تازہ ترین

پیر، 11 مئی، 2020

تڑپتی آنت میں جب بھوک کا شعلہ بھڑکتا ہے

پرویز عالم متعلم دارالعلوم ندوۃالعلماء لکھنؤ
اس جہان آب وگل میں قدرت تخلیق نے ،کلّ شیئٍ بِقدرٍ،کی نمایاں صنعت وکاریگری سےہر مخلوق کےاندرمختلف اقسام کے اوصاف سے متصف کرکےایک سامان عبرت بنایا ہے۔چنانچہ اگر ہم دیدۂ عبرت سے اسکی دید کریں اورعالم قلب منیب وعقل سلیم کی رہنوردی کریں تو واضح طورپرپتہ چلےگاکہ چرخ کہن کی تزئین وتجمیل،قابل دید،جاذب قلب اور پرکشش بنانے کےلئے سہیل وانجم اپنی مشکبار کرنوں ،چانداپنی دل کشا چاندنی اورسورج اپنی خیرہ کن روشنی سے طلسم تاریک وظلام کی نقاب کشائی کرکےصبح جاں نواز کی تجدید کےلئے مسخرہے۔

نباتات زمین سےغذاحاصل کرکےآکسیجن خارج کرتےہیں۔
عین اسی طرح خلاق اجل نے اس مشت خاک کی طبیعت میں بھی طرح طرح کی صفتیں ودیعت کی ہے۔ لیکن سب سے بڑی صفت یہ ہے کہ اسے بھوک لگتی ہے ۔اس کےانسدادکےلئے " قوموں کی حیات انکے تخیل پہ ہے موقوف" کےتحت اپنےذوق ومزاج کے لحاظ سے قسم قسم کی صنعتوں  اورپیشوں کواختیارکرتاہےاورجدوجہدکرتاہے۔اپنےخویش واقارب کو چھوڑ کر تلاش رزق میں ملک و بیرون کاسفر کرتاہے ۔نیندیں حرام کرتا ہے۔جیساکہ عربی شاعر ابوتمام نے کہاہے!!!!!!!
ولكنني لم أحووفرامجمعا
ففـزت به إ لا بشمل مبـدد
 ولم تعطني الأيام نوما مسكنا
أ لذّ بـه إ لا بــنـوم مـشــر د

اسی تناظر میں اگرباشندگان ہندپرنظرڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ ایک طبقہ معتدل ہےجومزدوری ،تجارت اور دیگر پیشوں کے ذریعے اپنی زندگی گزاررہےہوتے ہیں تودوسرا طبقہ  بہت ہی قلاش ومفلس ہوتاہےیہ دونوں طبقے اپنے علاقےمیں  یا دیگر صوبوں کیطرف کسب معاش کے لئے کوچ کرتےہیں ۔بعض تو بہت ہی مالدارہوتےہیں اورسامان عیش کی کوئ کمی نہیں ہوتی ،ہرچیزکی کثرت،اوردیگرضروریات زندگی کی ریل پیل اور فراوانی ہوتی ہے۔  بہرحال تمام اپنی اپنی حالت پر زندگی گزارہےتھے کہ اللہ نے ایسی وبا بھیجی کہ حیات انسانی یکایک رک سی گئی ہے۔ جوجہاں تھے وہیں رہ گئے،وسائل کسب معاش موقوف ہوگئےہیں،کمپنیاں،یونیورسیٹیاں اور مدارس و کالجز بندہیں،جس کی وجہ سے  سبھوں کی زندگی اجیرن بن گئ ہے۔خاص طور سےمزدور طبقہ زیادہ پریشان ہیں۔قیام و طعام کا کوئی نظم نہیں ۔راشن اور کھانےپینےکےسامان بھی ختم ہو گئے،بعض بعض جگہوں میں پوری پوری فیملی نے زندگی سے عاجز آکر خود کشی کر لی لیکن حکومت کے کان میں جوں تک نہیں رینگ رہا ہے اس کا کوئ کامیاب حل بھی تلاش نہیں کرہی ہے۔ان سب چیزوں سے عاجزآکرپھنسےہوئے افراد دوردور کاسفر پیدل ہی کرنےلگےکیونکہ ان کی آنکھوں کےسامنےدوہی راستے ہیں پہلا یہ کہ بھوکے پیاسے اپنی جائےاقامت پر زندگی کی آخری سانس لیں دوسرا یہ کہ اس ہلاکت کےدہانےکوترک کرکےاپنی جانوں کوخطرےاور موت کے کنویں میں  ڈال کرپیدل ہی نکل پڑیں لیکن نکل کر بھی کہاں جائیں۔جدھرنظرپڑے وہاں سناٹا۔جس طرف آس کی نگاہ ڈالے اس طرف ناامیدی۔جس گوشےمیں پناہ لےوہاں کی ہوا مخالف ۔

ان تمام مشقتوں کےباوجود اگر کسی طرح چندقدم اٹھاتےہیں تو ہندوستان کی سفاک و خونریز،ظالم وجابر پولیس کی سخت لاٹھیوں کی جانکاہ ضربیں پڑتی ہیں۔پچھلےجمعےکی بات ہےکہ کچھ مزدور اپنے گھروں کو جارہے تھے راستے میں تھکن سے  چور ہوکر ٹرین کی پٹری کو اپنی خواب گاہ بنایا تاکہ اپنی تھکن دور کریں لیکن صبح ہوتےہوتےایک  مال گاڑی نےانکوزندگی سےمحروم کردیا۔لیکن افسوس کی بات ہے کہ ابتک حکومت  کوئی حل نہیں تلاش کررہی ہے۔پبلک کی پریشانیوں کو سمجھ نہیں رہی ہے۔خانہ بدوشوں کی تکلیفوں اوربےسروسامانی کوبھانپ نہیں رہی ہے،غریبوں کےدردوکڑھن پرنظرنہیں ڈال رہی ہے۔ اور ڈالےبھی کیسےکیوں کہ!!!!

    تم تو دولت کےپجاری ہو تمہیں کیا معلوم
    فاقے پڑتے ہیں تو اولاد بھی بک جاتی ہیں

  میں حکومت ہند سےکہناچاھتاہوں کہ ملک کی بگڑتی صورتحال پر نظر رکھیں ۔پولس کوسفاکی بےرحمی،بےدردی سےمارنےاور مآب لیچنگ اور معصوموں کوموت کے گھاٹ اتارنے پرخاموش تماشائی بنےرہنے کاموقع نہ دیں اور اسکاکوئ کامیاب حل لائیں ورنہ یادرکھیں کہ !!!

جب ظلم گزرتا ہے حد سے قدرت کوجلال آجاتا ہے
فرعون کاسرجب اٹھتا ہےموسی کوئ پیدا ہوتا ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad