تازہ ترین

جمعرات، 21 مئی، 2020

سزا ملی ہمیں اس لئے کہ ہم مزدور ہیں

ازقلم۔اسلامک ریسرچ اسکالر مفتی محمد ضیاءالحق قادری فیضی فیض آبادی 
خوابوں کے امین
بچوں کے والدین جو بچوں کے تابناک مستقبل میں رنگ و روغن بھرتے ہیں اور ایک سچا  خواب دیکھ کر ان کا داخلہ ایک اچھے اسکول میں کراتے ہیں۔ ان کے  خوابوں کی تکمیل کرنے والی ذات اللہ سبحانہ تعالٰی کی ذات با برکت  ہے۔اور ظاہر میں یہ اہم  فریضہ اساتذۂ کرام کو عطا کیا گیا ہے۔ان خوابوں کی تعبیر اب اساتذہ کے ہاتھ میں ہے۔یعنی وہ خواب اساتذۂ کرام کے پاس امانت ہیں۔ اب اس امانت میں خیانت کرنے سے اللہ عزوجل تو ناراض ہوگا۔ہی مگر ان ماں باپ کےجذبات بھی ملاحظہ فرمائیں۔

اپنے ستاروں کی  آب  و تاب  بھی  نہ  دیکھوں۔
تعبیر کے ڈر سے  میں  خواب  بھی نہ  دیکھوں۔
کاہل ہیں غافل ہیں یہ  سوچ  کر چپ  ہو  رہوں۔
جبینوں پہ سجی امیدِ انقلاب بھی  نہ دیکھوں۔
ایک عبرت ناک واقعہ پیش خدمت ہے۔

 ایک غریب شوہر اور بیوی جن کی شادی کو ابھی  ایک سال ہوا۔ ابھی دونوں جوان تھے۔ابھی ان کے چہرے کِھلے کِھلے تھے۔ ابھی ان کے ہاتھ صاف ستھرے تھے۔ ابھی وہ نکھرے نکھرے تھے۔ ابھی ان کے بال سیاہ تھے کالے تھے۔ابھی ان کی آنکھیں دیکھ سکتی تھیں۔ ابھی ان کے کان سن سکتے تھے۔ ابھی وہ اپنی ٹانگوں پر بڑے آرام سے چلتے پھرتے تھے۔وقت گزرتا گیا جیسا کہ  شادی کے بعد ہر جوڑے کی یہی تمنا ہوتی ہے کہ جلد اس کی گود  بھر جاے  اللہ عزوجل ان کی دعاؤں کو شرف قبولیت عطاء فرماتا ہے اور ان کی نخل آرزو بار آور ہوتی ہے دل کی کلی کھلتی ہے اور مانگی مراد پوری ہوتی ہے اللہ اس کی گود  بھرتا اور مسرت کا سامان کرتا ہے  ایک بیٹا اور بیٹی سے نوازتا ہے ۔اور وہ بہت ہی خوش ہوے۔اب وہ
جاگتی آنکھوں سے بڑے بڑے خواب دیکھنے لگے۔اپنے خیالی سپنوں کے شہر میں وہ اپنے بچوں کو شہزادے شہزادی کے روپ میں دیکھتے۔تو گھنٹوں بیٹھ کر خوابوں کی دنیا میں ایک آن کے لیے  کھو جاتے۔

بہت سی باتیں کرتے سب غم بھول جاتے۔ کسی تکلیف کا احساس نہ رہتا۔ کبھی اپنے بچوں کو بڑےبڑے فلک بوس محلات میں دیکھتے۔ کبھی۔کبھی فوجی کے روپ میں  دیکھتے۔ کبھی پولیس کی وردی میں۔ کبھی آفیسر کبھی وکیل کے کوٹ میں۔کبھی ڈاکٹر کبھی سائنسداں۔ اور کبھی دین کا عالم بنا ہوا دیکھتے۔ تو ایک عجیب سی لذت اور حلوت محسوس کرتے۔ان کے بچے ہی ان کی کائنات تھے۔جب بچے تھوڑے بڑے ہوئے۔ تو وہ اپنے سپنوں اور اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے۔ اپنے بچوں کے لیے ایک عالیشان محل اور  ایک پیارےسے گھر کی تعمیر کے لئےسوچتے ہیں جس خوبصورت گھر میں وہ خیالوں کی دنیا میں اپنے شہزادے شہزادی کو دیکھتے۔

 اس گھر کی تعمیر اور خواب کی تعبیر پانے کے لیے۔ایک فریدالعصر یکتائے روزگار مستری کو لانے کے لئے سوچتے ہیں۔مگراس کی اجرت اور اس کی مزدوری  دینے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے۔ اس کی مزدوری دینے کے لیے ان کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں۔ مگرسپنوں کا محل بنانے کے لیے اپنے پھولوں کی مہک کے خوشی کے لیے۔اسی مستری کو لانےکا ارادہ رکھتے ہیں۔ اور فیصلہ کرتے ہیں۔کہ دن رات کام کریں گے۔ پھر بھی پیسے کم ہوئے تو۔ کسی سے قرض لیں گے۔مگر گھر اچھا اور اچھے مستری سے ہی تعمیر کروانگےعزم کرتے ہیں کہ مستری کے ساتھ مزدوروں کی جگہ خود کام کر لیں گے۔اورمستری بلا لاتے ہیں۔ تعمیرکا  آغاز ہوتا ہےوہ ماں باپ اپنے شہزادے شہزادی کے لیے سارا سارا دن مستری کے پیچھے مزدوری کرتے ہیں۔ کبھی سیمنٹ دیتے ہیں ۔ کبھی اینٹیں اٹھاتےکبھی مٹی  کبھی لوہےکا بھاری بھرکم  سامان اٹھاتے ہیں۔ کبھی دن رات ایک کرتے ہیں۔کبھی گرمی کی شدت سے پسینے میں شرابور کبھی سردی کی ٹھنڈک میں ٹھٹھرتے ہوئے کام کرنے میں  لگے ہیں کبھی اینٹیں اٹھا اٹھا کر ان کے ہاتھ زخمی ہو جاتے ہیں ۔ 

سیمنٹ سے ان کے ہاتھوں اور پیروں میں  چھالے نکل آتے ہیں۔مٹی اور لوہے کا بوجھ اٹھا اٹھا کر ان کا جسم درد کرنے لگتا ہے۔مگر اپنے ہاتھوں پر بنے زخم دیکھ کردرد  میں روتے نہیں بلکہ ہاتھ سامنے رکھ کر زخموں کے درمیاں تصور کی نظر سے بچوں کو بڑے گھر میں دیکھ کر مسکراتے ہیں۔اپنے ہاتھوں کے چھالے دیکھ کر کراہتے نہیں ۔ بلکہ مسکرا کر اپنے بچوں کو خوش دیدہ زیب  محل میں ٹہلتے دیکھتے ہیں۔ مٹی اور سیمنٹ کا بوجھ اٹھا اٹھا کر تھکتے نہیں۔ بلکہ اپنے بچوں کے  آنے والے کل کو دیکھ کراور زیادہ محنت کرتے ہیں۔وقت گزرتا جاتا ہے محل تعمیر ہوتا رہتا ہے ابھی گھر تعمیر ہو رہا ہےان کو  پتا ہی نہیں چلتاہے کب ان کے بال سفید ہونے لگتے ہیں۔

 ان کی نظر کمزور ہو جاتی ہے۔انہیں اونچا سنائی دینے لگتا۔ان کے چہروں پر جھریاں آنے لگتی ہیں۔ ان کے ہاتھ کانپنے لگتے ہیں۔ ان کا جسم لرزنے لگتا ہے۔ان کے دانت نہیں رہتے۔ بڑھاپا آجاتا ہے ان کی کمر جھک جاتی ہے۔جوانی چلی جاتی ہے۔مگر وہ خواب کی تعبیر اور محل کی تعمیر میں لگے رہتے ہیں۔اب ان کے قدموں نے بنا سہارے کے چلنا چھوڑ دیا ہے۔ اب وہ عصا کا سہارا لے کر چلنے لگے ہیں۔بس اپنے بچوں کے  خوابوں کی تکمیل کو   دیکھنا چاہتے تھے۔ اتنے سالوں سے جہد مسلسل  کرتے کرتے۔بس وہ دن آنے والا تھا۔جب وہ دیکھتے تو ان کا بیٹاان کی بیٹی اس بڑے گھر میں داخل ہو رہے ہوتے ہیں  اور وہ  بڑے فخر سے انہیں گلے لگاتےساری تھکن ساری تھکاوٹ بھول جاتے سارے درد ساری تکلیفیں بھول جاتے
چھالے بھول جاتے اور اپنے پیروں کے  آبلے بھول جاتے جھریاں بھول جاتے کہ وہ دن آیا خوشی ۔خوشی جھریوں سےبھرے چہرےکپکپاتے ہوئے جسم کانپتے ہوئے ہاتھوں میں چھڑی کے سہارے آنکھوں میں لگی بڑے بڑے شیشوں والے چشم سے دیکھ دیکھ کرچلتے ہوئےجھکی جھکی کمر  لیےوہ بے تاب  اپنے بچوں کا محل دیکھنے نکلتے ہیں۔دیکھا سامنے بہت بڑی فلک بوس عمارت اوربہت بڑا محل

 مگر یہ کیا؟
یہ کیا؟
ایک لمحہ ایک پل 
 وہ گھر نظر آیا
 اور ایک دم
 وہ گھر ان کے سپنوں کا ان کی محنت کاگھران کے نظروں کے  سامنے  زمیں بوس ہو گیا ۔
وہ چیخ کر گرتے نہیں ہیں۔
 ان کے ہاتھوں سے چھڑیاں گرتی نہیں ہیں۔
 وہ آنسو بہاتے نہیں ہیں۔
 مگر ان کے اندر جو بہت سے ارمان تھے  وہ  آج ٹوٹ جاتے ہیں۔

 آج وہ پہلی بار اپنی جھریاں دیکھتے ہیں۔
بس آج پہلی بار  دیکھا کہ ہمارے تو چہرے۔جھریوں سے بھر گئےہیں۔
 ہاتھ کانپ رہے ہیں۔ پہلی بار خیال آیا دانت نہیں ہیں۔
سنائی بھی نہیں دیتا۔
ہماری جوانیاں رخصت ہو گئیں ہیں۔
بڑھاپا آ چکا ہے۔

یہ سب احساس خواب کے اندر گم ہو  چکا تھا آج جو خواب ٹوٹا تھا۔ تو سب یاد آیا تھا۔
بہت لمبا خواب جس کی تعبیر کے لیے اپنی جوانیاں گزارنی پڑیں
 ٹوٹ گیا وہ خواب بکھر گیا وہ ارمان 


 کیوں گری عمارت؟
ماں باپ نے تو سب کیا 
تو
کس کا گناہ تھا؟ کس کی بد دیانتی تھی؟ کس کی کوتاہی تھی؟ کس کی لا پرواہی تھی؟

تو جواب ملا مستری کام چور تھا۔
 اس نے بنیاد کو سہی سے نہیں بھرا تھا ۔

وہ اپنے کسی کام کو کرنے کے لیے  
اینٹیں جلد لگا دیتا تھا۔
 سیمنٹ کم ڈال دیتا تھا۔
لاپرواہ تھا۔
بکھرے ہوئے خواب لیے وہ اپنے آشیاں میں پلٹتے ہیں۔
 دل میں بہت کچھ بربادیوں کا افسوس ہے
 دل سے آہیں نکل رہی ہیں۔
زمیں پر بیٹھے ہیں دکھائی کم دے رہا ہے۔
زمیں پر کانپتے ہاتھوں سے اپنے بکھرے خواب تلاش کر رہے ہیں دل رو رو کر در و دیوار سے سوال کر رہے ہیں۔ ہائے

 ہم نے جو خواب خیالوں میں سجائے۔

ہائے آج وہ  کس نے مٹائے؟ 
ہم نے جو گھر خوابوں  میں بنائے۔ 
جن کے لیے زخم کھائے ۔
جن کے لیے سالوں گزرے ۔
 جن کے لیے بال سفید آئے۔
 وہ خوابوں کے گھر کس نے گرائے؟ 
کون لٹاتا ہے جوانی
وہ عمر سہانی
 جو لوٹ کر نہیں آنی۔
وہ ہم نے لٹائی ہم نے لٹائی۔
 کس کام آئی؟ کوئی ، کوئی تو بتائے؟
 ہم نے جو گھر خوابوں میں بنائے۔ 

کس نے مٹائے۔
کوئی بتائے ؟
 کوئی تو بتائے۔

 ان خوابوں کو کس نے برباد کیا؟بچوں کے مستقبل کا وہ محل تعمیر کرنے والا استاد تھا ۔ جس نے اپنا فرض پورا نہ کیا۔ اور وہ عمارت گر گئی ۔جس عمارت کی تعمیر کے لیے ماں باپ نے جوانیاں لٹا دیں تھیں۔ کل وہ بچہ ماں باپ اور معاشرے سے برا سلوک کرتا ۔تو یاد رہے اساتذہ کا حق تھا اس کی تربیت بھی کرتے اور تعلیم بھی دیتے۔کیونکہ 

شیخ مکتب ہے اک عمارت گر
 جس کی صنعت ہے روحِ انسانی 
(علامہ اقبال)

استاد کے پاس بھیج کر ماں باپ تو محنت کرتے رہتے خواب بنتے رہے۔ مگر جب اس کلاس کا رزلٹ آیا۔ جس سے پتا چلتا کہ ان کا بچہ کیا پڑھا ہے کیسا پڑھا ہے۔تو وہ فیل ہو گیا ہے۔ (مطلب بورڈ امتحان میں)تب وقت گزر چکا تھا۔ جو کبھی واپس نہیں آتا۔ چند سکے جو کمائے ۔ ان چند سکوں کے پیچھے کتنوں کی زندگیاں لٹیں؟سوچنا پڑے گا۔

اپنے کام آرام اور سستی کی وجہ سے اساتذہ کسیے خوابوں سے کھیلتے۔ اور کیسی  زندگیاں برباد کرتے ہیں یہ ایک تصویر ہے۔
اب جو ٹیچر خوابوں سے کھیل سکے وہ ضرور کھیلے۔ بس یاد رکھے کسی باپ کسی ماں پر کیا بیتے گی۔میں تو ایسا سوچ کر بھی کانپ جاتا ہوں ۔آنکھیں  اشک بار  ہو جاتی ہے۔ہم سب کو  سوچنا ہو گا۔ ہر بچہ ایسے ہی خوابوں کا شہزادہ ہے۔کوئی معاشرے میں امیر کوئی غریب ہے لیکن سب ہی خواب دیکھتے ہیں  سب ہی محنت کرتے ہیں۔ سب کی  امیدیں وابستہ ہوتی  ہیں۔کوئی مزدوری کوئی دوکان پر نوکری  کوئی ملازمت کوئی کاروبار کوئی کھیتی باڑی کرتے ہیں سب محنت سے کماتے ہیں

 دوسری بات یہ کہ ماں باپ کو بھی چاہیے بس نام سن کرہی بچے کو نہ اسکول  داخل کروائیں۔اس اسکول   کا رزلٹ بھی دیکھیں۔ اس کا ماضی بھی دیکھیں۔اور بچے کے پیچھے اسکول جا جا کر دیکھیں کہ عمارت بنانے میں( استاد) مستری غفلت تو نہیں کر رہا ہےاور بچے بھی دیکھیں تم لوگوں کو اسکول بھیجنے کے لیے ماں باپ کتنی تکلیفیں اٹھاتے ہیں  ایسے ہی صاف ستھرےکپڑے پہن کر آ جاتے ہو۔ان صاف کپڑوں کے پیچھے کسی نے ضرور مزدوری کی ہو گی۔تمہارے ناز نخروں کے پیچھے کسی نے کسی کے نخرے اٹھائے ہوں گے۔تمہارے سکون کے پیچھے کسی نے بے سکونی برداشت کی ہوگی۔تمہیں کچھ بنانے کی خاطر کوئی سب کچھ قربان کر رہا ہوگا۔تمہارے کل کے لیے کسی نے اپنا آج لٹایا ہو گا۔تمہاری جوانی کے سکھ کے لیے کسی نے اپنی جوانی کا سکھ تمہارے نام کیا ہو گا۔اس لیے سب مل کر ان خوابوں کوبکھرنے سے بچاؤ

مزکورہ بالا حکایت سے ہم کو یہ  سبق ملتا ہے کہ گھر کے گرنے کی  تہمت مزدوروں پر لگائی گئی کیونکہ ہمیشہ امیروں کے  ظلم کی سزا  مزدوروں اور غریبوں کو ملتی ہےجیسا کہ اج کی تاریخ میں ہمارا وطن عزیز جس حالات سے  گزرا رہا ہے ۔یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کن کن حالات کو شمار کیا جاے۔جہاں ایک طرف کورناوائرس جیسے موذی مرض نے ہم پر ہمارے عرصہ حیات کو تنگ کر رکھا ہے تو وہی دوسری طرف مزدوروں کے حالات نا گفتہ بہ ہیں ۔یہاں تو ہر صبح دل کی زخمی سطح پر ایک نئے داغ کا اضافہ ہوتا ہے اور ہر شام ایک نیا غم لے کر آتی ہے ۔ہر صبح افق مشرق پر ابھرتا ہوا سورج اپنی سنہری اور رو پہلی کرنوں کے جال و پھیلا رہا تھا ۔ ہر تڑپتی ہوئی لاش کی آخری ہچکیوں پر دوسرے مہاجر مزدور سہم جایا کرتے تھے ۔اور دن کی انتہا مہاجر مزدوروں کی کی موت کا تماشہ دیکھ کر ہو رہی ہے اور آئے دن نظروں کے سامنے مہاجر مزدوروں کی لاشوں کا انبار ہے ان لاشوں میں وطن عزیز میں زندگی بسر کرنے والے مزدوروں کے جگر کے ٹکڑے بھی ہیں اور آنکھوں کے تارے بھی۔

ہاے ان مہاجر مزدوروں کے بےگور و کفن جنازوں پر کون ماتم کرے کون آنسو بہاے اور کون ان مہاجر مزدوروں کی جلتی ہوئی آنکھوں پر تسکین کا مرہم کون رکھے ۔ہاے بے چارے مزدوروں کی بے بسی اور غریب الوطنی۔جہاں دیکھو وہیں ایک حشر برپا ہے اور روتے روتے مہاجر مزدوروں کی آنکھوں کے آنسوں کا تمام ذخیرہ ختم ہو چکا ہے 15مارچ سے اب تک مہاجر مزدوروں کے تن نیم جان  میں اب تڑپنے کی سکت باقی نہیں رہ گئی ۔تاریخ میں شاید یہ پہلی بار ہوگا ۔لوگ اپنے ہی وطن میں اجنبی بن گئے ہیں ۔اور اپنے مقدس سر زمین پر دانے پانی کو ترس گئے ہیں اپنا ہی گاوں ان مہاجر مزدوروں کے لئے بہت دور ہو گیا کہ پہنچتے پہنچتے اپنی جان جاں آفریں کے سپرد کر دی۔لیکن ان تمام مصائب و الام کے باوجود جو حکومت غریبی کو اس ملک سے مٹانے کے نام پر آئی تھی وہ مزدوروں کے نام پر چندہ جمع کرکے امیروں کا قرض معاف کر رہی ہے اور ان کی خوشامد میں لگی ہوئی ہے۔

اس سے برا وقت اور کیا ہو سکتا ہے ہمارے لیے اور ہماری ملک کے آئین کے لیے ۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ اساتذہ  کرام جن کے ہاتھوں میں قوم کے بچوں کے  مستقبل کے خوابوں کی تعبیر تہی اس کو کچھ سر پسند لوگوں نے نفرتوں کی ہوا دے دی اور اج ہمار وطن عزیر نفرتوں کے سائے تلے انسانیت کے حقوق کا خون کرنے کے لے زندگی کے شب و روز کو بسر کر رہا ہے ۔لہذا وطن کے باشندوں سے میری اپیل ہے کہ آؤ مل کر نفرتوں کی دیوار کی آینٹ کو گر کر انسانیت کا محل پہر سے تعمیر کریں اور اپنی نسلوں کو انسانیت کے حقوق کا درس دیں تاکہ وطن عزیز میں پھر سے گنگا جمنی تہذیب کی مثال قائم ہو سکے ۔آؤ کریں مل کر حاصل علم و ادب کی منزل الله پاک سے دعا ہے کہ مولی اپنے حبیب صلی الله علیہ وسلم کے صدقے ہمارے ملک میں محبت کی فضا کو ہموار فرما امین یا رب

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad