تازہ ترین

منگل، 19 مئی، 2020

تبلیغی جماعت ملک و ملت کے لئے باعث رحمت ہے

بقلم : آصف عنایت میرٹھی
1_تبلیغی جماعت قوم و ملت کے لیے باعث فخر،ملک کے لیے باعث رحمت،اوردنیا کے لئے باعث خیر ہے ،جماعت کا بنیادی مقصد ہی معاشرے کو جملہ جرائم سے پاک کر،ایک صالح معاشرے کو تشکیل دینا ہے،تقریبا ایک صدی قبل جب مسلم معاشرہ بدترین جرائم رقص و سرود ،رشوت و سود،چوری وڈاکہ زنی،قتل و غارت گری،عریانیت وفحاشی،حرام کاری وحرامخوری،اور دیگر فسق و فجور کی زد میں آیا،مسلمانوں کی دینی حالت بھی افسوسناک حد تک ابتری کا شکار تھی،بے شمار مسلم علاقے ایسے تھے کہ جہاں مسلمان اسلام کا نام تو جانتے تھے،مگر کلمہ لاالہ الا اللہ کا صحیح تلفظ تک انہیں معلوم نہ تھا،مسلم معاشرے کی یہ حالت دیکھ کر ایک صاحب علم، صاحب فکر،اور صاحب تجربہ شخصیت،وخداترس بزرگ،حضرت مولانا الیاس رحمتہ اللہ علیہ کو یہ فکر دامن گیر ہوئی، کہ سماج کو جرائم سے پاک،ایک اسلامی معاشرہ کی تشکیل،اور مسلمانوں کی اصلاح وتربیت کے لئے کیا جائے؟

چنانچہ آپنے اسی فکر وکڑہن کے ساتھ سفر حج اختیار کیا،اورمشاعرحج، حرمین شریفین،مقامات مقدسہ پر نہایت عجز وانکساری کے ساتھ دعائیں مانگتے رہے،میرے اللہ!تمام مسلمانوں کیلیے دعوت کی راہ آسان کردیجئے،بفضلہ تعالی شرح صدر ہوا، اور آپ نے دارالحکومت  دہلی کی ایک بستی نظام الدین سے اس دعوت خیر کا آغاز فرمایا،آپ کی محنت اور خلوص کی برکت ہی ہے،جو محنت ایک بستی سے شروع ہوئ تھی دیکھتے ہی دیکھتے وہ ایک عالمی اوربین الاقوامی دعوت بن گئی،حضرت دامت برکاتہم نے اس جماعت کے لئے کچھ قواعد و ضوابط وضع فرمائے تھے جن پر جماعت تاحال بشدت پابند ہے،جو بھی شخص نکلے اپنی ذاتی خرچ پر نکلے،اس سے وابستہ افراد سیاسی دخل اندازی سے دور رہیں،جماعت تمام مسالک اور مکاتب فکر کے لوگ اپنے نظریاتی اختلافات کے باوجود دعوت پر جمع ہوجایئں
اور ایک امت بنیں  یہ وہ قابل قبول اصول ہیں جن پر جماعت کی بنیادقایم ہے 

2_ ملک کیلیے باعث رحمت
تبلیغی جماعت کا کسی ملک میں جانا ، وہاں کے عوام و حکومت دونوں کے لئے باعث رحمت ہے ، کیونکہ یہ جماعت ایک عام فرد اور شہری کی اصلاح پر محنت کرتی ہے ، تاکہ وہ ایک ایسا اچھا شہری بن سکے،  جو اپنے خالق کا وفادارہو، اور نہ صرف اپنے وطن اور اہل وطن کا خیر خواہ ہو ، بلکہ ساری انسانیت کے لئے فکر مند ہو جائے ، وہ ایسی کوئی حرکت نہ کرے جس سے وطن اور اہل وطن کونقصان پہنچے،وہ چوری نہ کرے، کسی کوناحق قتل نہ کرے ، کسی کا مال نہ لوٹے،کسی کی عزت پر حملہ نہ کرے ، جھوٹ نہ بولے، اور نہ کسی کو دھوکا دے ، "بلکہ وہ دوسروں کے لئے وہی پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے" یہ وہ اوصاف ہیں جو حکومت اور عوام دونوں کے حق میں مفید ہیں ۔ حکومتیں عام طور پر اسلامی ہوں یا غیر اسلامی ، اپنی بگڑی ہوئی عوام سے نالاں ہوتی ہیں اور دہشت گردوں ، چوروں ، ڈاکوؤں اور منشیات اور مسکرات کے استعمال کرنے والوں کا شکوہ کرتی ہیں اور ان جرائم کو روکنے کے لئے قوانین اور سزائیں وضع کرتی ہیں ، لیکن ان سے کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوتا ۔ لیکن تبلیغی جماعت کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ تعلیم وتربیت کے ذریعہ مسلمانوں کے نفوس میں ایسا ملکہ اور ایسی اخلاقی قوت پیدا کر دے جو انہیں ان جرائم کے ارتکاب سے روکے، اور ان جرائم سے دلوں میں نفرت پیدا کر دے ،اور انہیں ایسی صفات اور اعلی اخلاق، اپنانے کی ترغیب دیتی ہے،جن سے عوام اور حکومت دونوں کو فائدہ پہنچتا ہے ۔

 حضرت محمد رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ’ ’ الدین النصيحة ؟ قلنا : لمن يا رسول الله ؟ قال : للہ ولرسوله ولكتابه ولائمة المسلمين وعامتهم ترجمہ : دین خیر خواہی کا نام ہے ۔ ہم نے عرض کیا : کس کے لئے ؟ یا رسول اللہ ! فرمایا : اللہ کے لئے ، اس کے رسول کے لئے ، اس کی کتاب کے لئے اور مسلمانوں کے حکمرانوں کے لئے اور عام مسلمانوں کے لئے ‘ ‘ یقینی بات ہے کہ جب فردکی اصلاح ہوگی تو اس سے پورے معاشرہ کی اصلاح ، ملک میں امن و امان کی فضاء پیدا ہوگی ، روحانی و اخلاقی قدر میں عام ہوں گی اور لوگ امن و امان کی زندگی بسر کرسکیں گے ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad