تازہ ترین

ہفتہ، 23 مئی، 2020

پیشہ ور فقرا سے ہوشیار رہیں اور اپنے صدقات و زکات ضائع ہونے سے بچائیں۔

تحریر: محمد شفاء المصطفی شفا مصباحی شعبہ تحقیق: جامعہ اشرفیہ مبارک پور
پچھلے دو سال پرانی بات ہے  کہ ایک فقیر نما شخص میرے دروازے پر آیا اور رو رو کر اپنی روداد مصائب سنانے لگا۔ اس کی آنکھیں ساون بھادوں کی طرح برس رہی تھیں اور موسلادھار اشکوں سے اس کے دامن تر ہو رہے تھے۔ کچھ دیر بعد وہ اپنی تھرائی  اور سسکتی ہوئی آواز میں مجھ سے یوں مخاطب ہوا: " میرے پاس کھانے پینے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے،میرے چھوٹے چھوٹے بچے بھوک سے تڑپ رہے ہیں، آپ مجھے کچھ پیسے دے دیں تاکہ میں کچھ انتظام کر سکوں۔"واقعی اس کے اس درد بھرے لب و لہجہ نے مجھے کافی متاثر کر دیا اور والد محترم سے فوراً کچھ رقم لے کر میں اس کے پاس پہنچا، مگر وہ شخص اس رقم پر راضی نہ ہوا اور اس سے زیادہ کا مطالبہ کرنے لگا۔اتفاق کہیے کہ اس وقت خردہ یعنی چینجز پیسے نہیں تھے، اس لیے والد محترم نے اپنے حجرے سے یہ کہتے ہوئے اسے یہ رقم رکھ لینے کی درخواست کی کہ آپ کل آئیں میں کل آپ کو آپ کی مطلوبہ رقم دوں گا، فی الوقت میرے پاس خردہ پیسے نہیں ہیں اور ایک بڑی رقم کا نام لے کر آپ نے کہا کہ اتنے کا نوٹ ہے، اس لیے چینجز ہونے پر کل دیتا ہوں۔ اتنا سنتے ہی اس نے اپنے جیب میں ہاتھ ڈالا اور پیسوں کی ایک تھیلی نکال کر کہنے لگا کہ وہ رقم دیجیے میں آپ کو چینجز واپس کرتا ہوں۔

 جب میری نظر اس تھیلی پر پڑی تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں کہ جو شخص ابھی کہہ رہا تھا کہ میرے پاس خورد و نوش کے لیے پیسے نہیں ہیں، اس کے پاس اتنے پیسے کہاں سے آگئے۔ مجھے حیرت بھی ہو رہی تھی اور غصہ بھی آ رہا تھا کہ یہ شخص کس قدر جھوٹا اور چال باز نکلا۔ مگر کرتا بھی تو کیا کرتا کہ وہ میرے ہی دروازے پر تھا اور والد محترم بھی موجود تھے۔ اس لیے میرے ہاتھ میں جو رقم تھی میں نے وہ تھماتے ہوئے معروضات ہی شکل میں دو چار جملے کہہ کر اسے با عزت رخصت کر دیا۔  میں پورے وثوق کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ اس تھیلی کا وزن اور اس کا وسیع ظرف اس بات کی غمازی کر رہا تھا کہ اس میں ایک خطیر رقم ہے۔  یہ سب مجھے بہت عجیب لگا، اس لیے میں اس شخص کی ٹوہ میں لگ گیا اور بالآخر تحقیق و تفتیش کے بعد یہ حقیقت کھل کر سامنے آہی گئی کہ موصوف کافی مال دار اور زمین دار ہیں، مگر پھر بھی در در مانگتے پھرتے ہیں۔ اگر کوئی  منع کرتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ یہ تو میرا پیشہ ہے، میں اسے کیسے چھوڑ دوں۔  کیا ایسی صورت  میں انھیں صدقات واجبہ اور زکات کی رقم دینا جائز ہے اور کیا ہمارے صدقات و زکات انھیں دینے سے ادا ہو جائیں گے۔

 نہیں ہرگز نہیں ایسے لوگوں کو دینے سے آپ کی زکات اور آپ کے صدقات واجبہ ہرگز ادا نہ ہوں گے۔ لہذا ایسے لوگوں سے ہوشیار رہیں اور اپنے صدقات واجبہ اور زکات کو ضائع ہونے سے بچائیں۔ہر کسی کو صدقات واجبہ اور زکات کی رقم نہ دیں بلکہ جس کے بارے میں یقین یا ظن غالب  ہو کہ یہ شخص واقعی مستحق ہے،اسے ہی مذکورہ رقم دیں، ورنہ آپ کی زکات اور آپ کے صدقات واجبہ ادا نہ ہوں گے اور پھر سے آپ کو زکات و صدقات کی رقم دینی ہوگی۔  صدقات و زکات تو در کنار ایسے لوگوں کو بھیک تک دینا منع ہے، کیوں کہ ایسے  لوگوں کو سوال کرنا ہی نا جائز و حرام ہے۔ اس لیے انھیں بھیک دینا گویا معصیت پر تعاون کرنا ہے، جو کہ ناجائز و گناہ ہے۔ لہذا ایسے لوگوں کو ہرگز صدقات و زکات کی رقم نہ دیں بلکہ اصل مستحقین تک پہنچائیں۔ حقیقی مستحقین کی کمی نہیں ہے، اگر وہ  آپ تک نہیں پہنچ پاتے تو آپ خود ہی تھوڑی زحمت کر کے اصل مستحقین تک پہنچیں اور اپنے صدقات و زکات  بحسن و خوبی ادا کریں۔ تھوڑی سی زحمت ہی سہی مگر آپ کے صدقات و زکات صحیح طور پر ادا تو ہو جائیں گے۔

 اگر تحریر کی طوالت کا خوف نہ ہوتا تو ہم کتب فقہ سے صریح جزئیات پیش کرتے کہ ایسے مال دار اور صاحب ثروت حضرات کو زکات و صدقات دینے سے ادا نہیں ہوتے بلکہ ضائع ہو جاتے ہیں، جن کی ادائیگی پھر سے لازم و ضروری ہے۔ نیز یہ بھی کہ ایسے لوگوں کو بھیک تک دینا ناجائز و حرام اور گناہ کا کام ہے۔ جنھیں تفصیل درکار ہو وہ کم از کم اردو زبان میں فقہ حنفی کی معتبر ترین کتاب " بہار شریعت، حصہ پنجم، زکات و صدقات کا بیان اور سوال کسے حلال ہے اور کسے نہیں،" یہ دونوں بیان مطالعہ فرمائیں۔ ان شاءاللہ عزوجل حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جائے گی اور آپ اس حوالے سے کافی محتاط ہو جائیں گے۔اللہ تعالیٰ ہمارے صدقات و عطیات اور زکات اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان پیشہ ور فقرا کو ہدایت عطا فرمائے۔ آمین

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad