تازہ ترین

منگل، 23 جون، 2020

ہندوستان میں آزادانہ سوچ تنزلی کا شکار

ذوالقرنین احمد (فری لانس جرنلسٹ)مودی حکومت کے دوسری مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد سے فرقہ پرستوں کے حوصلے بلند ہو چکے ہیں، دراصل انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو ملک میں ایک غنڈا راج نافذ ہو چکا ہے۔ حکومت اپنی مرضی اور پارٹی لیڈران کے حق میں فائدہ مند فیصلے کر رہی ہے۔ ۲۰۱۴ میں اقتدار پر قابض ہونے کے بعد بی جے پی نے سافٹ ہندوتوا کے‌ مطابق خاموشی کے ساتھ اقلیتوں کے خلاف ماحول بنایا، مسلمانوں کے پرسنل لاء میں مداخلت کرنی شروع کی دہشت گرد مخالف قانون میں ترامیم کرکے اسے سخت کیا گیا تاکہ پوری دُنیا میں ۲۶/ ۱۱ کے بعد جسطرح اسلاموفوبیا کے نام پر اسلام مسلمانوں کو دہشتگردی سے جوڑا گیا اس قانون کے تحت مسلمانوں کو آسانی سے  نشانہ بنایا جا سکے۔ اور دوسری بار مرکزی حکومت میں اقتدار حاصل کرنے کے بعد  کھل کر سنگھی ذہنیت کا مظاہرہ کرنا شروع کردیا بابری مسجد کے فیصلے میں نا انصافی کی گئی

، ہندو راشٹر بنانے کیلے مرحلے وار قانون میں تبدیلیاں شروع کردی گئی۔ یہ ایک ایسا ہتھیار ہے کہ مسلمانوں کے خلاف ایسی صورت حال اور فضا ملک میں قائم کی گئی اگر وہ انصاف نہ ملنے پر جمہوری انداز میں بھی احتجاج کرتا ہے تو وہ دیش مخالف سرگرمیوں میں شمار ہوگا اور اسکے اوپر دیش دروھی کے مقامات درج کردیے جائیں گے۔ اسی وجہ سے ہمارے سیاسی قائدین، ملی تنظیموں کے قائدین کے اندر بھی اس قدر دیش بھکتی کوٹ کوٹ کر بھر دی گئی ہے کہ مذہب سے اوپر اٹھ کر دیش بھکتی دیکھانے پر مجبور ہوچکے ہیں۔

دیگر کمیونٹی کو اس بات سے کوئی خاص فرق نہیں پڑھتا ہے کیونکہ انکے عقدے مختلف خداؤں پر ہے لیکن صرف مسلمان ہی ہے جنکا عقیدہ یقین ایک اللہ پر ہے۔ مشرکین کفار کا حال یہ ہے کہ اپنی جان بچانے اور مفاد کی خاطر اپنے عقیدے کو چھوڑ دیتے ہیں۔

 فرقہ پرست حکومت کو اب ہندو راشٹر کے خواب کو پورا کرنے کیلے یہ آخری موقع دیکھائی دے رہا ہے اس لیے سافٹ ہندوتوا کے نظریے کے ساتھ غیر محسوس انداز میں وہ اپنے ایجنڈے پر کام کرنے میں لگے ہیں۔ آج ملک سنگین صورتحال سے دوچار ہے لیکن حکومت کو عوام کے  مسائل حل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اقلیتوں کے خلاف خصوصا مسلمانوں کو نشانہ بنانے کیلئے قانون سازی کی جارہی ہے۔ 

اور میڈیا کے ذریعے نفرت کا ماحول پیدا کیا جارہا ہے۔ انکے ساتھ نا انصافی، کی جارہی ہے جمہوری ملک میں جو برابری کے حقوق عوام کو ملنے چاہیے اقلیتوں سے چھینے جارہے ہیں۔ اب دلتوں سے ریزرویشن کو ختم کرنے کی تیاری ہورہی ہے۔ مسلمانوں کو شہریت ترمیمی قانون کے تحت ملک بدر کرنے ڈیٹینشن سینٹروں میں قید کرنے کی کوشش جاری ہے۔ ایک جمہوری ملک میں ہر شخص کو آزادی انصاف اور برابری کا حق حاصل ہے لیکن حکومت ہندو راشٹر کے قیام کیلے حقوق کو غصب کر رہی ہے۔ انصاف کے پیمانے بدل چکے ہیں یہاں ظالم کو رہا کردیا جاتا ہے اور مظلوموں کو قید گیا جاتا ہے۔

جمہوری انداز میں اپنے حق کیلے آواز اٹھانے والوں کے خلاف ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے جیسے قانون لگا کر پابند سلاسل کردیا جاتا ہے۔ جن مسلمانوں کی بستیاں جلتی ہے جنکی دوکانیں جلتی جنکے لوگ مرتے ہے انھیں کو مجرم قرار دیا جاتا ہے۔ انصاف اور حقوق کیلے حکومت سے مطالبہ کرنے پر جیلوں میں بند کردیا جاتا ہے۔ اس فرقہ پرست بی جے پی سنگھی حکومت کی ناکامیوں کو اجاگر کرنے والا حکومت کو اپنی غلطیاں بتانے والا ہر شخص مجرم قرار پاتا ہے۔ ڈاکٹر کفیل، شرجیل امام، صفورا زرگر، ڈاکٹر ظفرالسلام، طاہر مدنی، کو مسلمانوں کے حق میں بولنے پر اور جامعہ ملیہ اسلامیہ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، کے طلبہ کو غیر جمہوری شہرت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کرنے پر گرفتار کرلیا گیا ہے۔ دہلی فسادات میں مسلم نوجوانوں اور سوشل ایکٹویسٹ کو ذمہ دار ٹہرایا جارہا ہے۔ 

جس میں اصل مجرم کپل مشرا وغیرہ کے نام چارج شیٹ سے غائب ہے۔ اب ملک میں کھلے عام منصف، حق پسند شخصیات کی گرفتاری کا سلسلہ جاری ہے۔ اور دراز ہوتا جارہا ہے۔ حکومت یونیورسٹی کے طلباء و طالبات سے اتنی خوف زدہ کیوں ہے۔ دھشت گردوں کے ساتھ ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے والوں کو رہا کردیا جارہا ہے انکے خلاف چارج شیٹ داخل نہیں کی جاتی ہے کیونکہ اس دہشت گرد نے یہ کہا تھا کہ میرے ساتھ بڑے بڑے چہرے بھی زد میں آئیگے۔

آج ملک میں آزادنہ سوچ اور حقوق و انصاف مانگنے والوں کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے۔ اگر کوئی حکومت کے خلاف احتجاج کرے آواز بلند کرے تو وہ سمجھتا ہے کہ اب وہ فرقہ پرستوں کے نشانے پر ہے نا جانے کس جگہ پر اسکا قتل کردیا جائے۔ یا مابلنچینگ میں ماردیا جائے یا اس پر جھوٹے الزامات عائد کرکے عمر بھر کیلے جیل میں بند کردیا جائے۔ کھلے عام جمہوری ملک میں عوام کا استحصال ہورہا ہے۔ عدالتوں سے عوام کا اعتماد اٹھتا جارہا ہے۔ انصاف مہیا کرنے والے ادارے مرکزی حکومت سے جواب طلب کرتے ہے اور مرکز کے جواب کا انتظار کرتی ہے‌ کہ فیصلہ کیسا سنانا ہے۔

بابری مسجد فیصلہ سے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ فرقہ پرستوں کیلے عدالتیں قانون اور آئین کو بلائے طاق رکھ کر فیصلے صادر کیے جاتے ہیں۔ اس لیے اب ضرورت ہے کہ ملک میں حکومت کے غیر منصفانہ نظام کے خلاف سخت اقدامات اٹھانے چاہیے اقلیتوں کو اپنے تحفظ کیلے اقدامات کرنے چاہیے اب وفا کا جنازہ ڈھوتے رہنا اپنے اور آنے والی نسل کے مستقبل کو غلام ذہنیت بنانے کے مترادف ہے۔ آج مسلمانوں کو متحد ہوکر ملک میں ہر اعتبار سے مستحکم مضبوط ہونا بے حد ضروری اور لازم ہے ورنہ اس سے بھی بدتر حالات کا مقابلہ کرنے کیلے تیار رہنا چاہیے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad