تازہ ترین

پیر، 18 مئی، 2020

تبلیغی جماعت ایک تاریخ ساز تحریک

بقلم: عطاء الرحمن ندوی (دار العلوم ندوہ العلماء لکھنؤ)
تبلیغی جماعت ایک ایسی سرگرم،متحرک اور محرک  جامع تحریک ہے جس نے اصلاح و ارشاد اور دعوت وتبلیغ کے میدان میں تقریبا تین چوتھائی صدی سے کامیابی و کامرانی کیساتھ اپنے اصول و ضوابط پر عمل کرتے ہوئے اپنے عروج و ارتقاء کی طرف رواں دواں ہے، یہ وہ واحد تحریک ہے  جس سے وابستہ لوگوں کی تعداد  اربوں سے تجاوز کر چکی ہے، دراصل یہ تحریک  چار دانگ عالم میں احیائے سنت و شریعت کی عظیم ترین اور موثر ترین تحریک ہے۔  موجودہ وقت میں جس کے امیر اور روح رواں حضرت مولانا سعد حفظہ اللہ ہیں جن کے اشاروں اور نظام الدین کے مطابق کروڑوں لوگ ہر وقت حرکت و سفر، دین کی دعوت،اوراپنے  دین کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش میں مصروف ہے، اور ان کی نگرانی میں اس وقت ساری دنیا میں دعوت و تبلیغ کے کام سے اچھے نتائج مرتب ہو رہے  ہیں، تبلیغی جماعت  اس وقت  جس طرح ہر جگہ اپنا کام انجام دے رہی ہے وہ اس کی اچھی مثال ہے

جس کو بیان کرنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ ہند و بیرون ہند  ممالک  میں ہر جگہ اس کام کو کرتے ہوئے  لوگ اور اس کے لیے نکلیں جماعتیں دیکھی جا سکتی  ہیں۔حضرت مولانا محمد الیاس صاحب نور اللہ مرقدہ نے  قوم میوات میں اس دعوتی جد وجہد  کا آغاز کیا تھا اور اس کے حیرت انگیز نتائج کا ظہور  سب سے پہلے انہیں لوگوں میں ظاہر ہوا، یہ تحریک بہت معمولی دائرے میں شروع ہوئی تھی، اس وقت اس کی کامیابی اور اہمیت کا اندازہ کرنا مشکل ترین  تھا  لیکن آج اس کی کامیابی طشت از بام ہے،مولانا الیاس رحمہ اللہ اپنی مضطرب روح، اپنے بے چین قلب، اپنے نحیف جسم، اپنے حال اور اپنی زبان سے اس تبلیغی کام کے داعی تھے، خاندان الیاسی نے یہ کام  کیا ہے اور اسکے اصل وارث اور امین مولانا سعد ہی ہیں وہ اس نظام دعوت و اصلاح و تبلیغ کے ساتھ انہماک و شغف اور اسکے بانی سے نسبت فرزندی أبا عن جد کے ذریعے نسبت الیاسی  اور ہر معاملے میں احیاء سنت کے جذبہ و کوشش سے نسبت محمدی سے انتساب رکھتے ہیں۔

اس کام کے  اصل مقاصد
مسلمانوں کو بگڑی ہوئی حالت اور دینی و اخلاقی پستی سے نکال کر اچھے کردار کی طرف لانے کی کوشش اور انکو جماعتوں میں نکال کر مسجد کے ماحول میں دین سکھانا اور دین کے مطابق اعمال کی دعوت دینے کے ذریعے سے صحیح ایمانی و دینی زندگی اختیار کرنے کی صلاحیت پیدا کرنا نیز  مسلمانوں کی کامل اصلاح اور پورے نظام زندگی میں خالص دینی روح کو پیدا کرنا، یہ اس کام کے بنیادی مقاصد ومنھج ہیں اور یہ وہ عظیم مقاصد ہیں ہیں جو مسلمان کو نہایت معیاری مسلمان بنانے کے لیے دستور کی حیثیت رکھتی ہیں۔


تبلیغی جماعت کسی نئے نظریہ یا کسی نئے مقصد کی داعی نہیں، بلکہ صرف اپنی اور امت کی اصلاح کے لیے محنت اور قربانی کی دعوت دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دوسری تنظیموں اور انجمنوں کی طرح اس تحریک کا کوئی دستور یا منشور نہیں،  نہ ہی کوئی ممبر یا عہدیدار ہے۔ یہاں تک کہ اس کا کوئی جداگانہ نام تک نہ رکھا گیا۔ اس اصلاحی جماعت کے بانی مولانا الیاس رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ یہ نام ’’تبلیغی جماعت‘‘ ہم نے نہیں رکھا۔ ہم تو بس کام کرنا چاہتے تھے، اس کا کوئی خاص نام رکھنے کی ضرورت بھی نہ سمجھی تھی۔ لوگ کام کرنے والوں کو تبلیغی جماعت کہنے لگے، پھر یہ اتنا مشہور ہوا کہ ہم خود بھی کہنے لگے۔‘‘

آج تبلیغی جماعت اپنی نمایاں خصوصیات اور منفرد اوصاف کی وجہ سے پوری دنیا میں امتیازی حیثیت سے جانی اور پہچانی جاتی ہے۔ دنیا کے ۲۱۰ سے زائد ممالک میں یہ کام انجام پارہا ہے۔ ۳٠ ملین سے زیادہ افراد دنیا بھر میں اس سے وابستہ ہیں، اس جماعت کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ فنڈنگ اور چندہ کا کوئی نظام نہیں۔ نشر و اشاعت کا کوئی محکمہ نہیں۔ انہیں اخبارات اور ٹیلی ویژن کی زینت بننے کا کوئی شوق نہیں۔ ان کے خلاف دنیا میں کسی بھی پولیس اسٹیشن میں کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہے۔ کسی طرح کے تشدد اور منفی سرگرمیوں میں یہ جماعت حصہ نہیں لیتی،پوری دنیا کے کسی بھی ملک نے آج تک ان پر تشددآمیز سرگرمیوں کا الزام نہیں لگایا۔ ملکی قوانین کو سر آنکھوں سے لگا کر یہ جماعت اپنے کاموں کو انجام دیتی ہے، ان کے خلاف جو بولتے ہیں، یہ جماعت انہیں بھی کوئی جواب نہیں دیتی ہے، محبت و الفت کے ساتھ یہ دعوت و تبلیغ کرتے ہیں۔ سادگی اور انسانیت نوازی انکی فطرت میں شامل ہے،یہ مکمل طور پر غیر سیاسی اور قانون کی پابند جماعت ہے۔ اس جماعت کی تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی ہے کہ اس نے حکومت سے ٹکرانے کی کبھی بھی کوئی کوشش کی ہو اور نہ ہی کبھی اس جماعت پر دہشت گردی کی معاونت کرنے کا الزام لگایا گیا۔ یہ ایک مکمل پر امن تحریک ہے اسکے اراکین امن کے داعی اور شیدائی ہیں یہ جماعت  ہمیشہ تشدد کی مخالفت کرتی آئی ہے،

اس کی اصل کوشش  يا أيها الذين آمنوا آمنوا بالله کی ہوتی ہے  جو پہلے سے اسلام میں داخل ہیں،  وہ کس طرح  مکمل طور پر دین اسلام کے روشن اصولوں پر عمل کرنے والے بن جائیں، تبلیغی جماعت کا کام واحد وہ  کام ہے جسکا مقصد اپنا مال لگا کر لوگوں کی مدد کرنا اور اور ایک مسلمان کو اچھا مسلمان بنانا ہے، اور اس کام میں حالات حاضرہ پر کبھی گفتگو نہی ہوتی، مثلاً ملک کے سیاسی حالات کیا ہیں، کس سیاسی پارٹی کو اقتدار میں لانا ہے وغیرہ،  اس جماعت کا ملک و بیرون ممالک کسی بھی سیاسی و ملی تنظیم و آرگنائزیشن سے تعلق  نہی ہے  اس موضوع پر یہ حضرات کبھی بات نہی کرتے، خوب یاد رہے کہ غیروں میں کام کرنا انکے مشن میں داخل نہی ہے۔ہندوستان اور بیرون ممالک میں اس جماعت کے زیر انتظام  لاکھوں افراد کا اجتماع ہوتا ہے، جس کا نظم و ضبط بے حد مثالی اور معیاری اور لائق تحسین ہوتا ہےعلامہ سید سلیمان ندویؒ دعوت و تبلیغ کی اہمیت کے تعلق سے (جس کو مولانا محمد الیاس صاحبؒ نے اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا تھا) تحریر فرماتے ہیں:’’حکیمانہ تبلیغ و دعوت امر بالمعروف نہی عن المنکر اسلام کے جسم کی ریڑھ کی ہڈی ہے، اس پرا سلام کی بنیاد اسلام کی قوت، اسلام کی وسعت اور اسلام کی کامیابی منحصر ہے، اور آج سب زمانوں سے بڑھ کر ضرورت ہے اور غیر مسلمانوں کو مسلمان بنانے سے زیادہ اہم کام مسلمانوں کو مسلمان، نام کے مسلمانوں کو کام کا مسلمان اور قومی مسلمانوں کو دینی مسلمان بنانا ہے‘‘۔ (دینی دعوت ص:۲۶)


یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ دن و  رات اللہ تعالیٰ کی نافرمانی و معصیت اور فسق و فجور میں زندگی گزارنے والے بیشمار  افراد تبلیغی جماعت کی بدولت تہجد گزار، متقی، پرہیز گار اور دین کے داعی بنتے ہوئے نظر آرہے ہیں لوگوں کے عقائد درست ہو رہے ہیں، لوگ تیزی کے ساتھ اعمال کی جانب بڑھ رہے ہیں اور اپنے آپ کو حضورﷺ کی زندگی کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کر رہے ہیں جو ملک و ملت دونوں کیلئے بے حد مفید ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad