تازہ ترین

جمعہ، 15 مئی، 2020

صدقۂ فطر،فضائل و مسائل اوراحکام

محمد ضیاء الحق ندوی
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
 رمضان مبارک اور روزے کےاحکام ومسائل میں سے ایک "صدقہ فطر "بھی ہے لفظ فطر افطارسے مشتق ہے جس کے معنی روزہ افطارکرنے یا روزہ نہ رکھنے کےہیں اورشریعت کی اصطلاح میں روزہ افطار کرنےکی خوشی میں اور شکریہ کےطورپرجوصدقہ اداکیاجاتاہے اسے "


صدقہ فطر
" کہتے ہیں، اورصدقہ کےمعنی عطیہ کے ہیں لیکن مراد وہ صدقہ ہے جواللہ کی قربت وثواب حاصل کرنے کی امیدپردیاجاتا ہے.
صدقہ فطرکی مشروعیت
 :صدقہ فطرکی مشروعیت زکاۃ سےپہلے دوسری صدی ہجری میں عیدسےدو دن قبل ہوئی، صدقہ فطرکی مشروعیت وفرضیت قرآن وحدیث سے ثابت ہے چنانچہ ارشاد باری ہے " *قدافلح من تزكي* "سورة الاعلي ١٤ ترجمہ: "بےشک بھلاہواس کاجو سنوارا" علامہ شبیراحمد عثمانی رحمۃاللہ علیہ رقم طراز ہیں کہ بعض سلف نے کہاکہ " *تزكى* " " *زكوة* " سے مشتق ہے جس سے مراد یہاں "صدقةالفطر" ہے. (تفسیرعثمانی) صدقہ فطررمضان کی لغویات اوربیہودہ باتوں کا کفارہ ہے اورفقراء و مساکین کی پرورش  کا ذریعہ بھی، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہمافرماتےہیں کہ "فرض رسول الله صلى الله عليه وسلم زكاة الفطر طهرةللصائم من اللغوو الرفث و طعمةللمساكين من أدهاقبل الصلاة فهي زكاة مقبولة ومن أدهابعد الصلاة فهي صدقة من الصدقات "أبوداؤد. كتاب الزكاة. ۱٦٠٩ .ابن ماجه. كتاب الزكاة. ١٨٢٧ ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےصدقہ فطرکوفرض فرمایاجو روزہ داروں کی لغویات اوربیہودہ باتوں سے پاکی ہے اورغریبوں کوکھانا کھلانے کےلئے ہے جس نے نمازعیدسےقبل اسےاداکیاتو یہ مقبول زکاۃ ہے اورجس نے اسے نماز عیدکےبعدادا کیاتویہ دوسرے صدقات کی طرح ایک صدقہ شمار ہوگا"مذکورہ حدیث سے صدقہ فطر کےوجوب کی حکمت اوراس کےمقصدکااندازہ بخوبی لگایاجاسکتا ہے چنانچہ صدقہ فطر ہر وہ مال ہے جسے مسلمان عید کےدن اپنےآپ کوپاک کرنے کی نیت سے اپنےمال میں سےفقراءومساکین اور حاجت مندوں کےلئےنکالتےہیں نیز اس کےروزہ میں پیدا شدہ خلل جیسے لایعنی یافحش باتوں کی تلافی مقصود ہوتی ہے،اس لئے ہرمسلمان کوچاہیےکہ بخوشی صدقہ فطراداکریں تاکہ فقراءومساکین بھی اس خوشی ومسرت کےساعات سےمحروم نہ رہے ایک حدیث میں ہے "أغنوهم عن الطواف في هذااليوم "یعنی فقراءو مساکین کوعیدکےروزادھر ادھر پھرنے اوردست درازی سے بےنیاز کرو.

صدقہ فطرکاحکم 
 اکثرشوافع،موالک اور حنابلہ کےنزدیک صدقہ فطر فرض ہے، ائمہ حنفیہ کے یہاں صدقہ فطر واجب ہے جبکہ فرض و واجب کے معنی میں معمولی سافرق ہے لیکن یہ فرق صرف اعتقادی ہے عملاکوئی فرق نہیں ہے.

صدقہ فطرکس پرواجب ہے؟ 
صدقہ فطرواجب ہے اس صاحب اسلام ،آزاد ، اورمالدارپر جس پر زکاۃ واجب ہوتی ہےیازکاۃ توواجب نہیں ہوتی لیکن رہائشی مکان اورضروری اسباب وآلات و اوزارکے علاوہ اتنی قیمت کازائد مال واسباب ہے،جتنی قیمت پریہ زکاۃ واجب ہوتی ہے،چاہےتووہ تجارت کامال ہویانہ ہواورچاہے اس پرسال گزرچکاہویانہ گزراہو توایسے مسلمان پر عیدالفطرکےدن صدقہ واجب ہوتا ہے.صدقہ فطرہرمسلمان غلام ہویاآزاد،مردہویاعورت،چھوٹاہویابڑا،روزہ دارہویا غیرروزہ دار، نصاب زکاۃ کا مالک ہویانہ ہو سب پر واجب ہے،حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہمافرماتےہیں کہ "فرض رسول الله صلى الله عليه وسلم زكاةالفطرصاعامن تمر أو من شعيرعلي العبدوالحر والذكروالأنثى والصغير و الكبيرمن المسلمين "صحيح البخاري. كتاب الزكاة. باب صدقةالفطر على العبد.١٥٠٤ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےغلام وآزاد،مردوعورت،چھوٹےاوربڑےمسلمان پر کھجور یاجو کاایک صاع فرض (واجب) فرمایاہے"

صدقہ فطرکب واجب ہوتاہے ؟ 
عیدالفطرکی صبح صادق کےوقت جو موجودہواس پرصدقہ فطرواجب ہوجاتاہے،صبح صادق  سے پہلے پہلے جو بچہ پیداہوتوصدقہ فطر کی ادائیگی اس کی طرف سے بھی ضروری ہوگی اوراگرکوئی رات ہی میں انتقال ہوگیا تواس کی طرف سے صدقہ فطرنہیں ادا کیا جائیگا.

 ادائیگی کاوقت
صدقہ فطرکی ادئیگی کااصل وقت عیدالفطرکےدن نماز عیدسے پہلے پہلے ہے ،حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہماسے مروی ہےکہ "ان النبي صلى الله عليه وسلم أمربزكاة الفطرقبل خروج الناس إلى الصلاة " صحيح البخاري. كتاب الزكاة. باب الصدقة قبل العيد ١٥٠٩ترجمہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو نمازکی طرف نکلنے سے پہلے صدقہ فطرکا حکم فرمایا "اس حدیث کی روشنی میں علماء نے لکھا ہےکہ عیدکی نماز سے  پہلے صدقہ فطر نکالنا مستحب ہے، البتہ کتنا پہلے نکالاجاسکتاہے؟اس میں ائمہ کااختلاف ہے، امام ابوحنیفہ رحمۃاللہ علیہ کےنزدیک ایک دو سال پہلے اداکردےتو جائز ہے.(عمدۃالقاری۱۰۸/۹) حنابلہ کےنزدیک ایک دو دن پہلے اورشوافع کے نزدیک رمضان المبارک شروع ہونے کےبعدادا کیا جاسکتاہے. المغني لابن قدامه( ۳۵۸/۲)

عیدکےبعدصدقہ فطرکی ادائیگی
:صدقہ فطرکامقصداپنے غریب بھائیوں کوعیدکی خوشی میں شریک کرنا ہے،یہ مقصدجب ہی حاصل ہوسکتاہےجبکہ عیدسے پہلےبلکہ رمضان مبارک ہی میں صدقہ فطر اداکردیاجائے ورنہ وہ اس کے ذمہ قرض رہےگا،خود حضورصلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا"ومن أدها بعدالصلاة فهي صدقة من الصدقات "أبوداؤد. باب زکاۃ الفطر. جس نے نماز عیدسے پہلےصدقہ فطرادا کردیاتویہ مقبول صدقہ ہے،اورجس نےنمازعیدکے بعداداکیاتویہ عام صدقات میں سےایک صدقہ ہے، اس لئے عیدکےدن سے بھی پہلے صدقہ فطرادا کردینا افضل ہے. 

صدقہ فطرکی مقدار
: حضرات احناف  کےنزدیک صدقہ فطرکی مقدار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےزمانہ میں مروجہ اوزان کےاعتبار سے نصف صاع گیہوں ہے،حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ" إن رسول الله صلى الله عليه وسلم أمربزكاةالفطر صاع من تمر أوصاع من شعير قال فعدل الناس به نصف صاع من بر" صحيح مسلم. كتاب الزكاة. باب زكاة الفطر على... ٢٣٢٧ "رسول  اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے  صدقہ فطرکےمتعلق ایک صاع کھجور یاایک صاع جو ,کاحکم فرمایا ا نہوں نے فرمایا کہ  لوگوں نے اسکی قیمت کے اعتبار سے نصف صاع گیہوں مقرر کرلیا. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ گیہوں سےصدقہ فطر نصف صاع(پونےدوکیلو گیہوں) نکالناہوگا،اور شوافع کےنزدیک صدقہ فطر ایک صاع واجب ہے، اوران کےنزدیک حجازی اوزان کےلحاظ سے صاع کی مقدارمعتبرہے،جدید اوزان میں یہ مقدار دو کیلوسات سواکاون گرام ہوتی ہے.(الفقه الاسلامي و أدلته٩١١/٢)کھجور ،کشمش ،جو یا گیہوں کےعلاوہ کی اور خوردنی اشیاء کےذریعے صدقہ فطرنکالاجائے تو ایک "صاع"(ساڑھےتین کیلو) نکالناہوگا،حضرت ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ "كنا نخرج زكاة الفطر إذكان فينارسول الله صلى الله عليه وسلم صاعامن طعام.... الخ "جامع الترمذي. كتاب الزكاة. باب ماجاءفي صدقة الفطر ٦٧٥ "حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہم ایک صاع غلہ صدقہ فطرنکالا کرتے تھے "

صدقہ فطرکن کن لوگوں کی طرف سےواجب ہے؟
 جس پرصدقہ فطرواجب ہےاس کواپنی طرف سے اوراپنی نابالغ اولاد( اگر صاحب نصاب نہ ہو) کی طرف سےصدقہ فطرادا کرناواجب ہے،اگربچےبالغ ہوں لیکن فاترالعقل ہوں توان کی طرف سےبھی صدقہ فطراداکرناواجب ہے،بیوی اوربالغ صحیح العقل اولاد کی طرف سے بھی صدقہ فطراداکردے تواستحسانا اداہوجائےگا، "ولو أدي عنهمابلا إذن أجزا استحسانا " الدرالمختارمع الرد.  ۳۱۷/۳

صدقہ فطرکےحقدار
:جن کوزکاۃ دی جاسکتی ہے انہیں صدقہ فطربھی دے سکتے ہیں اورجن کوزکاۃ نہیں دی جاسکتی ہے انہیں صدقہ فطربھی نہیں دےسکتے ہیں فرق صرف اتناہے کہ امام ابوحنیفہ رحمۃاللہ علیہ کےنزدیک غیرمسلم کوبھی صدقہ فطردے سکتے ہیں اوردوسرے فقہاءکےیہاں نہیں دےسکتے ہیں واللہ اعلم بالصواب

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad