تازہ ترین

بدھ، 20 مئی، 2020

اردو کےساتھ امتیازانہ سلوک ہمیں برداشت نہیں

سماجی کارکن و خدمت گذار انظارالحق قمری
جب بہار کی دوسری سرکاری زبان اردو قرار داد ہے تو پھر سی ایم لاء کالج جو کہ متہلانچل کے دربھنگہ میں واقع ہے اسکے صدر دروازے پر کالج کا نام اردو رسم الخط لکھنے پر تنازع کیوں نفرت پرست جن سنگھی اکھل بھارتیہ وغیرہ کے لوگوں نے  اردو رسم الخط لکھنے کو لیکر تنازع کھڑا کر اردو نیم پلیٹ  کو ہٹایا اس پر بہار سرکار اور ضلع انتظامیہ خاموش تماشائی کیوں بنی ہے کاروائی کیوں نہیں کررہی کیا  معاملہ کو مذہبی رنگ میں رنگ رنگنے کا ضلع انتظامیہ انتظار کررہی ہے اگر نہیں تو پھر تنازع کھڑا کرنے والوں کی پہچان کر ان پر جلد از جلد کاروائی کرے ساتھ ہی از سرے نو  ہو بہو  اسی اردو رسم الخط نیم پلیٹ کو صدر دروازے پر چسپاں کرے

کیونکہ اردو کے ساتھ امتیازانہ سلوک ہمیں برداشت نہیں ہمیں اردو کی بقاء اور تحفظ کیلئے جتنی بڑی بھی تحریک چلانے کی ضرورت پڑے گی چلائیں گے، اور یہ بات دنیا جانتی ہے کہ اردو زبان کسی خاص طبقے اور مذہب سے تعلق رکھنے والے کی نہیں بلکہ یہ ایک ملکی اور صوبائی زبان ہے جس کے بولنے اور لکھنے والے کثکر تعداد میں موجود ہیں لیکن تعجب خیز بات تو یہ ہیکہ ہمارے اپنے وہ لوگ جو فروغ اردو کے نام پر بڑا بڑا مشاعرہ اور سیمنار کرواتے ہیں اور اسی اردو زبان کے نام پر اپنا جیب بھرتے ہیں وہ اس معاملے پر خاموش ہیں زبان تک کھولنے کو تیار نہیں آخر کیوں جبکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ پیش پیش ہوکر اس معاملے پر زبان کھول کر کچھ نہ کچھ بولتے اور ضلع انتظامیہ سے شکایت کر ایسے لوگوں پر کاروائی کی مانگ کرتےلیکن افسوس ہوتا اور کہنا پڑتا ہے یہ لوگ جو خاموش ہیں وہ اردو زبان کے حقیقی دشمن ہیں

وگرنہ اس تنازع پر زبان کھولتے اور کچھ بولتےکیونکہ اسی زبان کے بدولت ان کے گھر کا چولہا جلتا اور پیٹ بھرتا‌ ہے پھر یہ نمک حرامی کیوں خیر اخیر میں تمام اردو داں احباب سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس معاملے پر اپنی اپنی چپی توڑ کر ملک سمیت بہار اور بہار کے متہلانچل میں اردو کی بقاء کیلئے اپنی آواز بلند کریں ساتھ ہی کالج کے صدر دروازے پر ہو بہو اسی اردو رسم الخط کو چسپاں کرنے کی سرکار اور دربھنگہ ضلع انتظامیہ سے مانگ کریں۔۔!!

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad