اور پرامن  رہتا ہے،نمبر دوم یہ ہے کہ  بہت سے نیک اعمال ایسے ہیں ،کہ جنہیں" معتکف" حالت اعتکاف میں نہیں کر سکتا ہے مثلا: جنازے کی شرکت اور مریض کی عیادت و تیمارداری ؛مگر پھر بھی ان عبادتوں  کا ثواب اور اجر بغیر عمل کیےانہیں ملتا ہے ، یہ ہے باری تعالی کی عنایات و جود و سخااور فیاضی کی معمولی جھلک کہ آدمی عبادت ،ایک کرے اور دس عبادتوں  کا ثواب پائے،   اور ایک روایت میں ہے، کہ جس شخص نے رمضان المبارک کے آخری عشرے کا اعتکاف کیا، اس کو اس کی معمولی قربانی پر مالک الملک "دو حج" اور" دو عمرے" کا ثواب عطا فرماتے ہیں:من اعتكف عشرا في رمضان كان كحجتين وعمرتين۔
   
معمولی عبادت و اطاعت کے صدقہ طفیل، باری تعالی کی جانب سے اس قدر عظیم بشارتیں، اور بڑی بڑی خوشخبریاں ہیں ،پھر بھی مسلمان بسر و چشم اعتکاف  کے لیے آمادہ نہیں ہوتے ہیں ،مالدار حضرات، تو اس  لئے اعتکاف میں نہیں بیٹھتے ہیں، کہ وہ کاروباری لوگ ہوتے ہیں، خیال کرتے ہیں، کہ اگر دس ایام اعتکاف میں بیٹھ جائیں گے، تو پھر کافی نقصان ہوگا، اور غرباء حضرات، تو اس لیے نہیں بیٹھتے،کہ وہ یومیہ مزدوری کرکے اپنی آل اولاد کی پرورش کرتے ہیں، اگر وہ "اعتکاف"  میں بیٹھ جائیں گے،توپھران کی  آل اولاد آذوقہ حیات کے لیے بھی ترسنے لگیں  گی، یہ سب بس ایک بہانہ ہے، اصل بات یہ ہے کہ مسلمانوں کے قلوب اور مشام جاں میں دنیا کی محبت اور عظمت جاگزیں ہو چکی ہے ،جوا نہیں دربار الہی میں اوقات مسعود گزارنے سے روک رہی ہے، اور چوں کہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں  ہر آبادی میں کم از کم ایک  شخص کا اعتکاف  کرنا سنت موکدہ علی الکفایہ ہے،  اگر کسی  ایک شخص نے بھی یہ" سنت" ادا نہیں کی، تو پوری آبادی والے تارک  سنت ہوں گے؛ اس لئے مجبور اور با دل  ناخاستہ کوئی ایک شخص اعتکاف میں بیٹھ جاتے ہیں،  بعض مقامات کے سلسلے میں ،تو یہ بھی سنا گیا ہے، کہ وہاں کے تمام مصلیان باتفاق آراء ،کسی ایک غریب، کو باہمی طے شدہ رقومات  کے عوض" اعتکاف"  میں بیٹھاتے ہیں ، یہ تو ہے موجودہ صورتحال۔

مرد حضرات کے لئے اعتکاف کی سب سےبہتراورافضل جگہ "مسجد مکہ" ہے( جہاں  حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام آئے تھے ،حضرت ہاجرہ آئی تھیں، حضرت اسماعیل علیہ الصلاۃ والسلام آئے تھے ،جہاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے تھے ،اور جہاں وقت کے بہترین انسانوں نے ان کی آواز پر لبیک کہا تھا، جہاں بدترین انسانوں نے ان کی نافرمانی کی تھی، ان کا مذاق اڑایا تھا، اور وہ ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے تھے، پھر جہاں  وہ فاتح کی حیثیت سے ،اس طرح لوٹے تھے، کہ ابوسفیان ہی کا گھر سب کی پناہ گاہ بنا دیا تھا، اور جہاں حضرت  جبریل آتے رہے،وحی نازل ہوتی رہی اور قرآن کریم اترتا رہا)  پھر "مسجد نبوی شریف"پھر " بیت المقدس" ان کے بعد" پنج وقتہ نماز ہونے والی مسجد" اور عورت اگر اعتکاف  کرنا چاہے، تو اس کے لیے بہتر یہ ہے، کہ وہ اپنے گھر کے ایک گوشے ہی  کو جائے اعتکاف بنالے، وہی اس کےلیے مسجد کا حکم رکھے گا ،اور اس سے  بلاضرورت باہر نہ آئے۔

معتکف کو چاہئے کہ دوران اعتکاف پنج وقتہ نماز سنن و آداب کی رعایت کرتے ہوئے پڑھے، اسی طرح کثرت سے نوافل کا اہتمام کرے، اور خوب قرآن کریم کی تلاوت کرے، مع ان  کے زیادہ سے زیادہ اذکار و اوراد کرتے رہے، اور کوشش یہ ہو کہ کوئی بھی لحظہ، ثانیہ عبادت الہی سے خالی نہ گزرے، اور بلاضرورت طبعی : مثلا بول وبراز وغیرہ ،ضرورت شرعی :مثلا  اس کی مسجد میں جمعہ نہ ہوتا ہو،ضرور اضطراری :مثلا  مسجد منہدم ہو جانا، یا کسی ظالم کامعتکف کو مسجد سے زبردستی نکال دینا وغیرہ ،کے ہرگز مسجد سے باہر نکلنے کی کوشش نہ کرے ؛ورنہ بعض  صورتوں میں "اعتکاف" کے جاتے رہنے کا خدشہ ہے، اور بعض صورتوں میں کراہت در آنے کی۔اگر یہ مسنون  اعتکاف کسی وجہ سے فاسد ہو جائے ،تو بہتر یہ ہے کہ پورے عشرے کے اعتکاف کی قضا روزوں سمیت رمضان المبارک کے بعد، کسی  دگرایا میں کرے ۔اعتکاف میں بیٹھنے والے کو چاہیے کہ وہ  بیس رمضان المبارک کو، بعد نماز عصر "اعتکاف"میں بیٹھ جائے، اور جب عید الفطر کی چاند نظر آجائے، تو پھر مسجد سے باہر نکل جائے۔دعا کریں کہ رب العالمین تمام امت مسلمہ کے دل و دماغ میں رمضان المبارک کے اخیر عشرہ کے اعتکاف کی اہمیت و افادیت مستحکم فرمائے ،اور ہر مسلمان کو اس کی توفیق عطا فرمائے، تاکہ اسی بہانےخود کردہ گناہوں پرنادم وشرمندہ ہونے کاموقع مل جائے۔  

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad