تازہ ترین

بدھ، 13 مئی، 2020

تیری رحمتوں پہ ہے منحصر...

از قلم: محمد طاسین ندوی 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
ہم سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی کی  بھی کتاب پر نظر ڈالیں تو ہمیں یہ پہلو نمایاں نظر آتا ہیکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ  اپنی معصومیت کے بعد بھی عبادت الہی ذکر و اذکار کے اتنے رسیاودلدادہ تھے کہ بغیر عبادت کے طبیعت کو کوفت ہوتی اور ان کی عبادات کا یہ عالم تھا کہ آنجناب کی نماز و  عبادت سراپاخشوع و خضوع کا پیکر ہوتی اور ایسا کیوں نہ ہو آپ کی ذات عالی صفات تو سراپا اسوۂ حسنہ ہے ارشاد باری تعالی ہے  لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُولِ اللّٰہِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ"الاحزاب ۲۱" اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم  تمہارے لیے بہترین وه عمده نمو نہ و آئیڈیل ہے.آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم  ہی امت محمدیہ پر نہایت ہی شفیق و مہربان ہیں چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمروبن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق یہ آیت تلاوت فرمائی" رَبِّ اِنَّھُنَّ اَضْلَلْنَ کَثِیْراً مِنَ النَّاسِ فَمَنْ تَبِعَنِی فَاِنَّہ مِنِّی "  اے میرے پروردگار ان بتوں نے بہت سے لو گوں کو گمراہ کر دیا یعنی ان کی وجہ سے بہت سے آدمی گمراہ ہو گئے، پس جو لوگ میری پیروی کریں وہی میرے ہیں، پس ا ن کے لیے تو میں آپ سے عرض کر تا ہوں کہ ان کو تو ہی بخش دے اور عیسیٰ علیہ السلام کا یہ قول بھی تلاوت فرمایا" اِنْ تُعَذِّبْھُمْ فَاِنَّھُمْ عِبَادُکَ الخ" یعنی اے اللہ اگر آپ میری امت کے ان لوگوں کو عذاب دیں تو یہ آپ کے بندے ہیں " آپ کو عذاب و سزا کا پورا حق ہے"پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کے لیے اپنے دونوں ہاتھوں کو بلند کیا اور کہا اے میرے اللہ میری امت، میری امت ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دعا میں روئے، اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے فر مایا کہ محمد کے پاس جاؤ اگرچہ تمہارا رب سب خوب جانتا ہے، مگر پھر بھی تم جا کر ہماری طرف سے پو چھو کہ ان کے رونے کا سبب کیا ہے؟ 

پس جبرئیل علیہ السلام آپ کے پاس آ ئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا آپ نے جبرئیل علیہ السلام کو وہ بتلایا جو اللہ سے عرض کیا تھا یعنی اس وقت میرے رونے کا سبب امت کی فکر ہے جبرئیل علیہ السلام نے جاکر اللہ تعالیٰ سے عر ض کیا تو اللہ نے جبرئیل علیہ کو فرمایا کہ محمد کے پاس جاؤاور ان کو ہماری طرف سے کہو کہ تمہاری امت کے بارے میں ہم تمہیں راضی اور خوش کر دیں گے ، اور تمہیں رنجیدہ اور غمگین نہیں کریں گے .رواہ مسلمإن النبی صلی اللہ علیه وسلم تلا قول اللّٰه تعالیٰ فِيْ إبراهِـْیمَ: رَبِّ اِنَّھُنَّ اَضْلَلْنَ کَثِیْراً مِنَ النَّاسِ فَمَنْ تَبِعَنِی فَاِنَّه مِنِّی وَ قال عیسیٰ اِنْ تُعَذِّبْھُمْ فَاِنَّھُمْ عِبَادُكَ فَرَفَعَ یَدَیْهِ فَقَالَ اللّٰھُمّ أمتي أمتي وَ بَکیٰ فقال اللّٰہ تعالیٰ یا جبرئیل اذھب الیٰ محمد وَرَبُّك اَعْلَمُ فَسْئَلُه مَا یُبْکِیْك فاتاہ جبرئیل علیه السلام فساله فاخبرہ رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم بما قال وھواَ عْلَمُ فَقَالَ اللّٰہ تعالیٰ یا جبرئیل اِذْھَبْ الیٰ محمد فقل اِنَّا سَنُرْضِیْكَ فیِ اُمتك ولا نَسُوئُكَ. رواہ مسلم ۱/ ۱۱۳اور رسول اللہ نے اس بات کادرس جا بجا ابتداء سے انتہاء تک دیا ہے ہم مصائب وآلام کے وقت تنگئ و فراخی  ہر لحظہ و ہر آن رب کائنات ہی سے لو لگائیں ان سے ہی اپنی ساری  امیدیں وابستہ رکھیں انہیں سے امید بہار رکھیں  تو یقینا  مسلمانان عالم کو بالخصوص اس ڈگر پر عمل پیرا ہوکر یہ باور کروا دینا چاہیئے کہ ہم تو دین حنیف کے پیروکار اور سراپا احکام و اوامر محمدی کے فرمانبردار قوم ہیں اور یہ قوم جس میدان میں خم ٹھونک کر نکلتی ہے اسے ضرور سر کر لیتی ہے.

قارئین کرام:تو آئیے اب ہم خود اپنا جائزہ لیں  غوروخوض کریں کہ ہماری ودیعت کردہ زندگی کیا منہاج نبوت پر ہر لمحہ رواں دواں و گامزن ہیں آیا ہم اس جادۂ حق اور احکام محمدی و آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم ، تہذیب،تربیت  سے بہت دور ہیں اور اس تعلیمات و احکامات کو پشت ڈال کر اپنے اپنے  عالم آب گل میں بدمست حیراں و پریشاں  آبلہ پا ہورہے ہیں اور ہمیں یہ بھی خبر نہیں کہ ہماری کشتی کی ملاحی کس ملاح کے ہتھے چڑھی ہے نہ جانے وہ کہاں اور کب  اسے غرقاب کردے .

برادران اسلام:
 ہم یہ یاد رکھیں کہ اس  وقت جس حالات سے ہم دوچار ہیں پوری دنیا لاک ڈاؤن کی تکلیف دہ روح فرسا اور چول ہلا دینے والا دور سے گزر رہی ہے  دنیامیں رہنے بسنے والے لوگ پریشانِ خاطر ہیں بے چین و مضطرب ہیں بے کل ہیں سکون سے کوسوں دور ہیں نہ کوئی سبیل نکال پارہے ہیں  نہ کوئی پالیسی و اسکیم اس آفت ناگہانی کے سامنے ٹک پارہی اور نہیں کوئی لائحہ عمل تیار ہو پارہا، تو یاد رکھیں  برادرن عظام یہ وقت انابت الی اللہ کا ہے اللہ سے اپنے تعلقات کو استوار کرنے  اپنی عبادت اور دعاء و مناجات میں دلجمعی کا وقت ہے خشوع اور  خضوع کے ساتھ عبادت الہی کا وقت ہے اور دست بدعاء ہونے کا وقت ہے توبہ و استغفار اور ندامت و پشیمانی کے ساتھ باری تعالی کے حضور گریہ و زاری کا وقت ہے 
ہمیں اللہ جل جلالہ سے دعائیں کرنی چاہئیے  کہ اے دونوں جہان کا پالنہار خالق ارض و سماء مالک کل،الہ العالمین ہم  انسان اسوقت جن حالات سے دو چار ، مضطرب ہیں ، جسم تو ہے لیکن ایسا محسوس ہورہا کہ جان نکلی جارہی ہے ہر چہار دانگ عالم میں خوف وہراس کا ماحول بپا ہے یہ محض ہماری کوتاہی ،عیش کوشی کج روی   اوردین  سے دوری کے بھیانک انجام و نتائج ہیں تیری ذات اس سے بخوبی واقف ہے  فقط  آپ ہی کی ذات عالی صفات ہےجس کےہاتھ میں  سب کچھ ہے نظام عالم کا باگ ڈور ہے تیری ذات ہی حالات ارض و سماء کو اس کے معمول پر لاسکتی ہے یا اللہ حالات کو اپنے معمول پر لادیجئے ہزاروں نہیں بلکہ  لاکھوں لوگ اس وقت بے یار و مددگار ہیں ان کی دستگیری کجیئے حالت اتنے سنگین ہیں کہ انسان اپنی روز مرہ کی زندگی سے عاجز  نان شبینہ کی تلاش میں  ہے  اور وہ بھی میسر نہیں سینکڑوں مسافر راستے میں حیران وپریشان ہیں کئی کئی دنوں کے بھوکے پیادہ پا اپنے مستقر اور اپنے وطن کیطرف رواں دواں ہیں نہ کوئی ان خبرگیری کرنے والا اور نہ کوئی   بھوک و پیاس کے بارے میں پوچھنے والا اور ناہی کوئی سواری ہے، یہ محض ہماری  کوتاہی اور آپ سے بے اعتنائی اور انابت کی کمی کے ساتھ ساتھ ہمارے اعمال کہ نتائج ہیں جسے ہمیں بھگتا پڑرہا ہے.یا اللہ  ان سب کہ باجود بھی آپ کا ہی در تو ہمارے لئے ہے اس درماندہ کے اعمال تو نہایت ہی پلید ہیں اس قابل بھی نہیں کہ اپنے اعمال کے واسطے سے دعاء کیجائے  لیکن تیری رحمت تو سراپا رحمت ہے اس زحمت سے ہمیں نجات عطاء فرما اور ساری چیزوں کو اس کے اپنے معمول پر لاکھڑا فرما یا ربّا  جو بچے، بوڑھے ،جوان مرد وزن سڑکوں پر بے یارو مدد گار ہیں اسے قرار آئے اور چین نصیب ہو اور ہم اپنے گھروں میں قید ہیں اس سے بھی ہمیں نجات دے.  

تری رحمتوں پہ ہے منحصر میرے ہر عمل کی قبولیت.
نہ مجھے سلیقہِ التجا، نہ مجھے شعورِ نماز ہے
  اے رب دوعالم تو ہماری دعاؤں کو قبول فرما.آمین

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad