تازہ ترین

اتوار، 21 جون، 2020

"جان بولٹن و میری ٹرمپ کی کتابوں کے عکس میں ڈونلڈ ٹرمپ "

عباس دھالیوال 
مالیر کوٹلہ ،پنجاب 
9855259650 رابطہ 

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ رواں سال نومبر میں امریکہ کے صدارتی انتخاب ہونے والے ہیں. صدارتی انتخابات کے لئے اس بار ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے ٹرمپ کے مقابلے میں جوء بائیڈن کو میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیا ہے.  گزشتہ تین مہینوں سے امریکہ جس طرح سے کورونا سے طرح متاثر ہے. اس سے قبل اس کی نظیر نہیں ملتی. ماہرین کے مطابق کورونا سے ابھرنے میں امریکہ کو کافی وقت لگ سکتا ہے. ان دنوں جہاں کورونا کے چلتے امریکہ کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے وہیں اسکی معیشت بری طرح سے متاثر ہو رہی ہے اور ملک میں بے روزگاری میں بھی ریکارڈ اضافہ درج کیا جا رہا ہے.

اب جیسے جیسے امریکہ میں صدارتی انتخاب نزدیک آرہے ہیں ویسے ویسے وہاں اس عمل کے لیے رپبلکن اور ڈیموکریٹک پارٹی کی کارروائیوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے. صدارتی انتخاب کے آنے سے قبل از وقت ہی ٹرمپ کے تعلق سے مختلف انکشافات کرنے والی دو کتابیں جلد ہی منظر عام پر آنے جا رہی ہیں. جو ان کے خلاف الیکشن کمپین ان کے مخالفین کے لیے ایک بڑا ہتھیار بن سکتا ہے. 

 ان میں سے ایک کتاب تو ٹرمپ کے سابقہ مشیر برائے قومی سلامتی جان بولٹن کی ہے اور دوسری تصنیف میری ٹرمپ جو کہ رشتے میں ٹرم کے بھائی کی بیٹی یعنی ان بھتیجی لگتی ہیں ان کی ہے. دونوں کتابیں ان دنوں پوری دنیا کے ساتھ ساتھ خصوصاً اہل امریکہ کے لیے خاصی دلچسپی کا باعث بنی ہوئی ہیں ۔

جان بولٹن کی کتاب’دی روم وئیر اٹ ہیپنڈ‘ (وہ کمرہ جہاں یہ سب کچھ ہوا) کے منظر عام پر آنے سے ٹرمپ کے تعلق سے بہت سے انکشافات ہونے کے ساتھ ساتھ انکی قیادت پر کافی سوالات اٹھنے کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے.

پتا یہ بھی چلا ہے کہ امریکی ایوانِ صدارت ’وہائٹ ہاؤس‘ کی کوشش ہے کہ وہ ان مذکورہ کتابوں کی اشاعت کو رکوائے، لیکن امریکی میڈیا کو ان  کتابوں میں شامل کچھ اقتباسات کے پیشگی نسخے مل چکے ہیں جنہیں وہ اب شائع کر رہے ہیں. 
ان اقتباسات کی روشنی میں یہ خلاصہ ہوا ہے کہ  ٹرمپ دوبارہ انتخابات جیتنے کے لیے چین سے مدد مانگ رہے تھے. اس ضمن میں جان بولٹن اپنی کتاب میں صدر ٹرمپ اور چینی صدر کے درمیان گذشتہ برس جاپان میں ہونے والی جی-20 کی سربراہی کانفرنس کے دوران ایک ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ امریکی صدر نے ’حیرت انگیز انداز میں وہاں موضوعِ گفتگو (سنہ 2020 کے) امریکی انتخابات کو بنا دیا جو کہ چین کی اقتصادی صلاحیت کی نشاندہی تھی اور جس میں چینی صدر سے ایک التجا تھی کہ وہ اُن کی فتح کو یقینی بنائیں۔‘ اس موقع پر صدر ٹرمپ نےکسانوں کی اہمیت پر اور چین کی جانب سے سویابین اور گندم کی خریدنے کی ضرورت اور اس کے امریکی انتخابات پر اثرات پر گفتگو کی۔‘
بولٹن کہتے ہیں کہ صدر ٹرمپ نے چینی صدر سے کہا تھا کہ امریکی ان کو اتنا پسند کرتے ہیں کہ وہ آئین میں ترمیم کر کے انھوں دو سے زیادہ مرتبہ صدر منتخب کرنا چاہتے ہیں۔

جبکہ وال سٹریٹ جرنل کے ایک اقتباس کے مطابق بولٹن نے لکھا ہے کہ ’ایک رات جب صدر شی نے کہا کہ وہ صدر ٹرمپ کے ساتھ مزید چھ برس تک کام کرنا چاہتے ہیں تو ٹرمپ نے جواب دیا کہ لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ امریکہ میں دو مدتوں کی حد کے قانون کو صدر ٹرمپ کے لیے منسوخ کردینا چاہیے۔‘ شی نے کہا کہ ' امریکہ میں بہت زیادہ انتخابات ہوتے ہیں، کیونکہ میں ٹرمپ کو بدلنا نہیں چاہتا ہوں، ٹرمپ نے اشارے سے ان کی توثیق کی۔‘

چین جس پر اویغور اور دیگر نسلی اقلیتیوں پر امتیازی سلوک کی وجہ سے دنیا بھر میں تنقید ہو رہی ہے جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ لاکھوں افراد کو سنکیانگ کے کیمپوں میں زیرِ حراست رکھا گیا ہے۔جبکہ ٹرمپ نے کہا کہ جیلوں کی تعمیر ایک ’درست اقدام ہے‘جبکہ ابھی پچھلے ہی دنوں امریکی صدر ٹرمپ نے وسیع سطح پر لوگوں کو زیرِ حراست رکھنے کی وجہ سے چین پر نئی پابندیاں عائد کی ہیں جس پر چین نے کافی سخت جواب دیا ہے۔

لیکن بولٹن کی کتاب میں لکھا ہے کہ جب چینی صدر نے ان حراستی مرکزوں کی تعمیر کا دفاع کیا تو امریکی صدر نے ان کے ان اقدامات کی توثیق کی۔اس بابت بولٹن مذید لکھتے ہیں کہ ’ہمارے ایک مترجم کے مطابق صدر ٹرمپ نے کہا کہ چینی صدر کو حراستی کیمپوں کی تعمیرکا کام جاری رکھنا چاہیے، جو ٹرمپ کے مطابق ایک بالکل درست اقدام تھا۔‘
ادھر خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' کے مطابق چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان سے جب جان بولٹن کے مذکورہ کتاب میں کیے گئے دعویٰ کے متعلق پوچھا گیا تو اُن کا کہنا تھا کہ چین امریکہ کے صدارتی انتخابات میں مداخلت کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔

جان بولٹن نے اپنی تصنیف میں ڈیموکریٹس کے ان الزامات کی بھی حمایت کرتے ہیں جن میں صدر ٹرمپ یوکرین کی مالی امداد روکنا چاہتے تھے تاکہ وہ اس ملک کو اپنے مد مقابل جو بائیڈن کے خلاف تحقیقات شروع کروانے کے لیے دباؤ ڈال سکیں۔ یہ وہ الزام تھا جس نے ٹرمپ کا مواخذہ شروع کرایا تھا۔بولٹن ڈیموکریٹس پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انھوں نے صرف یوکرین پر بات کر کے ’برے انداز میں مواخذہ‘ کیا۔

بولٹن کا خیال ہے کہ اگر ڈیموکریٹس اس عمل کو ذرا زیادہ پھیلا دیتے تو امریکیوں کی بڑی تعداد اس بات کو تسلیم کرتی کہ صدر ٹرمپ نے ’سنگین جرم اور شدید بد اعمالی‘ کی ہے جس کی بنا پر انھیں برطرف کیا جانا ضروری ہے۔

 بولٹن نے اپنی کتاب میں ایسی کئی مثالوں کا بھی ذکر کیا ہے جن کے مطابق وہائٹ ہاؤس کے اہلکاران صدر ٹرمپ کا مذاق اڑاتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ وہائٹ ہاؤس کو ایک ناکارہ ادارہ کہتے ہیں. جس میں کسی اجلاس کا ماحول ایک پالیسی ساز ادارے کے بجائے کھانے کے لیے جھگڑے کا ماحول پیش کرتا ہے۔چنانچہ اس تناظر میں بولٹن اپنا ذاتی تجربہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جب وہ وائٹ ہاؤس میں کام کرنے کے لیے آئے تو وہاں کے چیف آف سٹاف نے خبردار کیا تھا کہ ’یہ کام کے لیے ایک بری جگہ ہے، اور آپ کو جلد ہی پتہ چل جائے گا۔‘

دوسری طرف صدر ٹرمپ نے گزشتہ دنوں ایک انٹرویو میں جان بولٹن کے دعووں سے متعلق کہا کہ بولٹن نے انتہائی حساس معلومات عوام کے سامنے لا کر قانون شکنی کی ہے۔ بعد ازاں ٹرمپ نے اپنے ایک ٹوئٹ میں جان بولٹن کی کتاب کو جھوٹ کا پلندہ اور جھوٹی کہانیوں کا مجموعہ قرار دیا۔

واضح رہے کہ مذکورہ کتاب کے مصنف جان بولٹن نے 17 ماہ تک وہائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر رہنے کے بعد گزشتہ سال ستمبر میں صدر ٹرمپ کی ہدایت پر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے گئے تھے ۔ یہاں واضح رہے کہ صدر ٹرمپ نے بولٹن سے اپنے اختلاف کے باعث استعفیٰ طلب کیا تھا۔

 اسی طرح میری ٹرمپ جو کہ صدر ٹرمپ کے بڑے بھائی فریڈ ٹرمپ جونیئر کی بیٹی ہیں نے بھی ایک یادداشت تحریر کر اسے کتاب کی شکل دی ہے. پیپل میگزین کے مطابق میری ٹرمپ کی پیدائش سنہ 1965 میں ہوئی اور اس وقت نیو یارک کے لانگ آئیلینڈ میں رہائش پذیر ہیں. قابل ذکر ہے کہ میری کے والد فریڈ ٹرمپ جونیئر جن کا سنہ 1981 میں 42 سال کی عمر میں انتقال ہو گیا تھا. 

فوربز میگزین کے مطابق میری ٹرمپ نے میساچوسیٹس میں ٹفٹس یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں بیچلرز اور نیو یارک کی کولمبیا یونیورسٹی سے اسی مضمون میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی  اور نیو یارک کی ایڈیلفی یونیورسٹی سے کلینیکل نفسیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی. لنکڈ ان پروفائل کے مطابق میری ٹرمپ ایک مصدقہ پیشہ ور لائف کوچ ہیں لیکن اب یہ پروفائل حذف کر دیا گیا ہے. 2012 میں میری نے مبینہ طور پر نیو یارک میں 'ٹرمپ کوچنگ گروپ' نام کی ایک کمپنی کی بنیاد رکھی۔

اسی طرح ان کی ویب سائٹ پر لکھا ہے: 'کیا آپ افسردہ اور اداس ہیں؟ کیا آپ اپنی زندگی کا صحیح مقصد ڈھونڈ رہے ہیں؟ اگر ہاں تو ہمارے لائف کوچز آپ کو ایسے گھٹتے ہوئے نا امیدی کے حالات سے نکال سکتے ہیں۔'ان سے منسوب ٹویٹس سے معلوم پڑتا ہے کہ میری ٹرمپ اپنے چچا کے سنہ 2016 میں صدر منتخب ہونے کے دن بہت افسردہ و رنجیدہ تھیں۔ جبکہ ایک پوسٹ میں ان کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ 'یہ میری زندگی کی بدترین راتوں میں سے ایک ہے۔' اسی طرح ایک اور ٹویٹ میں صدارتی انتخابات میں شکست سے دوچار ہونے والی ہلیری کلنٹن کو 'ایک غیر معمولی انسان اور عوام کی خدمت کرنے والی' کہا گیا۔

میری ٹرمپ نے جو اپنی یادداشت کی شکل میں کتاب تحریر کی ہے اسے شائع کرنے والی امریکی کمپنی سائمن اور شسٹر نے اعلان کیا کہ میری ٹرمپ کی یہ کتاب جس کا عنوان 'ٹو مچ اینڈ نیور اینف: ہاؤ مائی فیملی کریئٹیڈ دی ورلڈز موسٹ ڈینجرس مین' یعنی ’میرے خاندان نے کس طرح دنیا کا سب سے خطرناک انسان پیدا کیا‘ ہے کی نقاب کشائی 28 جولائی تک ہونے کا امکان ہے. 

چنانچہ اس سلسلے میں کتاب کے متعلق ایک جاری اشتہار میں کہا گیا ہے کہ مصنفہ اپنے چچا کے بارے میں بتائيں گی کہ کس طرح وہ ایسے آدمی بنے جو آج دنیا کی صحت، معاشی سکیورٹی اور سماجی ہم آہنگی کے لیے خطرناک ثابت ہو رہے ہیں. وہ کتاب میں واضح کرتی ہیں کہ کس طرح مخصوص واقعات اور خاندانی رویوں نے اس نقص والے آدمی کو پیدا کیا جو فی الحال اُوول آفس پر قابض ہے۔ اس کے ساتھ فریڈ ٹرمپ اور ان کے دو بڑے بیٹوں فریڈ جونیئر اور ڈونلڈ کے درمیان عجیب اور نقصان دہ تعلقات کے متعلق وضاحت بھی شامل ہے۔'

پولٹزر ایوارڈ یافتہ خبر میں الزام لگایا گیا تھا کہ صدر 'پر فریب' ٹیکس سکیموں میں ملوث تھے اور انھوں نے اپنے والد کے ریئل اسٹیٹ کے کاروبار سے آج کی رقم میں 40 کروڑ ڈالر سے زیادہ کی جائیداد حاصل کی. واضح رہے کہ اپنے چچا ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد سے میری ٹرمپ زیادہ تر شہرت کی چکاچوند سے دور رہیں. حالانکہ وہ بیتے ایک زمانے سے ٹرمپ کی ایک بڑی ناقد چلی آر ہی ہیں. دونوں میں سرد تعلقات کی کہانی کم از کم 20 سال پرانی ہے جب انھوں نے اور ان کے بھائی نے اپنے چچا اور ان کے بھائی بہنوں کے خلاف مقدمہ دائر کیا تھا. یہاں قابل ذکر ہے کہ سنہ 2000 میں میری ٹرمپ اور فریڈ ٹرمپ سوئم نے اپنے دادا فریڈ ٹرمپ سینیئر کی جائیداد کے متعلق مقدمہ دائر کیا تھا۔نیو یارک ڈیلی نیوز کے مطابق مقدمے میں کہا گیا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے باقی بھائی بہنوں نے سنہ 1991 میں ان کے دادا کی کمزور یادداشت اور علالت کا فائدہ اٹھا کر ان کی وصیت کو اس وقت 'دھوکے اور ناجائز اثرورسوخ سے‘ بدلا ۔

میری ٹرمپ نے کہا تھا کہ ان کی پھوپھیوں اور چچاؤں کو 'خود سے شرم آنی چاہیے۔'
اُس وقت انھوں نے اخبار کو بتایا تھا کہ ’خاندان کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا بالکل صحیح ہوگا کہ یہ سب پیسوں کے لیے کیا گیا۔'

میری ٹرمپ اور ان کے بھائی نے اس وقت دوبارہ مقدمہ دائر کیا جب ٹرمپ کمپنی کی جانب سے انھیں فراہم کیا جانے والا میڈیکل بیمہ منسوخ کر دیا گیا تھا. جو بظاہر پہلے کی جانے والی قانونی کارروائی کا انتقام تھا۔

کل ملا کر کہا جا سکتا ہے کہ آئندہ انتخاب میں ایک بار پھر سے ٹرمپ کا بطور امریکی صدر وہائٹ ہاؤس جانا بے حد مشکل نظر آتا ہے. کیونکہ اس بار ان کے دور حکومت میں جس طرح سے امریکہ میں نسلی امتیازات کو لیکر تشدد و مظاہرے برپا ہوئے ہیں ان کے چلتے امریکہ کے گورے اور سیاہ فام دونوں ہی کثیر تعداد میں ٹرمپ کے مخالف نظر آتے ہیں. دوسرے کورونا کی روک تھام میں موجودہ حکومت کی کارکردگی سے بھی لوگ بے حد مایوس ہیں. تیسرے آنے والے دنوں میں مذکورہ دونوں کتابیں صدر ٹرمپ کے خلاف کیا کیا نئے گل کھلاتی ہیں یہ بھی دیکھنا بے حد دلچسپ ہوگا.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad